یہ عقدہ کوئی بھی وا نہیں کرسکتا کہ انسان زندہ رہنے کے لیے کھاتا ہے یا کھانے کے لیے زندہ رہتا ہے۔ ہم نے بارہا کائنات کے ایک ''عظیم‘‘ مسئلے پر غور کیا ہے اور ہر بار ذہن کی تھکن سے مجبور ہوکر ہار مان لی ہے۔ بعض احباب کو ہمارے کھانے پینے پر اس قدر اعتراضات ہیں کہ تھر میں غذائی اشیاء اور غذائیت کی قلت کو ہم جیسوں کی ''پیٹو گیری‘‘ کا نتیجہ قرار دیتے نہیں چُوکتے! ہم یقین دلا دلاکر تھک گئے ہیں کہ ہم زندہ رہنے کے لیے کھاتے ہیں۔ اب یہ اور بات ہے کہ ہمیں زندہ رہنے کے لیے جس قدر کھانا درکار ہے وہ لوگوں کے نزدیک قابل اعتراض ہے! سبھی پیٹ بھر کھانا پسند کرتے ہیں مگر جب ہم ایسا کرتے ہیں تو احباب کے سینوں پر سانپ لوٹنے لگتے ہیں۔ احباب اور کچھ تو کر نہیں سکتے تھے اس لیے انہوں نے ہمارے کھانے پینے پر نظر لگادی جس کے نتیجے میں ہم پندرہ بیس دن سے برائے نام کھا رہے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اب، احباب کے فلسفے کے مطابق، تھر جیسے علاقوں میں کھانے پینے کی اشیاء کے ڈھیر لگ گئے ہوں گے!
خیر، یہ ساری باتیں تو ہوتی رہیں گی۔ جس نے کالم لکھنے پر مجبور کردیا وہ خبر کچھ یوں ہے کہ دبئی میں تیرتا ہوا کچن متعارف کرایا گیا ہے۔ ''سالٹ بے‘‘ نامی اس کچن میں کھانے پینے کی تمام بنیادی اشیاء دستیاب ہیں۔ دبئی کے ساحل پر کشتی کی سیر کرنے والے اس تیرتے ہوئے کچن سے مستفید ہوسکتے ہیں۔ ایسا کرنے کے دو طریقے ہیں۔ کھانا درکار ہو تو جھنڈا لہرا دیجیے، کچن آپ کے پاس پہنچ جائے گا اور کچھ زیادہ اشیاء درکار ہیں تو کشتی کو کچن کے نزدیک لائیے، کچن پر سوار ہوجائیے اور اس کے بعد اشیائے خور و نوش کو اپنے معدے پر سوار کیجیے۔
تیرتے ہوئے کچن کی خبر نے ہمیں خیالوں کی دنیا میں پہنچا دیا۔ ہم نے ''چشمِ تصوّر کی آنکھ‘‘ سے دیکھا کہ ہم دبئی گئے ہوئے ہیں اور سمندر کی سیر کے دوران تیرتے ہوئے کچن میں دستیاب اشیائے خور و نوش سے پیٹ کی آگ بجھا رہے ہیں۔ اور اِس سے بڑھ کر خوشی اس بات کی ہے کہ وہاں کوئی روکنے، ٹوکنے والا نہیں۔ جو جی میں آئے کھائیے۔ جو پینے کا جی چاہیے پی لیجیے۔ جب کوئی روکنے، ٹوکنے اور نظر لگانے والا نہ ہو تو کھانے پینے کا مزا کچھ اور ہی ہوتا ہے!
خیر، یہ تو خیالی ٹور تھا۔ تیرتے ہوئے کچن کے خبر پڑھ کر ہمیں خیال آیا کہ ہمارے ہاں کہانی الٹ ہے۔ پاکستانی کھانے پینے کے معاملات میں کچھ ایسے عجیب واقع ہوئے ہیں کہ کچن اب دریا کی شکل اختیار کرگیا ہے جس میں ہم بہتے ہی چلے جارہے ہیں۔
دنیا بھر میں لوگ صبح بیدار ہونے پر دانت صاف کرنے اور منہ ہاتھ دھونے کی فکر میں مبتلا ہوتے ہیں۔ یہاں کیس مختلف ہے۔ لوگ منہ ہاتھ دھوتے ہی ناشتے کا انتظار کرنے لگتے ہیں اور جب ناشتہ لگا دیا جاتا ہے تو خواتین خانہ سے پوچھا جاتا ہے کہ دن میں کیا پکے گا۔ یعنی جو ناشتہ سامنے چُنا ہوا ہوتا ہے اُس سے مستفید ہونے سے قبل ہی دوپہر کے کھانے کی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔
دنیا بھر میں لوگ دن کا آغاز ناشتے سے کرنے کے بعد سوچتے ہیں کہ دن بھر کیا کرنا ہے۔ یعنی کام کے بارے میں سوچتے ہیں۔ یہاں حال یہ ہے کہ سوچ کھانے سے شروع ہوکر کھانے پر ختم ہوتی ہے۔ ایک وقت کا کھانا کھا چکنے پر اللہ کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اگلے وقت کے کھانے کی فکر لاحق رہتی ہے۔
خیر سے قوم کو سکھایا بھی یہی جارہا ہے کہ زندگی میں اگر رونق ہے تو صرف کھانے سے۔ اگر اچھی طرح جینا ہے تو یاد رکھا جائے کہ اچھے کھانے سے بڑھ کر اچھا جینا کچھ بھی نہیں۔ مختلف ذرائع سے اہلِ وطن کے کانوں میں یہ بات انڈیلی جارہی ہے کہ زندگی کھانے پینے سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔ کوئی کچھ بھی کہتا رہے، زندگی کا معیار بلند کرنے کے کتنے اور کیسے ہی طریقے سُجھاتا رہے، لوگ زندگی کو کھانے کی میز تک پھیلی ہوئی حقیقت محسوس کرنے لگے ہیں۔ تمام معاملات کھانے سے شروع ہوکر کھانے پر ختم ہوتے ہیں۔
ایک دور تھا کہ کوئی کسی سے ملنے جاتا تھا تو صرف ملنے جاتا تھا یعنی گپ شپ لگانے کا مزا آیا کرتا تھا۔ اب کوئی آتا ہے تو فکر لاحق ہوتی ہے کہ پکایا کیا جائے۔ اور آنے والا بھی خیر سے ایسا بے صبرا ہوتا ہے کہ پہلی فرصت میں پوچھ بیٹھتا ہے کہ کیا پکایا ہے یا کیا پکایا جارہا ہے۔ ملنا ملانا رہا ایک طرف، سارا زور صرف اس بات پر ہوتا ہے کہ کیا پکایا اور کھلایا جائے گا۔ دبئی والے پیچھے رہ گئے۔ وہ تیرتے ہوئے کچن تک محدود ہیں۔ ہم نے کچن کو دریا کی شکل دے کر اس میں تیرتے رہنے کا شغل اپنالیا ہے۔
جب انسان صرف شکم کے بارے میںسوچتا ہے تو سوچ محدود ہوتے ہوتے نکتے کی سی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ آج پاکستانی قوم کی نمایاں ترین پہچان کھانا پینا ہے۔ کسی بھی بڑے شہر میں نکل جائیے، سارا زور کھانے پینے پر ہے۔ گویا اس سے ہٹ کر زندگی کچھ بھی نہیں۔ مدتوں بعد بھی اگر ملنا ہو رہا ہو تو زور کھانے کے اہتمام پر ہوتا ہے۔ لوگوں کے ذہن سے یہ بات نکل سی گئی ہے کھانا پینا زندگی کا حصہ ہے، زندگی نہیں۔ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے جتنا کھانا چاہیے اُس سے زائد کھانا وجود کو غیر متوازن کردیتا ہے۔
دنیا میں اور بہت کچھ ہے جو ہماری توجہ پانے کا منتظر ہے۔ میڈیا کی بدولت ہم پوری دنیا سے بخوبی واقف ہوچکے ہیں۔ مختلف خطوں کے لوگ جس انداز سے زندگی بسر کرتے ہیں وہ بھی ہمارے علم میں ہے۔ دور افتادہ خطوں کے لوگوں کی سادگی بھی ہماری نظر میں ہے۔ پھر ہم سب کچھ بھول کر زندگی کو کچن کے محور پر گھمانے کے فراق میں ہیں۔ زندگی کا ہر معاملہ کچن کے ''گول دائرے‘‘ میں یوم گھوم رہا ہے کہ باقی تمام معاملات گھن چکّر ہوکر رہ گئے ہیں۔ جن خواتین پر گھر کو بنانے اور گھر کے تمام افراد کی زندگی میں توازن پیدا کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اُنہیں کچن تک محدود کردیا گیا ہے۔ صورتِ حال کو اس نہج تک لانے کی ذمہ داری گھر کے تمام ہی اسٹیک ہولڈرز پر عائد ہوتی ہے۔ عورت کے بارے میں فرض کرلیا گیا ہے کہ وہ صرف کھانے پکانے کے لیے اور اس حوالے سے ورائٹی متعارف کرانے کے لیے پیدا کی گئی ہے اور مردوں نے یہ طے کرلیا ہے کہ زندگی صرف اس لیے دی گئی ہے کہ ہم روز اللہ کی نعمتوں کو معدے میں اتارتے رہیں اور جو نعمتیں معدے میں اتاری نہیں جاسکی ہیں اُن کا منہ تک لایا جانا یقینی بنائیں۔
خوش خوراک ہونا قابلِ قدر صفت ہے مگر اپنے پورے وجود کو دستر خوان تک محدود کردینا کہاں کی دانش مندی ہے؟ زندہ رہنے اور پنپنے کے لیے اور بھی بہت کچھ درکار ہوتا ہے۔ کھانے پینے کی منزل سے گزریں تو ہم دوسرے امور کے بارے میں بھی سوچیں گے۔ وقت آگیا ہے کہ ہم کچن کی حدود سے نکل کر زندگی کے دیگر زیادہ اہم معاملات کے حوالے سے بھی شرمندہ ہوں۔ کھانے کے لیے زندہ رہنا زندگی کا بہترین مصرف ہرگز نہیں۔ سوچا نہ جائے تو کچن کا دریا یوں بہا لے جاتا ہے کہ پھر باڈی نہیں ملتی!