بہت کچھ ہے جو زندگی کے لیے بنیاد اور بنیادی ضرورت کی حیثیت رکھتا ہے۔ وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ ضرورتیں بھی بدلتی رہتی ہیں مگر بنیادی ضرورتیں ٹس سے مس نہیں ہوتیں۔ اور ان بنیادی ضرورتوں ہی نے بہت سی اضافی اور غیر ضروری خرابیاں پیدا کی ہیں۔ لوگ اپنے طور بہت کوشش کرتے ہیں مگر اس حوالے سے مساوات کو تبدیل کرنے میں زیادہ کامیاب نہیں ہو پاتے۔ اب یہی دیکھ لیجیے کہ ''وائی فائی‘‘ کو زندگی کی بنیادی ضرورت بنانے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔ لوگ سمارٹ اور آئی فون اِس طور استعمال کر رہے ہیں گویا اِن کے بغیر زندگی‘ زندگی نہ رہے گی، کچرے کا ڈھیر بن جائے گی۔ سیل فون اور انٹر نیٹ (وائی فائی) وہ معاملہ ہے جس نے مرد و زن کی تخصیص ختم کردی ہے۔ سب ایک پیج پر ہیں! سیل فون پر پیکیج کے ذریعے گفتگو اِس انداز سے کی جاتی ہے گویا آکسیجن لی جا رہی ہو۔ جب تک لوگ پیکیج پر ایک دوسرے کو سانس دے رہے ہوتے ہیں، اللہ کی بخشی ہوئی آکسیجن ایک طرف کھڑی تماشا دیکھتی رہتی ہے!
خواتین ملبوسات و متعلق اشیاء کے فیشن کو اور مرد دوسری طرح کے چونچلوں کو زندگی کی بنیادی ضرورت کا درجہ دینے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ بہت کچھ ہے جو بنیادی ضرورتوں کے کھاتے میں ڈال دیا گیا ہے یا ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مگر ذرا پانی اور ہوا کی ڈھٹائی دیکھیے کہ انسان کی ساری کوششوں پر پانی پھیرتے ہوئے اب تک بنیادی ضرورتوں کی حیثیت سے میدان میں صرف موجود ہی نہیں بلکہ میدان مار بھی رہے ہیں۔
کراچی سمیت سندھ بھر میں پانی کا معاملہ ہے کہ اب تک درست ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ بہت کچھ ہے جس پر پانی کے مسئلے نے پانی پھیرتے رہنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ کراچی کے متعدد علاقے پانی سے اس قدر محروم رہتے ہیں کہ جب پانی دیا جاتا ہے تو لوگ ذرا سے، جُز وقتی پانی کو دیکھ کر دریائے مسرّت و حیرت میں ڈبکیاں لگانے لگتے ہیں! بہت سے علاقوں میں پانی دینے کا وقفہ اتنا زیادہ ہے کہ پانی آنے پر ''واٹر فیسٹیول‘‘ کا سماں پیدا ہو جاتا ہے! ہم ایک ایسے علاقے کو بھی جانتے ہیں جہاں اگر ماں باپ شدید غصے کی حالت میں اولاد سے کہیں کہ چِلّو بھر پانی میں ڈوب مر تو بے چاری اولاد ماں باپ کے کہے پر عمل نہیں کر پاتی کیونکہ چِلّو بھر پانی بھی آسانی سے میسّر نہیں ہوتا!
کراچی کی آبادی کئی ممالک کی آبادی سے زیادہ ہے۔ سیدھی سی بات ہے، پانی کا کوٹا بھی زیادہ درکار ہو گا۔ ضرورت کے مطابق پانی کراچی کو نہیں مل پاتا۔ یہی حال اندرونِ سندھ کا ہے۔ ایک زمانے سے اہلِ شہر، بلکہ اہلِ صوبہ پانی کے لیے رو رہے ہیں۔ اگر یہ آنسو جمع کر لیے جاتے تو شاید پانی کے مطالبے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی!
کراچی میں بیشتر مقامات پر پانی کی لائنیں اس قدر بوسیدہ ہو چکی ہیں کہ پانی زیادہ پریشر سے سے آ جائے تو پھٹنے میں ذرا دیر نہیں لگاتیں۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ پانی کی فراہمی کے دوران اگر بجلی چلی جائے اور پمپنگ سٹیشن کا نظام کام روک دے تو واپس آتا ہوا پانی لائنوں کو پھاڑ دیتا ہے۔ شہریوں کا نصیب دیکھیے کہ پانی دیا بھی جاتا ہے تو خرابی پیدا ہو جاتی ہے! شہر میں جا بجا فراہمیٔ آب کی پائپ لائنیں قابلِ رحم حالت میں ہیں۔ ایک مقام پر مرمت کیجیے تو کہیں اور پائپ لائن پھٹ جاتی ہے۔ وہاں توجہ دیجیے تو کہیں اور کچھ ہو جاتا ہے۔ گویا ع
اِک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
اہلِ کراچی ایک زمانے سے پانی کے معاملے میں انتہائی بے بسی کو محسوس کر رہے ہیں۔ اب تو کوئی کسی کو آنکھوں کا پانی مر جانے کا طعنہ بھی نہیں دیتا۔ مرتی وہ چیز ہے جو وجود رکھتی ہے۔ آنکھوں کو پانی میسّر ہو تو مرے بھی!
علامہ اقبالؔ نے اپنے دور میں پانی کے حصول کا ایسا طریقہ سُجھایا تھا کہ جس پر عمل کرنے سے کچھ خرچ کیے بغیر پانی میسّر ہو جاتا تھا اور وہ بھی وافر مقدار میں۔ فرماتے ہیں ع
پانی پانی کرگئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ علامہ نے کچھ غلط کہا ہے یا اُن کا کہا اب قابلِ عمل نہیں رہا مگر حقیقت یہ ہے کہ فی زمانہ اِس نسخے پر عمل ممکن نہیں۔ بات کچھ یوں ہے کہ آج کل ڈھنگ کا عام آدمی میسّر نہیں۔ ایسے میں مردِ قلندر کو کہاں تلاش کریں! اور اگر ہم اپنی ضرورت کے مطابق مردِ قلندر کو تلاش کر بھی لیں تو کیا اُس طویل قطار میں کھڑے ہونے کی تاب لا سکیں گے جو اُس مردِ قلندر سے مستفید ہونے کے خواہش مند افراد نے بنا رکھی ہو گی!
کہتے ہیں جب نصیب ساتھ نہ دے رہا ہو تو اونٹ پر بیٹھے ہوئے آدمی کو بھی کُتا کاٹ لیتا ہے۔ ہم نے اس کہاوت پر غور کیا تو اندازہ ہوا کہ بات زیادہ حیرت انگیز نہیں۔ اگر انسان اونٹ پر بیٹھے اور اونٹ بھی بیٹھا ہوا ہو تو کتے کے لیے مطلوبہ پنڈلی تک رسائی کون سا مشکل کام ہے! خیر، یہ تو ایک جملۂ معترضہ تھا۔ اونٹ اور کتے والا معاملہ اہلِ کراچی پر صادق آتا ہے۔ ایک معاملہ ایسا ہوگیا ہے جسے ''مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ یا پھر ''یک نہ شد دو شد‘‘ کا مصداق قرار دیا جاسکتا ہے۔ اہلِ کراچی کو پانی تو پہلے ہی کم مل رہا تھا۔ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی پریشانی شاید کم تھی جس کی کسر پوری کرتے ہوئے اب نکاسیٔ آب کی لائنیں بھی ستم ڈھاتی ہوئی میدان میں نکل آئی ہیں۔ فراہمیٔ آب کی لائنیں تواتر سے پھٹ رہی تھیں۔ ایسے میں بھلا نکاسیٔ آب کی لائنیں کیونکر نچلی پڑی رہتیں۔ اس سے پہلے کہ ہم الٹے سیدھے سوالات کرکے اُسے پریشان کرتے، شہر میں متعدد مقامات پر نکاسیٔ آب کا نظام جواب دے گیا! ہو سکتا ہے نکاسیٔ آب کے نظام نے سوچا ہو جب پانی آ ہی نہیں رہا تو اُس کی واپسی کا کیا سوال اور ایسے میں میرے ہونے نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے!
مضطرؔ خیر آبادی نے خوب کہا ہے ؎
وقت مجھ پر دو کٹھن گزرے ہیں ساری عمر میں
اِک تِرے آنے سے پہلے، اِک تِرے جانے کے بعد
کراچی کے نصیب میں لکھا جانے والا پانی خدا جانے کس نوع کا ہے کہ آنے سے پہلے بھی دردِ سر بن کر پریشان کرتا ہے اور جاتے وقت یا جانے کے بعد بھی الجھنوں سے دوچار رکھنے پر تُلا رہتا ہے۔
جب پانی نہیں آتا تو لوگ ''آجا تینوں اکھیاں اڈیکدیاں‘‘ کی صدا لگاتے رہتے ہیں اور جب آتا ہے تو مزید الجھ جاتے ہیںکیونکہ جاتا ہوا پانی نکاسیٔ آب کی پھٹی ہوئی لائنوں سے باہر نکل کر اضافی الجھنیں پیدا کر کے یہ کہنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ ع
تِرے جانے سے مِری جان پہ بن آئی ہے!