"MIK" (space) message & send to 7575

ایک دن کی بادشاہت

بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ حیات بھی چند روزہ ہے اور دنیا کا بھی کچھ بھروسہ نہیں۔ کب کیا ہو جائے، کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ اِسی کیفیت کو بیان کرنے کے لیے کسی نے خوب کہا ہے ؎ 
مِرے محبوب نے وعدہ کیا ہے پانچویں دن کا 
کسی سے سن لیا ہو گا یہ دنیا چار دن کی ہے! 
جب دنیا ہی چار دن کی ہے تو زندگی کی کیا بساط؟ اُسے تو پھر پل دو پل کا معاملہ ہی سمجھیے۔ پورا معاملہ ایک دن کا ہے۔ مکیش کے گائے ہوئے ایک انمول گیت کا مکھڑا تو آپ کو یاد ہی ہوگا کہ ؎ 
اِک دن بِک جائے گا ماٹی کے مول 
جگ میں رہ جائیں گے پیارے تیرے بول 
اور کون جانتا ہے کہ بول بھی باقی رہ پائیں گے یا نہیں۔ یہاں تو ہر طرف ہر معاملے کا چل چلاؤ ہی لگا رہتا ہے۔
ہالا سے سکرنڈ جانے والی ایک بارات سے کیے جانے والے ''انصاف‘‘ نے ہمیں دنیا کی بے ثباتی اور چند روزہ حیات کا قصہ یاد دلایا۔ معاملہ یہ تھا کہ شنکر لعل کی بارات ہالا سے سکرنڈ جا رہی تھی۔ آپ نے باراتیں تو دیکھی ہی ہوں گی۔ جب کوئی بارات چل رہی ہوتی ہے تو خوشیوں بھرا ماحول بھی ساتھ ساتھ چل رہا ہوتا ہے۔ شنکر لعل کی بارات بھی انوکھی تو نہ تھی کہ خاموشی سے گزر جاتی۔
لیو ٹالسٹائی نے اپنے شہرہ آفاق ناول ''اینا کرینینا‘‘ کا آغاز ایک لافانی جملے سے کیا ہے۔ جملہ یہ ہے ''تمام خوش و خرم گھرانے ایک سے ہوتے ہیں جبکہ ہر ناخوش گھرانے کے پاس اپنے رنج الم کو پالنے اور بیان کرنے کا اپنا منفرد طریقہ ہوتا ہے‘‘۔ اس جملے کا پہلا حصہ بارات پر بھی منطبق ہوتا ہے۔ تمام باراتیں ہنستی گاتی، موج اڑاتی اور اپنی ہی موج میں بہتی ہوئی چلتی ہیں۔ شنکر لعل کی بارات بھی ''میں اُڈی اُڈی جاواں ہوا دے نال‘‘ کا مرقّع بنی ہوئی تھی۔ ایکو ساؤنڈ سسٹم پر گانے بجائے جارہے تھے اور باراتی گاتے گنگناتے جا رہے تھے کہ بیچ میں ہالا کورٹ آ گئی!
عدالت کے سامنے تیز آواز میں گانا بجانا؟ یہ تو حد ہی تھی۔ سول جج دیوان پردیپ کمار نے از خود نوٹس لیتے ہوئے شنکر لعل کی بارات کا دیپ بجھادیا! دلہا اور ایکو ساؤنڈ والی گاڑی کے ڈرائیور کو حراست میں لے لیا گیا۔ اور گاڑی بھی تحویل میں لے لی گئی۔
باراتیوں میں تو کھلبلی مچ گئی۔ مچنی ہی تھی۔ بارات کے بہتے دریا کو روک دیا گیا۔ جب دلہا ہی زیرِ حراست ہو تو کیسی بارات اور کہاں کی بارات؟ سول جج کے آگے ہاتھ جوڑے جانے لگے، منت سماجت کی جانے لگی۔ یہ تو ع 
اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے!
والا معاملہ تھا۔ بڑی مشکل سے عدالت کو منایا جا سکا اور پھر سب کی جان میں جان آئی ورنہ سبھی کو اندازہ تھا کہ لنکا کے ڈھے جانے میں کوئی کسر نہیں رہ گئی تھی!
دلہا کو چھوڑ دیا گیا۔ ڈرائیور اور گاڑی کا البتہ چالان ہوا۔ چلیے، جان بچی سو لاکھوں پائے۔ سکرنڈ کی طرف بارات کا سفر پھر شروع ہوا۔
انسان کی زندگی میں خوشیاں ہوتی ہی کتنی ہیں؟ چار دن کی زندگی اور دو چار خوشیاں۔ ایسے میں موقع ملتے ہی انسان ہلّا گُلّا کرتا ہے تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ کوئی بھی انسان ہنسنے گانے کا معمولی سا بھی موقع ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ یہی سبب ہے کہ شادی والے دن انسان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا۔ اُس کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہوتا کہ خوشی کا اظہار کس طرح کرے، اِس راستے پر کہاں تک جائے۔ شنکر لعل کا بھی یہی کیس تھا۔ وہ خوش تھا اور باراتی اُس کی خوشی میں خوش تھے۔
محترم دیوان پردیپ کمار بارات کا جانتے ہوتے تو سمجھ جاتے کہ مرد شادی کے دن کیوں خوش ہوتا ہے؟ اس بے چارے کے لیے بس یہی ایک دن تو خوشی منانے اور ناچنے گانے کا ہوتا ہے، اِس کے بعد کی کہانی کو تو صرف ''مجبوری کا نام شکریہ‘‘ قرار دیا جا سکتا ہے!
ایک زمانہ تھا کہ لوگ شادی کے موقع پر اپنی دِلی مسرّت کا اظہار لاؤڈ سپیکر پر بلند ترین آواز میں گانے بجاکر کیا کرتے تھے۔ پورا محلّہ ہفتہ بھر گانے سنتا رہتا تھا۔ یہ گانا بجانا بہت سوں کو بہت برا لگتا تھا مگر پھر بھی ہنسی خوشی جھیل لیا جاتا تھا کیونکہ یہی سب کچھ وہ خود بھی کرتے تھے۔ بات کچھ یوں بھی تھی کہ لوگ اپنی ہر خوشی کا اظہار جم کر، ڈٹ کر کیا کرتے تھے۔ کوئی بھی غم کی طرح اپنی خوش کو بھی چھپانے کی کوشش نہیں کرتا تھا۔ اب یہ سب کچھ کرنے کی ضرورت اس لیے نہیں رہی کہ ہر انسان کے لیے گانا بجانا چوبیس گھنٹے کا دھندا ہوگیا ہے۔
پاکستانی معاشرے میں غریب کے لیے کبھی کبھار آنے والی خوشی ہی سب کچھ ہوتی ہے۔ اور شادی بھی تو کبھی کبھار وارد ہونے والی خوشی ہے۔ اندھا کیا چاہے؟ دو آنکھیں، اور کیا! بس، غریب کے لیے بھی خوشی کا ہر موقع اندھے کو ملنے والی دو آنکھوں کے مصداق ہے یعنی وہ خوب جی بھر کے سب کچھ دیکھنا چاہتا ہے۔
لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ کے بارے میں تو آپ نے سنا ہی ہوگا۔ غریب کے لیے شادی در حقیقت ''لائف ٹائم ایونٹ‘‘ سے کم نہیں ہوتی! اپنا گھر بسانے کی خوشی میں وہ پورے ماحول کو رنگ و آہنگ میں بسانا چاہتا ہے۔ بس یہی ایک دن تو ہوتا ہے جب غریب کو ایک دن کی بادشاہت ملتی ہے۔ تین چار گھنٹے کا میلہ لگانے کے لیے وہ برسوں کی محنت کا نتیجہ اخراجات کی بھٹی میں جھونک دیتا ہے۔ کراچی میں ایسی کئی برادریاں رہتی ہیں جو شادی کے دن کو یادگار ترین بنانے کے لیے جمع پونجی پھونک ڈالتی ہیں۔ شنکر لعل بے چارہ تو محض ایکو ساؤنڈ پر گانے بجاکر سمع خراشی کا مرتکب ہوا اور قانون کی گرفت میں آ گیا۔ اگر کراچی میں تین چار برادریوں کے ہاں مجموعی طور پر پوری شادی اور خصوصی طور پر بارات کا اہتمام دیکھا جائے تو ہم حیرت کے دریا میں ایسے ڈوبیں کہ ابھرنے کا موقع نہ ملے!
شادی کی خوشی میں انسان جو کچھ کرتا ہے اس کا صرف طریق بدل گیا ہے، نتیجہ ایک ہی رہتا ہے۔ غریب چونکہ چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو ترسا ہوا ہوتا ہے اس لیے شادی جیسی بڑی خوشی ہاتھ آتی ہے تو وہ آپے میں نہیں رہ پاتا۔ رہے بھی کیسے؟ بادشاہت، خواہ ایک دن کی ہو اور کسی بھی شکل میں ہو، کسے بری لگتی ہے؟ دلہا بننے پر بھی انسان خود کو ایک دن یا چند گھنٹوں ہی کے لیے سہی، بادشاہ سمجھنے کی پوزیشن میں آ جاتا ہے! حالانکہ وہ خود بھی سمجھتا ہے کہ معاملہ ؎
ذرا سی دیر کو آئے تھے خواب آنکھوں میں 
پھر اس کے بعد مسلسل عذاب آنکھوں میں 
والا ہے! دلہا بننے کے بعد ایسی سرشاری کی کیفیت طاری ہوتی ہے کہ انسان بہت کچھ اَن دیکھا کر رہا ہوتا ہے اور دکھائی نہ دینے والے بہت سے معاملات کو ''چشمِ تصوّر کی آنکھ‘‘ سے دیکھ کر خوش ہو رہا ہوتا ہے! 
ہمیں یقین ہے کہ دیوان پردیپ کمار آئندہ غریبوں کی چند گھنٹوں کی خوشیوں کو ذہن میں رکھیں گے اور ایکو ساؤنڈ والی بارات کے گزرنے کی صورت میں محض مسکرانے کو ترجیح دیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں