ہونٹ نیلے۔ جلد سیاہ۔ سر میں شدید درد۔ ناک اور منہ سے بہتا خون۔ کھانسی ایسی شدید کہ پسلیاں چٹختی، ٹوٹتی محسوس ہوں۔ یہ تمام علامات تھیں اُس فلو کی جو ٹھیک سو سال قبل امریکی ریاست کینساس کی ہیسکل کاؤنٹی سے پُھوٹا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس فلو نے امریکا کی حدود سے نکل کر کئی ممالک کو لپیٹ کو میں لے لیا۔ محتاط اندازے کے مطابق اس وبا کی نذر ہونے والوں کی تعداد پانچ سے دس کروڑ کے درمیان تھی جو اس وقت کی عالمی آبادی کے تین فیصد کے مساوی تھی۔ سبب تو معلوم نہیں مگر اس فلو کو اسپینش فلو کے نام سے ریکارڈ کیا گیا۔ چھٹی صدی عیسوی کے پلیگ آف جسٹینین اور قرونِ وسطیٰ میں پھیلنے والی طاعون کی وبا ''سیاہ موت‘‘ کے علاوہ ایڈز اور افریقا کے ایبولا وائرس سے مجموعی طور پر اُتنی اموات واقع نہیں ہوئیں جتنی اسپینش فلو سے واقع ہوئیں۔
ہلاکتوں کی تعداد بہت زیادہ تھی مگر چونکہ پہلی جنگِ عظیم ختم ہوئی تھی اور لوگ اُس کے اثرات سے نمٹنے میں مصروف تھے اس لیے دنیا کی توجہ اتنی بڑی وبا کی طرف نہیں گئی۔ یہ معاملہ کچھ کچھ سابق مشرقی پاکستان جیسا ہے۔ دسمبر 1971 میں بنگلہ دیش کے قیام کے حوالے سے جو خوں ریزی کی گئی یعنی 1971 کے دوران سابق مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہوا اُس کے پردے میں محض ایک سال پہلے کا سمندری طوفان ''بھولا‘‘ چُھپ گیا جس نے اُسی خطے (مشرقی پاکستان اور بھارتی ریاست مغربی بنگال) میں کم و بیش پانچ لاکھ جانیں لی تھیں!
عہد ہائے قدیم میں بھی وبائیں پھیلتی تھیں اور پوری پوری بستیوں کو چٹ کر جاتی تھیں۔ اُن زمانوں میں صحتِ عامہ کے حوالے سے ایسی پیش رفت ممکن نہیں بنائی جاسکی تھی کہ کسی بھی وبا کو تیزی سے پھیلنے سے بروقت روکا جاسکے۔ معمولی بیماریوں کا بھی تسلّی بخش علاج ممکن نہیں بنایا جاسکا تھا۔ طاعون اور اسی قبیل کے دیگر متعدّی امراض دیکھتے دیکھتے ہی کئی شہروں کو لپیٹ میں لے کر موت کے گڑھے میں دھکیل دیتے تھے۔ تاریخ کے ریکارڈ میں پوری پوری بستیوں کے اچانک نابود ہونے کا ذکر تو ملتا ہے مگر سبب بیان کرنے کے معاملے میں تاریخ تھوڑی سے گنگ محسوس ہوتی ہے۔ قتل و غارت کے نتیجے میں بھی بڑی تعداد میں ہلاکتیں واقع ہوتی تھیں مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جب کبھی کوئی بیماری پھیلتی تھی تو پھیلتی چلی جاتی تھی، اس پر قابو پانا انتہائی دشوار ثابت ہوتا تھا۔ یہ تماشا تقریباً سوا یا نصف صدی پہلے تک چلتا رہا۔ مغرب میں فطری علوم و فنون کے حوالے سے تحقیق و ترقی کا بازار گرم ہوا تو صحتِ عامہ کا معیار بلند کرنے پر بھی خاص توجہ دی جانے لگی۔ وباؤں کی روک تھام یقینی بنانے کو ایک اہم مقصد قرار دے کر اس کے حصول کے لیے غیر معمولی محنت کی گئی۔ اور پھر اس کے نتائج بھی دنیا نے دیکھے۔
سو ڈیڑھ سو سال پہلے تک زچگی کے دوران ہلاکت عام تھی۔ ذرا سی پیچیدگی کی صورت میں زچہ، بچہ یا دونوں کی جان چلی جاتی تھی۔ پھر میڈیکل سائنس نے ترقی کی تو چھوٹی، بڑی تمام پیچیدگیوں پر قابو پانے کی ابتداء ہوئی۔ یہ عالمِ انسانیت پر اللہ کی خصوصی رحمت کا نقطۂ آغاز تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے بستیاں اور شہر اجڑ جانے کا سلسلہ تھمنے لگا۔ انسان نے دیکھا کہ اُس کی موت کا سبب بننے والی بیماریاں ہر حال میں موت کا پیغام نہیں ہوا کرتیں۔ یعنی بھرپور توجہ اور محنت سے اِن بیماریوں کو قابو میں رکھنا اور صحتِ عامہ کا گراف بلند رکھنا بالکل ممکن ہے۔
ایک صدی کے دوران انسان نے ہر شعبے میں ناقابل یقین حد تک ترقی کو ممکن بنایا ہے۔ چند عشرے پہلے تک اپینڈکس کا آپریشن انتہائی خطرناک اور نازک سمجھا جاتا تھا۔ لوگ اس آپریشن کے نام سے کانپتے تھے۔ آج یہ آپریشن ٹرینی ڈاکٹرز کر گزرتے ہیں۔ آنکھوں کے آپریشن بھی چند عشرے پہلے تک بہت نازک خیال کیے جاتے تھے اور لوگ آپریشن ٹیبل پر لیٹنے سے کتراتے تھے۔ اب ایسا نہیں ہے۔ لیزر ٹیکنالوجی اور دیگر جدید ترین طریقوں سے کوئی کٹ یا ٹانکا لگائے بغیر بھی آنکھوں کا آپریشن کرلیا جاتا ہے۔
چند سو یا ہزار سال پہلے کے معاملات پر غور کیجیے اور پھر آج صحتِ عامہ کی سہولتوں کے معیار کے بارے میں سوچیے تو اپنی قسمت پر رشک محسوس ہونے لگتا ہے کہ ہم سہولتوں سے مُزیّن دور میں پیدا ہوئے ہیں۔ زندگی کا کوئی بھی شعبہ حیران کن سہولت سے ہمکنار کرنے والی ایجادات و اختراعات سے خالی نہیں۔ ہم جس طرح بھی چاہیں اپنی زندگی کو زیادہ سے زیادہ آسان بنا سکتے ہیں۔ مگر دکھ اس بات کا ہے کہ ایسا نہیں ہو پارہا۔ ہم زندگی کو آسان بنانے میں زیادہ کامیاب نہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاملات مزید الجھتے ہی جارہے ہیں۔
صحتِ عامہ ہی کو لیجیے۔ آج بھی دنیا میں کروڑوں، بلکہ اربوں انسان صحت کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ کرپٹ حکومتیں صحتِ عامہ کا معیار بلند نہیں ہونے دیتیں۔ افریقا، جنوبی امریکا اور ایشیا میں اس حوالے سے صورتِ حال زیادہ خوش کُن نہیں۔ ٹیکنالوجی نے ترقی کی ہے جس کے نتیجے میں سہولتوں کا گراف بلند ہوا ہے مگر انسانیت نوازی اور انسان دوستی کا گراف تاحال خاطر خواہ حد تک بلند نہیں کیا جاسکا ہے۔
کسی بھی شعبے میں ٹیکنالوجی خواہ کتنی ترقی کرلے، اُس سے مستفید ہونے کا فیصلہ تو انسان ہی کو کرنا ہے۔ جہاں انسان غلطی کرتا ہے وہاں ٹیکنالوجی بھی گڑھے میں گر جاتی ہے۔ اگر انسان طے کرلے کہ میڈیکل سائنس کے شعبے میں فقید المثال ترقی کے باوجود عالمی آبادی کے ایک بڑے حصے کو اس کے فوائد سے محروم رکھنا ہے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت مطلوب مثبت نتائج پیدا نہیں کرسکتے۔ دور کیوں جائیے، اپنے معاشرے ہی پر نظر دوڑائیے۔ ملک کے بیشتر دیہی علاقوں میں صحتِ عامہ کا معیار انتہائی پست ہے۔ فنڈز کی کمی ہے نہ ادویہ و مشینری کی۔ سوال صرف نیت اور ارادے کا ہے۔ مقامی، صوبائی اور قومی قیادت مل طے کرلیں کہ صحتِ عامہ کا معیار بلند نہیں کرنا تو پھر کس کی مجال ہے کہ ایسا ہو جانے دے؟ ترقی یافتہ معاشروں میں ممکن بنائی جانے والی ہر پیش رفت ہم تک بھی پہنچ جاتی ہے مگر رونا صرف اس بات کا ہے کہ ہر معاملے کی طرح میڈیکل سائنس کے معاملے میں بھی مافیا گیری چل رہی ہے۔ سرکاری شعبے کو دانستہ ناکامی سے دوچار رکھا جارہا ہے تاکہ نجی شعبے کے اسپتال جیب بھرتے رہیں۔ جدید ترین آلات اور موثر ترین ادویہ کے ہوتے ہوئے ہمارے ہاں صحتِ عامہ کا معیار بلند نہیں کیا جاسکا ہے، یہ واقعی ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ ہم آن کی آن میں بستیوں کو چٹ کر جانے والی وباؤں کے دور میں نہیں جی رہے۔ یہ اکیسویں صدی ہے مگر اے وائے ناکامی کہ جن کے ہاتھوں میں اختیارات ہیں اُن کی سوچ شاہ دَولہ کے چوہوں جیسی ہے۔ نیت کی خرابی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ اکیسویں صدی کے باسی ہوتے ہوئے بھی عوام سہولتوں کے معیار کے لحاظ سے پندرہویں یا سولہویں صدی میں جی رہے ہیں۔ ع
شرم اُن کو مگر نہیں آتی!