وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ معاشرہ انتہائی ترقی یافتہ ہو یا انتہائی پس ماندہ، محنت وہی کرتا ہے جسے محنت کرنے کی توفیق عطا کی گئی ہو۔ کام اُسی کو اچھا لگتا ہے جسے گھر اور خاندان کے ماحول میں کام کرنے اور کام کی عزت کرنے، کرانے والے ملے ہوں۔ بچہ وہی سیکھتا ہے جو وہ اپنے قریب ترین ماحول یعنی گھر میں دیکھتا ہے۔ اور جو کچھ وہ سیکھتا ہے وہ زندگی بھر اُس کے ساتھ رہتا ہے اور کبھی کبھی تو تعاقب بھی کرتا ہے یعنی بچے کے لیے مرتے دم تک سیکھے کو اَن سیکھا کرنا، تگ و دو کے باوجود، ممکن نہیں ہو پاتا۔
پاکستانی معاشرہ دوسری بہت سی باتوں کے ساتھ ساتھ اپنی تمام خرابیوں میں بھی ''اصیل‘‘ دکھائی دیتا ہے یعنی جو بھی خرابی ہے وہ منفرد ہے اور ایسا لگتا ہے کہیں سے نہیں لی گئی بلکہ خود پروان چڑھائی گئی ہے! آپ سوچیں گے خرابیاں تو ہر معاشرے میں پائی جاتی ہیں۔ اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیں مگر پھر بھی صاف محسوس ہوتا ہے کہ ہم بعض معاملات میں انتہائی منفرد واقع ہوئے ہیں۔ عرض ہے کہ یہ محض احساس یا تاثر ہے۔ ہمارے ہاں جو کچھ ہو رہا ہے وہی باقی دنیا میں بھی ہو رہا ہے۔ یا یہ سمجھ لیجیے کہ جو کچھ باقی دنیا میں ہو رہا ہے وہی کچھ ہمارے ہاں بھی ہو رہا ہے۔ بیشتر معاشرتی خرابیوں کے معاملے میں ہماری ''انفرادیت‘‘ محض ''التباسِ بصر‘‘ یعنی نظر کا دھوکا ہے!
جسے بھی ذرا سا ہٹ کر، سنجیدگی کے ساتھ دیکھنے اور سوچنے کی توفیق نصیب ہو اُس کے لیے ہر معاملہ شدید پریشانی کا باعث ہوتا ہے۔ اپنی اور معاشرے کی خرابیوں کے بارے میں سوچ سوچ کر ہم بھی الجھتے رہتے ہیں اور ہماری سمجھ میں بسا اوقات یہ بات نہیں آتی کہ خامیوں اور خرابیوں کے اس دریا کی روانی کبھی تھمے گی بھی یا نہیں۔ اپنے اور معاشرے کے بارے میں‘ ذہن کے کباڑ خانے میں پڑا ہوا یہ سارا ''ٹین ٹبّر‘‘ ہمیں اُس وقت یاد آیا جب ہم نے چین میں بھیک مانگنے کے جدید ترین طریقوں سے متعلق ایک خبر پڑھی۔ خبر کچھ یوں ہے کہ چین میں بھکاری اب جدید ترین سمارٹ فونز اور موبائل ایپس کا سہارا لے رہے ہیں۔ بیجنگ، شنگھائی اور دیگر بڑے اور چھوٹے شہروں میں بھکاری اب آن لائن بھیک لے رہے ہیں۔ وہ فٹ پاتھ پر بیٹھ کر اپنے سامنے ''کیو آر کوڈ‘‘ رکھ دیتے ہیں تاکہ راہ گیر اُسے سکین کرکے‘ پیسے دینے کے لیے استعمال ہونے والی موبائل ایپس کے ذریعے‘ انہیں بھیک دے سکیں۔ اگر کوئی شخص بھیک نہ بھی دے تو محض کیو آر کوڈ سکین کرنے کی صورت میں بھکاری کے اکاؤنٹ میں پاکستانی بیس روپے تک کی رقم پہنچ جاتی ہے!جدید ترین طریقے اپنانے والے یہ بھکاری اگر ہفتے میں صرف 45 گھنٹے بھیک مانگیں تو ماہانہ‘ پاکستانی 70 ہزار روپے تک کما لیتے ہیں جو چین میں کسی مزدور کی کم ترین ماہانہ اجرت کے مساوی ہے!
بہت خوب! اندازہ لگائیے کہ چین جیسے ملک میں بھی بھیک مانگنے کی لعنت نے اب تک‘ نہ صرف یہ کہ دم نہیں توڑا بلکہ ''تجدیدِ عہدِ وفا‘‘ کرتے ہوئے جدید ترین ٹیکنالوجی کو یوں گلے لگایا گیا ہے گویا مہارت کی دہلیز عبور کی ہے! چینیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بے انتہا محنتی واقع ہوئے ہیں۔ انہوں نے دنیا بھر میں جہاں بھی قدم رکھا ہے، لیاقت کے ساتھ ساتھ مہارت، دیانت اور محنت کا لوہا بھی منوایا ہے۔ بادی النظر میں تو ایسا لگتا ہے کہ چینی معاشرے میں ان افراد کے لیے کوئی جگہ نہ ہوگی جو کچھ کرنے کے بجائے ایک طرف بیٹھ کر مفت کی روٹیاں توڑتے ہیں۔ کرپشن کی سزا وہاں موت ہے۔ آئے دن خبریں آتی رہتی ہیں کہ کرپشن ثابت ہونے پر سرکاری افسران و اہلکاروں کو سزائے موت دے دی گئی۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہڈ حرامی اور مفت خوری، کسی بھی درجے میں، کرپشن نہیں؟ جو لوگ دن رات برسوں کی ریاضت سے پائی ہوئی تعلیم یا تربیت کو بروئے کار لاتے ہوئے دن رات محنت کرکے اپنی زندگی کا معیار بلند کرنے کی کوشش کرتے ہیں اُن پر ظلم کی ایک صورت یہ بھی تو ہے کہ کچھ لوگوں کو بیٹھے بٹھائے زندگی کا سفر طے کرنے کے لیے درکار ہر چیز دے دی جائے۔
ترقی یافتہ معاشروں میں جس طور کرپشن انتہائی ممنوع ہے‘ بالکل اُسی طرح بھیک مانگنے کی قبیح عادت بھی شجرِ ممنوع کا درجہ رکھتی ہے۔ قانون کا سہارا لیتے ہوئے گداگری یا مفت خوری کو جرم کے درجے میں رکھا گیا ہے۔ ان معاشروں کے عوام کو بھی اچھی طرح اندازہ ہے کہ بہتر زندگی بسر کرنے کے لیے جن لوازم کی ضرورت ہے وہ برسوں کی عرق ریزی سے حاصل کردہ پیشہ ورانہ مہارت کو بروئے کار لاکر کی جانے والی شبانہ روز محنت سے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ وہاں محنت کو زندگی کی انتہائی بنیادی اور قابلِ احترام قدر کی حیثیت حاصل ہے۔ کچھ کیے بغیر روٹیاں توڑنے والوں کو شدید ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اِس کے باوجود طرفہ تماشا ہے کہ گداگری اور مفت خوری کی لعنت نہ صرف یہ کہ دم نہیں توڑ رہی بلکہ جدید ترین طریقوں کو اپناتے ہوئے ایک نئے مرحلے میں داخل ہوتی دکھائی دے رہی ہے!
چین میں گداگری عام نہیں مگر یہ بات اپنی جگہ ہے کہ یہ لعنت وہاں اب تک نہ صرف یہ کہ موجود ہے بلکہ جدید ترین ٹیکنالوجی کی بیساکھی کا سہارا لے کر کھڑی ہوئی ہے۔ چینی اور پاکستانی معاشرے کا موازنہ کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ‘ باضابطہ گداگری کے دائرے سے ہٹ کر بھی، ہم اب تک ہڈ حرامی اور مفت خوری کی دلدل میں گلے تک دھنسے ہوئے ہیں۔ لعنت ملامت سے بچنے کے لیے بہت سوں نے باضابطہ ملازمت کی چھتری تلے مفت خوری اور ہڈ حرامی کو حرزِ جاں بنا لیا ہے!
ہم ہر معاملے میں انتہا کے واقع ہوئے ہیں۔ ہمارے ہاں جنہیں اللہ نے محنت کرنے کی توفیق عطا کی ہے‘ وہ اتنی محنت کرتے ہیں کہ باقی معاشرہ انہیں دیکھ کر شرمسار ہوئے بغیر نہیں رہ پاتا۔ اور دوسری طرف انہوں نے بھی انتہا کردی ہے جنہوں نے طے کر رکھا ہے کچھ نہ کرتے ہوئے نہ صرف یہ کہ زندہ رہنا ہے بلکہ پُرلطف زندگی بسر کرنے کے لیے درکار ہر چیز حاصل کرنی ہے۔ کام کرنے والوں کے درمیان مسابقت سے تو دنیا اچھی طرح واقف ہے۔ کام نہ کرنے والوں کے درمیان اگر مقابلہ دیکھنا ہو تو دنیا ہماری طرف متوجہ ہو۔ یہاں کام نہ کرنے والوں کے درمیان مقابلہ ایسے ''جوش و خروش‘‘ سے جاری ہے کہ کام کرنے والوں کا جوش و خروش بھی دیکھے تو دانتوں تلے انگلی دبا لے اور شرم کے مارے گردن جھکا لے!
طرفہ تماشا یہ ہے کہ زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے کے لیے شبانہ روز محنت کرنے والوں کو وہ سب کچھ نہیں مل پاتا جو ہاتھ پر ہاتھ دھرے‘ بیٹھے رہنے والوں کو میسر ہے۔ اِس معاشرتی روش کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ ''یا ہڈ حرامی! تیرا ہی آسرا ہے‘‘ کا نعرہ لگا کر محنت سے جی چرانے کی روش پر گامزن ہونے والوں کی تعداد میں خطرناک تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ گویا ؎
محنت سے جی چرائے چلے جا رہے ہیں ہم
کس ''حُسنِ پرورش‘‘ سے پلے جا رہے ہیں ہم