"MIK" (space) message & send to 7575

’’گھر‘‘ کا بسنا کھیل نہیں ہے…

بسنے اور اجڑنے کا فلسفہ بھی عجیب ہے۔ بسنے کا فارمولا ایک ہی ہے... سخت محنت، مگر اجڑنے کے سو بہانے اور راستے ہیں۔ ایک زمانے سے سنتے آئے ہیں ع 
بستی بسنا کھیل نہیں ہے، بستے بستے بستی ہے
یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں مگر لوگ اس حقیقت میں گم ہوکر اپنی انفرادی حقیقت کو ہرگز نہ بُھولیں۔ بستی کی باری بعد میں آئے گی، پہلے تو گھر بسانے کی فکر لاحق ہونی چاہیے۔ بستی تو کسی نہ کسی طور بس ہی جاتی ہے، گھر بسانا البتہ ایک ایسا دردِ سر ہے جس کا آسان علاج اب تک دریافت نہیں ہو پایا ہے۔ شہر کی دیواروں پر سیاہی مل کر دعوے کرنے والے تو بہت ہیں مگر ایسا کوئی کوئی ہے جو پوری سنجیدگی سے اس دردِ سر کا علاج کرکے دکھائے۔ تمام ہی والدین جلد از جلد اپنے بچوں کا گھر بسانے کے خواہش مند ہوتے ہیں اور بچے بھی اِسی کے خواہش مند رہتے ہیں مگر پھر بھی یہ بات سب کے ذہن نشین رہتی ہے کہ گھر بسانا کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ اسی لیے تو بچپن کی شادی کی دنیا بھر میں مخالفت کی جاتی ہے۔ ہو سکتا ہے بعض برادریاں بچپن کی شادیاں اس لیے کراتی ہوں کہ جب تک دولہا دلہن کو عقل آئے گی تب تک ایک دوسرے کو جھیلنے کی عادت پڑ چکی ہو گی اور گھر بس ہی چکا ہوگا!
ڈیڑھ دو عشروں کے دوران مہنگائی کا یہ عالم رہا ہے کہ نئی نسل کو گھر بسانے کے تصور ہی سے خوف محسوس ہوتا ہے۔ مہنگائی نے دنیا بھر کے جھمیلوں کو زندگی کا حصہ بنا دیا ہے۔ ان سے جان چھوٹے تو انسان گھر بسانے کے بارے میں سوچے۔ اور پھر ماحول (یعنی گھر بسانے والوںکے حالات) دیکھ کر نئی نسل اور بھی پریشان اور خوفزدہ ہوئی جاتی ہے۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ ؎ 
گھر کی بربادی کو کافی ہے کوئی ایک سبب
گھر بسانے کے جتن لاکھ ہوا کرتے ہیں
یہ بھی ایک عجیب قصہ ہے کہ لوگ گھر بسانے کے بارے میں تو فکر مند رہتے ہیں، گھر بسائے رکھنے کے بارے میں زیادہ نہیں سوچتے! جس طرح کسی ٹائٹل کو جیتنا اتنا اہم نہیں ہوتا جتنا اسے محفوظ و برقرار رکھنا اہم ہوتا ہے، بالکل اسی طرح گھر بسانے سے زیادہ گھر بسائے رکھنا زیادہ مشکل ثابت ہوتا ہے۔ اس کے لیے زندگی بھر تگ و دو کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ 
بات کچھ یوں ہے کہ اِدھر لڑکی نے ذرا ہوش سنبھالا اور اُدھر اُس کی ماں کو فکر لاحق ہوئی کہ کسی نہ کسی طرح اُس کے ہاتھ پیلے کر دیئے جائیں۔ لڑکیاں بھی عموماً گھر بسانے کے معاملے میں اُتنی فکر مند نہیں ہوتیں جتنی عجلت پسند ہوتی ہیں۔ بس، یہی عجلت پسندی بسا اوقات اُن کی ساری امنگوں اور امیدوں کا دھڑن تختہ بھی کر ڈالتی ہیں۔ اِس کے باوجود مائیں یہی چاہتی ہیں کہ لڑکیاں جلد از جلد اپنے گھر کی ہو جائیں۔ دوسری طرف لڑکوں کا یہ حال ہے کہ اوروں کا حال دیکھ دیکھ کر اُن کے دل و دماغ میں ہَول اٹھتے رہتے ہیں! ہول نہ اٹھیں تو اور کیا ہو؟ گھر بسانا اور گھر کو بسائے رکھنا اوّل و آخر لڑکوں ہی کی تو معاشی ذمہ داری ہوا کرتی ہے۔ انہیں بہت پہلے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آخرکار یہ بلا اُنہی کے سر آئے گی!
یہ سب کچھ ہمیں اِس لیے یاد آیا کہ گھر بسانے کے معاملے میں لوگ کبھی کبھی ایسی عجلت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ دیکھ یا پڑھ کر دل و دماغ کی چُولیں ہل جاتی ہیں۔ امریکا سے ایک خبر آئی ہے کہ ریاست نیو جرسی کے علاقے فری ہولڈ میں ایک جوڑے نے یوں گھر بسایا کہ دونوں کے گھر والے بھی حیران رہ گئے۔
کہانی کچھ یوں ہے کہ برین اور ماریہ سولز ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے اور شادی کے خواہش مند تھے۔ دونوں نے اپنے اپنے اہل خانہ کو پسند کے بارے میں بتایا۔ یہی وہ موڑ تھا جہاں سے ان کے معاملے نے پیچیدگی اختیار کرنے کا عمل شروع کیا۔ دونوں کے گھر والے اس شادی کے لیے گرین سگنل دینے پر آمادہ نہ ہوئے۔ کئی بار کوشش کرنے پر بھی جب اہل خانہ راضی نہ ہوئے تو برین اور ماریہ سولز نے کورٹ جاکر شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔
ایک دن تیار ہوکر یہ جوڑا چند دوستوں کے ساتھ کورٹ پہنچ گیا۔ اُدھر دونوں کے گھر والوں کو بھی سُن گُن مل گئی۔ برین اور ماریہ ابھی کورٹ میں ایک دوسرے کو ہمیشہ کے لیے قبول کرنے کے قانونی عمل کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو ہی رہے تھے کہ اہل خانہ نے کورٹ میں انٹری دے دی۔ عدالتی عملے نے انہیں روکنے کی کوشش کی مگر وہ نہ مانے اور اس جج کے چیمبر کی طرف بڑھے جہاں برین اور ماریہ زندگی بھر ساتھ نبھانے کی قسمیں کھانے کی تیاری کر رہے تھے۔ خاتون جج نے صورتِ حال کی نزاکت دیکھتے ہوئے پہلے دونوں کو اپنے چیمبر کے پچھلے حصے میں چھپانے کی کوشش کی مگر جب محسوس کیا کہ ایسا کرنے سے کام نہیں چلے گا تو انہوں نے اپنے معاونین کے ساتھ جوڑے کو اپنے شاندار باتھ روم میں بند ہو جانے کا کہا۔ اُدھر برین اور ماریہ کے اہل خانہ پیچ و تاب کھا رہے تھے اور اِدھر خاتون جج کے ذہن میں کچھ اور ہی کھچڑی پک رہی تھی۔ انہوں نے جب کوئی اور راہ نہ پائی تو وہی کیا جو غالبؔ نے کہا ہے ؎
پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رکتی ہے مِری طبع تو ہوتی ہے رواں اور 
بس ایسا ہی کچھ خاتون جج کے ساتھ ہوا۔ انہوں نے طے کیا کہ ہنگامی صورتِ حال کے پیش نظر برین اور ماریہ کو شادی کے بندھن میں باندھنے کی قانونی کارروائی باتھ روم میں مکمل کی جائے! 
دیکھا آپ نے؟ خاتون جج کی طبع رکی تو کیسی رواں ہو گئی! متعلقہ عدالتی عملے کے ساتھ برین اور ماریہ نے ازدواجی بندھن میں بندھنے کی کارروائی باتھ روم میں مکمل کی۔ ہنگامی صورتِ حال میں تو ایسا ہی ہوا کرتا ہے، مگر بھئی ایسی بھی کیا عجلت پسندی کہ خوشبو کا سفر باتھ روم کی مہک کے سائے میں شروع کیا جائے! 
ہمیں یہ جان کر زیادہ حیرت ہوئی کہ امریکا میں آج بھی لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو پسند کرنے کے بعد گھر والوں کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں! ہم تو سمجھتے تھے کہ یہ ''پس ماندگی‘‘ صرف ہمارے ہاں پائی جاتی ہے۔ صد شکر کہ اب ہم سر اٹھاکر کہہ سکتے ہیں کہ اکیسویں صدی کے امریکا میں بھی گھر والے ظالم سماج کی دیوار ثابت ہو سکتے ہیں اور ہوتے ہیں! اور دیوار بھی اتنی اونچی کہ بے چارے پریمی جوڑے کو گھر بسانے کے لیے باتھ روم میں پناہ لینا پڑے۔
گھر بسانے کے معاملے میں پریمی جوڑوں کی عمومی ذہنیت یہی ہے۔ وہ شادی کے معاملے میں بھی ''فاسٹ فوڈ کلچر‘‘ کے دلدادہ ہیں یعنی چاہتے ہیں کہ سب کچھ پکا پکایا اور تیزی سے ہاتھ آ جائے۔ گھر اگر اِس طور بسایا جائے تو بسا اوقات پورے گھر میں باتھ روم کی بُو بھر جایا کرتی ہے! یعنی یہ کہ جذباتیت کی لہر میں اِس طور نہ بہا جائے کہ ''فلش‘‘ کی نذر ہو جائیں!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں