"MIK" (space) message & send to 7575

محبت کا اسٹاک ختم

گِلوں اور شِکووں سے سب کی زبان تر رہتی ہے۔ یہ بھی اب چلن میں شامل ہے ، عادات کا حصہ ہے۔ اور بہت سوں نے تو اِسے فطرتِ ثانی میں تبدیل کرلیا ہے۔ ماحول ہم سب کا خراب کیا ہوا ہے مگر ہم ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہراتے رہتے ہیں۔ معاشرے کی خرابی کسی ایک فرد یا چند افراد کے ہاتھوں واقع نہیں ہوا کرتی۔ اس میں سبھی کا کچھ نہ کچھ کردار ہوا کرتا ہے۔ ہم آج جہاں بھی کھڑے ہیں اپنے ہی انفرادی و اجتماعی اعمال کے نتیجے میں کھڑے ہیں۔ 
انسان کا انسان سے رشتہ بہت کمزور ہوگیا ہے۔ طرح طرح کے دھوکے ہیں جو ہنس ہنس کر، خوشی خوشی کھائے جارہے ہیں۔ ٹیکنالوجیز نے ہمیں اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ بہت سے سادہ معاملات کو بھی ہم نے اِس طرح الجھادیا ہے کہ ع 
ڈور کو سُلجھا رہا ہوں اور سِرا ملتا نہیں 
والی کیفیت پیدا ہوچلی ہے۔ انسان نے عجیب روگ پال لیے ہیں۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے ساری دنیا سے روابط بہتر بنانے پر توجہ دی جارہی ہے اور گھر کی چار دیواری میں رہنے والوں یعنی اپنوں ہی سے مراسم صفر کے نزدیک پہنچ گئے ہیں! طرح طرح کے اعداد و شمار کا گورکھ دھندا پسند ہے مگر دو اور دو چار جیسے گھریلو معاملات کو درست کرنے کی توفیق نصیب نہیں ہو رہی۔ کوئی توجہ دلائے تب بھی معاملات کی درستی کا شعور پیدا نہیں ہوتا۔ 
ترقی یافتہ معاشروں کی ایک نمایاں خصوصیت (یا المیہ) یہ ہے کہ بہتر زندگی بسر کرنے کے لیے لازم سمجھی جانے والی تمام اشیاء کی دستیابی یقینی بناچکنے کے بعد اب انسانوں سے کنارا کرلیا گیا ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں کے لوگ پس ماندہ معاشروں کے انسانوں سے کھل کر محبت کرنے کے بجائے جانوروں میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ جانوروں سے محبت ہے، انسانوں سے نہیں۔ گھر کی چار دیواری میں متعدد جانور بہ صد شوق پالے جاتے ہیں، کسی انسان کو عزت سے رکھنے کی توفیق نصیب نہیں ہوتی۔ 
معاشرہ ترقی یافتہ ہو یا ترقی پذیر، عام گھرانوں میں کسی یتیم یا بے سہارا کو پالنے کا رجحان برائے نام بھی نہیں رہا۔ جو گھرانے ایک نہیں، دو تین بچوں کو پالنے کے متحمل ہوسکتے ہیں وہ ایسا کرنے کے بارے میں سوچنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ کوئی متوجہ بھی کرنا چاہے تو بات کو دانستہ گھمادیا جاتا ہے۔ انسان کی انسان سے بیزاری عام ہے اور جانوروں کو گلے لگانے کا سلسلہ زور و شور سے جاری ہے۔ دنیا بھر میں ان لوگوں کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے جو جانور پالتے، ان کے ناز اٹھاتے ہیں۔ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ لوگ کسی جانور سے محبت میں حد سے گزر جاتے ہیں۔ جانور مر جائے تو کھانا پینا دوبھر ہو جاتا ہے۔ ٹھیک ہے، شدید لگاؤ کی حالت میں ایسا ہی ہوتا ہے اور ایسا ہی ہونا چاہیے۔ پھر بھی انسان کو اس حقیقت پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ جانوروں کو انسانوں کی جتنی ضرورت ہے اُس سے کہیں زیادہ ضرورت انسانوں کو انسانوں کی ہے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ انسان تو انسان کی توجہ پانے کے لیے ترستا رہے اور جانور بھرپور توجہ پاکر پرتعیّش زندگی بسر کریں۔ 
شمالی مغربی انگلینڈ کے علاقے مرسے سائڈ کی لیزا فاکس کرافٹ نے ایک لومڑی پالی تھی۔ سیدھی سی بات ہے، لومڑی کو پالا تھا تو اُس سے غیر معمولی لگاؤ بھی ہوگیا۔ پھر یہ ہوا کہ لومڑی بیمار پڑی اور مرگئی۔ یہ صدمہ لیزا فاکس کرافٹ کے لیے بہت بڑا تھا جسے جھیلنے کے لیے اُسے جگر سے ایک قدم آگے جاکر جگرے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ لیزا اپنی پالتو لومڑی سے جدا ہونے کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھی۔ جب وہ مرگئی تو اُس نے ایک اہم فیصلہ کیا ... یہ کہ اس کی لاڈلی لومڑی اُس کے ساتھ ہی رہنی چاہیے۔ لیزا نے لومڑی کو حنوط کراکے اُس میں بُھس بھروالیا۔ اب یہ لومڑی ہر وقت اس کے ساتھ رہتی ہے۔ اس نے اپنی بُھس بھری لومڑی کے لیے بہت خوبصورت اور خاصے مہنگے کپڑے بنوائے ہیں۔ 
بہت سوں نے لیزا کے اس عمل پر اعتراض کیا ہے۔ جانوروں سے بے رحمانہ سلوک کے خلاف آواز اٹھانے والوں کا کہنا ہے کہ لیزا کو مری ہوئی لومڑی کی کھال اترواکر اُس میں بُھس نہیں بھروانا چاہیے تھا۔ اُن کی بات غلط ہے یا صحیح اس کا فیصلہ تو بعد میں ہوگا۔ پہلے تو ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ جانوروں سے تو اتنی محبت ہے کہ مرنے پر بھی اُسے اپنے سے الگ کرنے کا تصور محال ہے اور حنوط کرکے محفوظ کیا جارہا ہے۔ اور دوسری طرف انسانوں سے بیزاری کا یہ عالم ہے کہ کسی زندہ انسان کو قریب آنے نہیں دیا جارہا۔ دل کے بہلانے کو چاہیے بھی تو کون ... بُھس بھری، حنوط شدہ لومڑی! 
یہ ہے آج کا انسان۔ دنیا بھر میں کروڑوں انسان اس بات کے منتظر ہیں کہ کوئی ان پر ذرا سی توجہ دے تو دن پھریں۔ انسان کو انسان کے ہاتھوں اتنے مسائل کا سامنا ہے کہ انہیں حل کرنے پر توجہ دی جائے تو جانور کہیں بھی دکھائی نہ دیں۔ مگر المیہ یہ ہے کہ جنہیں کچھ کر گزرنے کی سکت نصیب ہوئی ہے انہیں قدرت نے اپنے جیسوں کا بھلا کرنے کی توفیق عطا نہیں کی۔ متموّل معاشروں کے لوگ پس ماندہ معاشروں کے لوگوں کا بھلا کرنے کے حوالے سے اپنی ذمہ داری محسوس کرنے کے بجائے جانوروں سے محبت کا اظہار کرکے جان چھڑا رہے ہیں۔ اُن کی نظر میں اعلیٰ کردار اور نرمی و شفقت کے اظہار کا بہترین ذریعہ یہ ہے کہ جانوروں سے اچھا سلوک کیا جائے، ان سے محبت کی جائے، انہیں اچھا کھانے کو دیا جائے، ان کی صحت کا خیال رکھا جائے، ان کے رہنے کا بہتر انتظام کیا جائے، بس۔ 
جس جانور کو پالا جائے اُس سے محبت ہو ہی جاتی ہے۔ اور اس کے مرنے کا دکھ بھی بہت ہوتا ہے۔ مرے ہوئے جانور کو یاد کرنا، بلکہ یاد رکھنا بھی خاصا قابلِ ستائش فعل ہے مگر اِس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ جیتے جاگتے، سانس لیتے اور دھڑکتے ہوئے دل والے انسانوں سے محبت کی جائے، انہیں گلے لگایا جائے، ان کے مسائل حل کرنے پر توجہ دی جائے، انہیں بہتر زندگی بسر کرنے کے معقول وسائل فراہم کیے جائیں۔ آج دنیا بھر میں کروڑوں انسان اس بات کے خواہش مند ہیں کہ ترقی یافتہ معاشروں کے لوگ اُن سے بھی ویسی ہی محبت کریں جیسی وہ اپنے پالتو جانوروں سے کرتے ہیں! جانوروں سے حُسنِ سلوک آج کے بے سہارا انسانوں کو شدید احساسِ محرومی میں مبتلا کر رہا ہے۔ مغربی دنیا کی غیر سرکاری تنظیمیں جانوروں سے بے رحمانہ سلوک کے خلاف تو حلق پھاڑنے میں دیر نہیں لگاتیں مگر انسانوں سے روا رکھے جانے والے غیر انسانی سلوک کو دیکھ کر انہیں سانپ سونگھ جاتا ہے۔ اس دوغلے پن کے خلاف ان کی طرف سے ایک لفظ سنائی نہیں دیتا۔ ایسا لگتا ہے کہ انسانوں کے پاس انسانوں کے لیے محبت کا اسٹاک ختم ہوگیا ہے۔ اب فوکس جانوروں پر ہے۔ بے زبانوں کے ناز نخرے برداشت کیے جارہے ہیں اور جن کے منہ میں زبان ہے اُنہیں اس بات پر مجبور کیا جارہا ہے کہ بے زبانوں سے بھی بدتر حالات کا سامنا کرتے ہوئے جئیں اور مریں تو یوں کہ صدقِ دل سے کوئی آنسو بہانے والا بھی میسّر نہ ہو۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں