"MIK" (space) message & send to 7575

حُسن کی خیر ہو…

معاملہ حُسن کی تابندگی برقرار رکھنے کا ہے۔ حُسن کا تعلق چونکہ اصلاً خواتین سے ہے اِس لیے ''مجبوری کا نام شکریہ‘‘ کے اصول کو بنیاد بنا کر اصولوں پر سمجھوتہ لازم ٹھہرتا ہے۔
ایک زمانے سے سُنتے آئے ہیں کہ ضِد اگرچہ سبھی کرتے ہیں مگر تین ضِدیں سب پر بھاری ہیں؛ ایک تو ہے کہ بالک ہٹھ یعنی بچے کی ضِد۔ بچہ اگر مچل جائے تو پھر لاکھ منائیے، وہ مان کر نہیں دے گا۔ سُنتے ہیں بچوں کے آگے تو شیطان بھی ہاتھ جوڑ دیتا ہے۔ دوسرے نمبر پر ہے راج ہٹھ یعنی بادشاہ کی ضِد۔ بادشاہ پوری ریاست پر متصرّف ہوتا ہے۔ جو چاہے سو کرے۔ اُس کی ضِد کا کیا کہنا۔ بادشاہ اگر ضِد پر آئے تو پورے ملک اور معاشرے کے ڈھانچے کو اُلٹ پلٹ دے۔ اور تیسرے نمبر پر تریا ہٹھ ہے یعنی عورت کی ضِد۔ عورت ضِد پر آجائے یا (ذرا احترام کے ساتھ) اگر خواتین ضِد پر آجائیں، کچھ کرنے گزرنے کی ٹھان لیں تو سمجھ لیجیے کہ گئی بھینس پانی میں۔ (واضح رہے کہ پانی میں جانے والی بھینس مردوں کی ہے، خواتین کی نہیں!)
یوں تو خیر خواتین کی تقریباً ہر ضِد ہی لاجواب قرار دی جا سکتی ہے مگر حُسن برقرار رکھنے کا معاملہ ایسا ہے کہ ہر ضِد اِس کے آگے سجدہ ریز دکھائی دیتی ہے۔ سوال حُسن کی حفاظت کا ہو تو خواتین ضِد کے تمام ''ساؤنڈ بیریئرز‘‘ توڑنے پر ہمہ وقت آمادہ رہتی ہیں! حسین دکھائی دینے کے لیے خواتین کو کسی بھی حد سے گزرنے کے لیے اِس قدر تیار دیکھا گیا ہے کہ تیاری کی اِس حالت کو فوجی تربیت کا حصہ بھی بنایا جا سکتا ہے!
آپ نے پرانی فلموں میں دیکھا ہوگا کہ لڑکا یعنی ہیرو کسی لڑکی سے محبت کا اظہار کرتا تھا تو اُس کے لیے کچھ بھی کر گزرنے پر آمادگی، بلکہ بے تابی دکھاتا تھا۔ ایسے میں ایک جملہ پورے مکالمے کا حصہ ضرور ہوتا تھاکہ... میں تمہارے لیے تارے بھی توڑ کر لا سکتا ہوں۔ کوئی لڑکا کسی لڑکی کے لیے تارے توڑ کر لا سکتا ہے یا نہیں یہ تو ہم نہیں جانتے مگر ہاں اِتنا ہمیں ضرور اندازہ ہے کہ حُسن میں اضافے اور اُس اضافے کو برقرار رکھنے کی کوئی مؤثر دوا تاروں پر پائی جاتی ہو تو خواتین تارے توڑ کر وہ دوا حاصل کرنے کی کوشش سے گریز نہیں کریں گی! 
ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ چہرے کی تازگی و شادابی برقرار رکھنے کے لیے خواتین بہت سی ایسی چیزوں کا لیپ استعمال کرتی ہیں جو اصلاً کھانے کے لیے ہیں۔ واضح ترین مثال کھیرا ہے۔ کھیرے کے ٹکڑے آنکھوں پر رکھ کر اور اُس کا لیپ چہرے پر لگاکر خواتین چہرے کی شادابی میں اضافہ یقینی بنانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اب ایک اہم آئٹم کی کمی سے سلاد بے جان و بے مزا ہوتا ہے تو ہو جائے! بہت سے پھل بھی اِسی مصرف کے ہو کر رہ گئے ہیں۔ جسے نچوڑ کر معدے میں اتارنے سے جسم تازگی اور توانائی پاتا ہے‘ وہ چیز چہرے کی نذر ہو جاتی ہے۔
لوگ ابھی یہ سوچ ہی رہے تھے کہ خواتین حُسن برقرار رکھنے کے لیے خدا جانے کون کون سے سنگ ہائے میل عبور کریں گی کہ حُسن کو تحفظ فراہم کرنے کی کوششوں کا سلسلہ گدھوں تک پہنچ گیا! ہو سکتا ہے کہ آپ سوچیں اِس میں نئی اور حیرت کی بات کیا ہے، حُسن کو برقرار رکھنے سے متعلق خواتین کی کوششوں کا خرچ آج تک ''گدھے‘‘ ہی تو برداشت کرتے آئے ہیں! ٹھیک ہے مگر جناب! ہم ناز برداری والے نہیں بلکہ بار برداری والے یعنی اصلی گدھوں کی بات کر رہے ہیں!
چین سمیت کئی ممالک میں گدھوں کی تعداد اِتنی تیزی سے گھٹ رہی ہے کہ متعلقہ ماہرین یہ سوچ کر پریشان ہیں کہ کہیں دنیا بھر کے گدھے حُسن کی چوکھٹ پر قربان نہ کر دیئے جائیں! چین میں کچھ برس پہلے تک ایک کروڑ دس لاکھ گدھے تھے۔ اب صرف ساٹھ لاکھ رہ گئے ہیں۔ اگر تعداد گھٹنے کی یہ رفتار برقرار رہی تو کچھ مدت کے بعد چین میں صرف دو ٹانگوں والے گدھے رہ جائیں گے!
گدھوں کے کم ہوتے چلے جانے کا سبب؟ گدھے کی کھال میں جیلی نما ایسا مادّہ پایا جاتا ہے جو خواتین کے چہرے کی جلد کو تروتازہ ہی نہیں رکھتا بلکہ ''اینٹی ایجنگ ایجنٹ‘‘ کے طور پر بھی کام کرتا ہے یعنی عمر کے اثرات زائل کرنے میں مدد دیتا ہے۔ عمر چھپانے کے معاملے میں خواتین بہت حسّاس ہوتی ہیں۔ مگر ساتھ ہی ایک احساسِ جرم بھی باقی رہتا ہے کہ جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔ گدھوں نے مشکل آسان کر دی ہے یعنی عمر کے بیان میں جھوٹ بولنے کی قباحت سے بھی بچا لیا!
گدھے کی کھال میں پائے جانے والے جیلیٹن سے بنائی جانے والی جیلی نما سیّال دوا ''ریجاؤ‘‘ چین میں بے حد مقبول ہے۔ کروڑوں خواتین یہ دوا بخوشی استعمال کرتی ہیں۔ ''ریجاؤ‘‘ کا ایک ضمنی فائدہ یہ بھی ہے کہ اِسے پانی یا دودھ میں گھول کر پینے سے بے خوابی بھی دور ہوتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اب بے چارے گدھوں کی نیندیں اُڑی ہوئی ہیں!
''ریجاؤ‘‘ کی بڑے پیمانے پر تیاری کے لیے پہلے تو چین کے گدھے حُسن کی چوکھٹ پر قربان ہوئے۔ پھر افریقا کے گدھوں کی باری آئی۔ وہاں سے گدھے اِتنے بڑے پیمانے پر چین کو برآمد کیے گئے کہ گدھوں کی گھٹتی ہوئی تعداد سے ماہرین اور عوام دونوں ہی پریشان ہو اٹھے۔ ''گدھیائی‘‘ ہوئی صورتِ حال کا نوٹس لیتے ہوئے کئی افریقی ممالک میں حکومت نے گدھے برآمد پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ ہوسکتا ہے اِس پابندی کا ایک سبب یہ بھی ہو کہ افریقا کے طول و عرض میں آمریت کا دور دورہ ہے اور اِس طرزِ حکومت کو قائم و دائم رکھنے کے لیے سِکّہ بند گدھے کلیدی کردار ادا کرتے ہیں!
افریقا سے مایوس ہونے پر چین نے اچھے بُرے تمام لمحات کے دوست‘ پاکستان کی طرف دیکھا تو ہم نے یہ سوچا کہ ہمارے ہاں تو گدھے کچھ زیادہ ہیں اس لیے تھوڑے بہت بیچ اور بھیج دینے میں کچھ ہرج نہیں، قباحت نہیں! بس پھر کیا تھا، ''پاک چین دوستی زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے ہم نے اپنے گدھوں کو چین پر نچھاور کرنا شروع کیا۔ صد شکر کہ میڈیا میں شور برپا ہونے پر تھوڑے ہی عرصے میں اِس معاملے کا ٹیمپو ٹوٹ گیا ورنہ افریقیوںکی طرح ہمیں بھی اپنے ہاں گدھے تلاش کرنے کے لیے چراغ کا سہارا لینا پڑتا!
ہم نے تو کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ حُسن کے دربار میں نذرانے پیش کرنے کی تان گدھوں پر ٹوٹے گی اور وہ بے چارے اتنی تیزی سے اور اتنے بڑے پیمانے پر قربان کیے جائیں گے کہ نسل کے معدوم ہوجانے کا خطرہ اُن کے سَروں پر منڈلانے لگے گا! صد شکر کہ مَردوں کی جلد میں ایسا کوئی مادّہ نہیں پایا جاتا جو خواتین کا حُسن برقرار رکھنے میں مرکزی کردار ادا کرتا ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر چار ٹانگوں والے گدھوں کی طرح دو ٹانگوں والے گدھے بھی ''ریجاؤ‘‘ کے مینو فیکچرنگ پلانٹس کی نذر ہو رہتے! بہر کیف ؎ 
کسی کے حُسن کی تابندگی رہے باقی 
گدھوں کا کیا ہے، جہاں میں رہے‘ رہے نہ رہے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں