کچھ عرصہ قبل کراچی کے ایک معروف اور بہت بڑے ڈیپارٹمنٹل اسٹور سے ماہانہ گھریلو خریداری کا اتفاق ہوا۔ اسٹور کیا تھا، ایک دنیا جو ہماری آنکھوں کے سامنے بسی ہوئی تھی۔ گھریلو استعمال کی ہر چیز وہاں دستیاب تھی۔ ایسے اسٹورز سے خریداری آسان بھی ہوا کرتی ہے اور مشکل بھی۔ آسان یوں کہ ضرورت کی ہر چیز آنکھوں کے سامنے اور دسترس میں ہوتی ہے۔ مشکل یوں کہ بہت کچھ دیکھ کر انسان اپنی ضرورت سے کچھ زیادہ ہی خرید لیتا ہے!
خریداری کے دوران ہم ایک ایک چیز کو حیرت و مسرّت کے ملے جلے جذبات کے ساتھ دیکھ ہی رہے تھے کہ ایک ''سوٹیڈ بوٹڈ‘‘ صاحب ہماری طرف آئے۔ انہوں نے اپنا تعارف اسٹور کے اسسٹنٹ مینیجر کے طور کرایا۔ ہم بظاہر کچھ تلاش کر رہے تھے۔ انہوں نے بھانپ لیا۔ ایک اچھے منتظم کی یہی نشانی ہوا کرتی تھی۔ انہوں نے استفسار کیا ''آپ غالباً کچھ تلاش کر رہے تھے۔‘‘
ہم نے عرض کیاکہ ہمیں ایک چیز یہاں دکھائی نہیں دے رہی۔
اسسٹنٹ مینیجر نے حیرت سے پوچھا ''آخر ایسی کیا چیز ہے جو ہمارے اسٹور میں نہیں؟ دعویٰ تو ہم نہیں کرتے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم نے ایک دنیا بسانے کی کوشش کی ہے۔ آپ بتائیے ایسا کیا ہے جو یہاں نہیں ہے؟‘‘
ہم نے عرض کیا کہ یہاں جہان بھر کی چیزیں دکھائی دے رہی ہیں، لے دے کر بس کتابیں بھی دکھائی نہیں دے رہیں۔ اگر کتابوں سے بھری ایک آدھ میز بھی کہیں سجادی جاتی تو لوگ چلتے پھرتے کچھ نہ کچھ وہاں سے بھی خرید ہی لیتے۔‘‘
ہماری بات سن کر اسسٹنٹ مینیجر کا چہرہ ایک لمحے کے لیے بجھ سا گیا مگر پھر انہوں نے سنبھل کر خاصے پرعزم لہجے میں کہا ''آپ نے ایک اہم معاملے کی نشاندہی کی ہے۔ ہم اس کمی کو ضرور پورا کریں گے۔ آئندہ جب آپ تشریف لائیں گے تو کتابیں بھی پائیں گے۔‘‘
یہ بات ہمیں روزنامہ دنیا میں دنیا کے بڑے کتب خانوں سے متعلق ایک مختصر سا مضمون پڑھ کر یاد آئی۔ دو سو سال قبل قائم کی جانے والی روس کی نیشنل پبلک لائبریری میں ایک کروڑ سے زائد کتب ہیں۔ روس میں کتب بڑی تعداد میں شائع ہوتی ہیں اور ہر کتاب کی ایک ایک کاپی نیشنل پبلک لائبریری کو عطیہ کی جاتی ہے۔ ماسکو کی لینن میموریل لائبریری میں 70 لاکھ سے زائد کتب ہیں۔ ہر ناشر اس لائبریری کو بھی اپنی ہر کتاب کی ایک کاپی رضاکارانہ طور پر بھیجتا ہے۔
سوئس نیشنل لائبریری کا شمار بھی دنیا کے بڑے کتب خانوں میں ہوتاہے۔ یہ کتب خانہ 1895 میں قائم کیا گیا اور اپنی موجودہ عمارت میں 1931 میںمنتقل ہوا۔ یہ کتب خانہ سو سے زائد کتب خانوں کے یونین کیٹلاگز بھی تیار کرتا ہے۔
امریکا کی نیشنل کانگریس لائبریری بھی قابلِ رشک ہے۔ آج کل اس پوری لائبریری کو ہارڈ ڈسک میں منتقل کرنے کا عمل جاری ہے۔ بہت جلد کم و بیش تیس لاکھ کتب اور تقریباً سو سال کے اخبارات اور جرائد ایک ہارڈ ڈسک میں پائیے گا! ع
دیکھیں اِس طرح سے کہتے ہیں سُخن ور سہرا
ایک تماشا اکثر ویب سائٹس پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ بعض سیاسی اور سماجی نوعیت کی خبریں اور مضامین ''حیرت انگیز‘‘ کی درجہ بندی میں پوسٹ کردیئے جاتے ہیں! ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ دنیا کے بڑے کتب خانوں سے متعلق یہ مضمون ''عجیب خبریں‘‘ کی درجہ بندی میں پوسٹ کیا گیا تھا! مگر خیر، یہ حیرت چند لمحات کی تھی۔ ٹھیک ہی تو ہے۔ ہمیں اب کتب خانوں سے کیا کام؟ دنیا کے بڑے کتب خانوں کا ذکر ہمارے لیے حیرت ہی کا باعث ہونا چاہیے۔ اپنے ہاں جو کچھ ہو رہا ہے اُسے دیکھتے ہوئے یہ دیکھ کر حیرت ہی ہونی چاہیے کہ دنیا بھر میں اب بھی لوگ کتب بینی سے شغف رکھتے ہیں، کتب خانوں میں وقت گزارتے ہیں اور اپنے آپ کو اپ ڈیٹ رکھنے کے معاملے میں باقاعدگی کو گلے لگائے ہوئے ہیں۔
ایک زمانہ تھا جب ہمارے ہاں بھی کتب بینی زندگی کا حصہ تھی۔ اور حق تو یہ ہے کہ بچہ جب چوتھی یا پانچویں جماعت میں ہوتا تھا تب سے بچوں کے جرائد اور کہانیوں کی چھوٹی موٹی کتابوں کے مطالعے کی مدد سے اُس میں زندگی کے لیے مطالعے کی عادت کا بیج بویا جاتا تھا۔ والدین اور اساتذہ دونوں ہی اس حوالے سے اپنی ذمہ داری محسوس کرتے تھے۔ بچوں کو (درسی یا نصابی کتب سے ہٹ کر بھی) زیادہ سے زیادہ پڑھنے کی تحریک دی جاتی تھی کہ مطالعے ہی سے انسان کا ذہن پختگی کی طرف مائل ہوتا ہے۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے اسکول کے زمانے میں یعنی 1972 سے 1980 تک میڈیا نے کچھ خاص ترقی نہیں کی تھی۔ ایک ٹی وی چینل تھا اور وہ بھی سرکاری تھا۔ ریڈیو کے البتہ دو مقامی چینلز میسر تھے۔ ریڈیو کے ذریعے بہت کچھ سنا جاسکتا تھا مگر لوگ اُس کے بھی ایسے دیوانے نہیں تھے جیسے اب انٹرنیٹ کے ہیں۔ اس دور کا عام آدمی بھی اتنا تو سمجھتا ہی تھا کہ کچھ سیکھنا ہے تو ٹی وی دیکھنے یا ریڈیو سننے سے بات نہیں بنے گی، اس کے لیے کتب بینی کا شغف پروان چڑھانا پڑے گا۔ کتب بینی کو زندگی کا حصہ بنانے کی اہمیت تھی۔ ڈائجسٹوں کی اشاعت نے پڑھنے کا شغف پروان چڑھایا۔ وہ دور ہم نے کتب بینی میں گزارا جس کے نتیجے میں مطالعے کی بنیاد مستحکم ہوگئی۔
تین عشروں کے دوران پہلے وی سی پی، وی سی آر، واک مین اور ڈش انٹینا اور پھر ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی آمد کے بعد موبائل فون اور انٹرنیٹ نے عمومی ذہن کو محض تماشائی میں تبدیل کردیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ لوگوں نے ہر معاملے کو سرسری طور پر دیکھنے اور سننے کو زندگی کا حاصل سمجھ لیا ہے۔ دس بارہ سال پہلے تک ٹی وی دیکھنے کو مطالعہ سمجھ کر جرائد و کتب کو ایک طرف ہٹادیا گیا تھا۔ اب ٹی وی بھی گوشہ نشین ہوگیا ہے۔ لوگ موبائل فون کی اسکرین پر ٹکے ٹکے کے پیغامات ہی کو ''مطالعہ‘‘ سمجھ بیٹھے ہیں! پوری توجہ ''اسٹیٹس‘‘ کو ''اپ ڈیٹ‘‘ کرنے پر مرکوز ہے۔ سادگی کی انتہا یہ ہے کہ بعض افراد روزانہ بیس پچیس منٹ اخبار پڑھنے کو بھی مطالعے کے زُمرے میں رکھتے ہیں!
کتب بینی سے ذہن پختہ ہوتا ہے، بصیرت پروان چڑھتی ہے اور شعور بالیدگی پاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہمارے ہاں کتب بینی پروان چڑھے تو کیونکر۔ یہاں تو لوگ تماشوں میں لگے ہوئے ہیں۔ جدید ترین موبائل فونز کی مدد سے کتب بینی بھی ممکن ہے مگر یہ معاملہ ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔ ابھی سو جھمیلے ہیں جن میں قلب و نظر کو الجھنا، بلکہ الجھے رہنا مقصدِ زیست دکھائی دیتا ہے۔ سوشل میڈیا کی رنگینیوں سے دل کچھ بھرے تو بات بنے۔ کتب بینی کو بھی گلے لگایا جائے گا، یہ شوق بھی کسی حد تک پروان چڑھایا جائے گا ع
مگر پہلے ذرا فرصت تو مل جائے!