"MIK" (space) message & send to 7575

اضافی دھماچوکڑی کا سال؟

کوئی اقتدار ہاتھ سے جاتے رہنے کے خدشے سے دوچار ہو کر مبتلائے تشویش ہے۔ کسی کی رال ٹپک رہی ہے۔ ایک طرف امیدیں ہیں اور دوسری طرف صرف مایوسی ہے۔ ان دو انتہاؤں کے درمیان وطن اور اہل وطن دونوں کا بُرا حال ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ سیاسی حالات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ اہلِ وطن کم و بیش ساڑھے چار سال سے یہ تماشا دیکھ رہے ہیں اور شدید بیزاری کے احساس سے دوچار ہیں۔ 
جمہوریت کے تسلسل کا جو سفر 2013ء سے شروع ہوا تھا وہ اب تک کسی نہ کسی طور جاری تو رہا ہے ع 
مگر وہ بات کہاں مالوی مدن کی سی
صدر کی حیثیت سے آصف علی زرداری کے پانچ برس اُن کی پارٹی کے اقتدار کے بھی پانچ برس تھے۔ جمہوریت کا سفر جیسے تیسے جاری تو رہا مگر کیفیت عجیب ہی رہی، معاملات تشفّی کی منزل تک نہ پہنچ سکے۔ اُن پانچ برس کے دوران بھی اہلِ وطن سوچتے رہے ؎ 
کِھلے ہیں پھول، بسی ہے فضا میں خوشبو بھی 
مگر وہ بات نہیں ہے ہوا کے لہجے میں
بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد وارد ہونے والی جمہوریت سے لوگوں نے بہت سی امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں۔ نصیب ہی ایسا تھا کہ یہ امیدیں ع 
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ 
کی منزل پر پہنچیں۔ عوام نے جو کچھ چاہا تھا وہ نہ ہوسکا۔ آمریت کے سوا آٹھ سال گزار کر ملک پھر جمہوریت کی منزل تک پہنچا مگر اہلِ وطن کی تمام آرزوئیں بالآخر امیدوں سے دامن گیر ہوکر دم توڑ گئیں۔ ملک کو بہتر اور بارآور حکمرانی کا دیدار نصیب نہ ہو سکا۔ پیپلز پارٹی کے پانچ برس مجموعی طور پر بے فیض ہی رہے۔ بیشتر امورِ سیاست و معیشت ع 
وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی‘ سو اب بھی ہے 
کی منزل میں اٹکے رہے۔ لوگوں نے سوچا تھا کہ سیاست دانوں کو انتخابات کے ذریعے ایک مدت کے بعد اقتدار نصیب ہوا ہے تو کچھ نہ کچھ بہتری آئے گی اور وہ ڈلیور کریںگے۔ مگر یہ امید ایک بار پھر ''سقوط‘‘ کی منزل سے گزری اور مزید مایوسی میں مبتلا کر گئی۔ ملک دہشت گردی اور معاشی خرابیوں کی زد میں رہا۔ اور سہی سہی کسر بیڈ گورننس نے پوری کردی۔ مسائل حل تو کیا ہونے تھے، ٹس سے مس بھی نہ ہوئے۔ عوام بنیادی سہولتوں کے لیے بھی ترستے ہی رہے، ایسے میں بلند معیار کی قابلِ رشک زندگی بسر کرنے کے قابل ہونے کا خواب بھلا کون دیکھتا؟ ؎ 
اِسی اِک آس میں اب کے بھی فصلِ گل گزری 
وہ ہم سے بات کریں گے صبا کے لہجے میں 
سُنتے ہیں کسی شہر میں ایک شخص مردوں کے کفن چرایا کرتا تھا۔ وہ قبر سے مردے کو نکال کر کفن چرانے کے بعد برہنہ مردے کو دوبارہ قبر میں ڈال کر اپنی راہ لیتا تھا۔ لوگ اُس سے بہت تنگ تھے۔ پھر یہ ہوا کہ وہ مرا تو اُس کے بیٹے نے باپ کا دھندا سنبھالا۔ بیٹے نے جو کچھ کیا وہ تو لوگوں کے ہوش اڑانے کے لیے کافی تھا۔ اُس نے باپ کے ''فن‘‘ کو آگے بڑھایا اور وہ ع 
کمال اُس نے کیا اور میں نے حد کر دی 
کی منزل تک جاپہنچا۔ بیٹا مردے کو قبر سے نکال کر کفن تو لے اڑتا تھا مگر مردے کو قبر کے باہر ہی چھوڑ دیتا تھا! اس صورتِ حال نے اتنا پریشان کیا کہ لوگ اُس کے باپ کو اچھے لفظوں میں یاد کرنے، بلکہ دعائیں دینے پر مجبور ہوئے کہ وہ کم از کم مردے کو دوبارہ قبر میں تو ڈال دیتا تھا! مَنّتوں، مرادوں کے نتیجے میں دوبارہ ہاتھ آنے والی جمہوریت نے بھی کچھ ایسے ہی گل کھلائے تو لوگ پھر آمریت کو یاد کرنے پر مجبور ہوئے!
2013ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کا کامیابی سے ہمکنار ہونا حُبّ علی سے زیادہ بغضِ معاویہ کا معاملہ تھا! پیپلز پارٹی کے پانچ برس اِس ڈھنگ سے گزرے کہ لوگ عاجز آ گئے اور اُسے ہٹاکر، نہ چاہتے ہوئے بھی، مسلم لیگ (ن) کو لانے پر مجبور ہوئے۔ 
2013ء کے انتخابات سے اب تک کا زمانہ عجیب ہی انداز سے گزرا ہے۔ اقتدار کا معاملہ انتخابات کے بعد عموماً طے ہو جایا کرتا ہے مگر اب کے ایسا نہ ہوا۔ یہ رسّا کشی تاحال جاری ہے۔ ساڑھے چار برس کے دوران ایوان ہائے اقتدار میں دھما چوکڑی ہی مچی رہی ہے۔ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کا عمل کچھ اتنا بے طور رہا ہے کہ اہلِ وطن کی سمجھ میں یہ نہیں آیا کہ زیادہ افسردہ ہوں یا شرمندہ! اب تک یہ حال ہے کہ جس کے جی میں جو آتا ہے‘ کر گزرتا ہے۔
ایک ناقابل تردید حقیقت تو یہ ہے کہ اب کے مسلم لیگ (ن) کو ڈھنگ سے کام کرنے نہیں دیا گیا۔ ''فرمائشی پروگراموں‘‘ کے ذریعے اس بات کی گنجائش کم ہی چھوڑی گئی کہ وہ ڈلیور کرے۔ دھرنوں کے ذریعے رخنے ڈالے گئے۔ احتجاج کے نام پر انتشار پھیلا کر بہتر انداز سے کام کرنے کی راہ مسدود کی جاتی رہی ہے۔ یہ سب کچھ انتہائی افسوس ناک سہی مگر دوسری طرف یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ خود مسلم لیگ (ن) نے بھی ماضی سے کوئی سبق نہ سیکھا اور وہی سب کچھ کیا جو اب تک کرتی آئی ہے۔ میاں نواز شریف نے اپنا ''کلیدی حلقۂ احباب‘‘ ذرّہ بھر تبدیل کرنا گوارا نہ کیا، حاشیہ برداروں میں گِھرے رہے، اہلِ دانش کو دور دور رکھا اور پھر وزارتِ عظمیٰ سے محروم ہونے کی شکل میں اِس کا نتیجہ بھی بھگتا۔
سب سے بُری بات یہ ہوئی کہ ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے میاں صاحب کی ساری توجہ بظاہر وسطی و بالائی پنجاب تک محدود رہی۔ یہ کیفیت اہلِ وطن کو اُن سے برگشتہ کرنے کا باعث بنی۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت بنانے کے لیے قومی اسمبلی کی نشستوں کا پنجاب کا کوٹا کافی ہے مگر محض اس بنیاد پر حکومت بناکر ڈھنگ سے کام نہیں کیا جا سکتا۔ اگر باقی صوبوں میں دیگر جماعتیں اقتدار میں رہیں تو ''دوئی‘‘ کے تاثر اور تاثیر کو مٹانا ممکن نہ ہوگا، گڈ گورننس کے لیے جو بھرپور ہم آہنگی درکار ہوا کرتی ہے وہ کسی طور نصیب نہ ہو گی۔ 
شاہد خاقان عباسی کی نام نہاد وزارتِ عظمٰی کا دور ہے۔ ملک و قوم نے انتخابات کے سال میں قدم رکھ دیا ہے۔ عام انتخابات جولائی کے اواخر یا اگست کے اوائل تک ہو سکتے ہیں۔ گویا ایوان ہائے اقتدار پر متصرّف ہونے کی نئی دوڑ شروع ہوا چاہتی ہے۔ اب سے نئی حکومت کے قیام تک ملک و قوم پر کیا گزرے گی، کتنی (اِضافی) دھماچوکڑی مچے گی... کوئی بھی پورے یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ہاں، سوچ سوچ کر، اندازے لگا کر لرزتے، کانپتے رہنے کا آپشن ضرور موجود ہے!
جو اقتدار کے لیے اتاؤلے ہوئے جا رہے ہیں‘ اُنہوں نے ساڑھے چار سال تک حکومت ہی کا نہیں، قوم کا بھی ناطقہ بند رکھا ہے۔ اب مینڈیٹ کے جو چار پانچ ماہ رہ گئے ہیں وہ بھی اِن عجلت پسندوں سے ہضم نہیں ہو پا رہے۔ ایک بار پھر دھما چوکڑی کی تیاری کی جا رہی ہے۔ قوم کو ایک بار پھر دھرنوں کے مایا جال میں پھانسنے کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ خدا ہی جانتا ہے کہ اب سے انتخابات کی دیگ کے چولہے پر چڑھنے تک قوم کتنی اذیت سے دوچار رہے گی۔ ہم تو بس غالبؔ کے کہے پر اکتفا کرتے ہوئے اجازت چاہیں گے ؎ 
دیکھیے پاتے ہیں عُشّاق بُتوں سے کیا فیض
اِک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں