دنیا کے تو چلن ہی نرالے ہیں۔ جس طرف بھی نظر اٹھائیے، لوگ کام میں ایسے غرق ہیں جیسے دم لینے یعنی کچھ آرام کرنے سے جان پر بن آئے گی۔ سیانوں نے دن رات ایک کرکے چند ایسے اقوال گھڑ دیئے ہیں جنہیں پڑھ پڑھ کر لوگ کام کرنے کے لیے بے تاب، بلکہ دیوانے ہوئے جاتے ہیں۔ ہم اب تک سمجھ نہیں پائے کہ کام کے ذریعے آخر کیا ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے؟ کیا کام کرنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کے دم قدم سے یہ دنیا قائم ہے؟ دنیا بھر میں کام کرنے کو اس قدر اہمیت دی جارہی ہے کہ آرام کرنے کا چلن کم ہوگیا ہے اور اِسے انتہائی گھناؤنا عمل تصور کیا جارہا ہے۔ بعض معاشروں میں تو آرام کو تقریباً حرام کا درجہ حاصل ہے۔ گویا یہ طے کرلیا گیا ہے کہ کسی نہ کسی طور کچھ نہ کچھ کرتے رہنا ہے تاکہ دنیا کو یقینی دلایا جائے کہ ع
... ہم بھی تو ''کھڑے‘‘ ہیں راہوں میں!
ہزاروں برس ہوتے ہیں کہ انسان نے محنت کا چلن سیکھا تاکہ زندگی کو آسان بنائے، کچھ ایسا کرے کہ آگے چل کر زیادہ کام نہ کرنا پڑے۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ہزاروں برس کے اس عمل میں انسان نے زندگی کو آسان سے آسان تر بنانے پر غیر معمولی محنت کی ہے۔ ذہن کے گھوڑے دوڑاکر ایسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ کسی کو زیادہ کام بھی نہ کرنا پڑے اور زندگی بھی مزے سے گزرے۔ اشیائے ضرورت سے ایک قدم آگے جاکر اشیائے آسائش اور اب اشیائے تعیّش پر معاملہ ٹھہرا ہے۔ مگر پھر بھی کام کا گراف ہے کہ اوپر اٹک گیا ہے، نیچے آنے کا نام نہیں لے رہا۔
ماہرین کو ایک بات کی داد تو دینا ہی پڑے گی کہ وہ پہلے درد متعارف کراتے ہیں اور پھر دوا۔ یعنی ہر صورت دھندا چلتا رہنا چاہیے۔ اگر لوگ مزے سے زندگی بسر کر رہے ہوں تو ماہرین پہلے اُن کا سارا مزا خاک میں ملانے کا اہتمام کرتے ہیں اور جب مزا غارت ہو جاتا ہے تو زندگی کو دوبارہ پرلطف بنانے کے نسخے تجویز کرتے ہیں۔ گویا ع
وہی قتل بھی کرے ہے، وہی لے ثواب الٹا
ایمان کی بات تو یہ ہے کہ آج کی دنیا میں شادی کی طرح کام کا معاملہ بھی موتی چُور کے لڈو جیسا ہوگیا ہے۔ کھائیے تو مصیبت، نہ کھائیے تو مصیبت۔ جو کام کرتے ہیں اُن کی زندگی میں بھی پریشانیاں ہیں اور جو نہیں کرتے وہ بھی پریشان رہتے ہیں۔ کام نہ کرنے کی صورت میں پیدا ہونے والی پریشانی کا تعلق، خیر سے، ہمارے معاشرے سے نہیں۔ ہم جہاں ہیں جس حال میں ہیں، مزے میں ہیں، مزے سے ہیں۔ ماہرین کام کے حوالے سے اٹکل کے گھوڑے دوڑاتے رہتے ہیں اور ہم یہ تماشا دیکھ کر محظوظ ہوتے رہتے ہیں۔ ضمیرؔ جعفری مرحوم کی روح سے معذرت کے ساتھ ؎
ماہرین اس کام میں الجھے ہیں جس ہنگام سے
وہ بھی ہیں آرام سے اور ہم بھی ہیں آرام سے!
دنیا بھر میں ماہرین کام کے حوالے سے تحقیق کا ڈول ڈالتے رہتے ہیں اور پھر تحقیق کے نتائج کی بنیاد پر جو کچھ کہتے ہیں وہ کچھ اس قسم کا ہوتا ہے کہ ع
نہ ابتداء کی خبر ہے نہ انتہا معلوم!
اب یہی دیکھیے کہ کام کرتے رہنے کو زندگی کا بنیادی مقصد بلکہ زندگی قرار دینے والے ماہرین ہی سڑک کی دوسری طرف جاکر یہ تجویز کرتے ہیںکہ ہفتے بھر میں اِتنے گھنٹوں سے زیادہ کام نہیں کرنا چاہیے ورنہ زندگی غیر متوازن ہوجائے گی۔ بعض معاشروں میں تو ماہرین نے تجویز پیش کی ہے کہ یومیہ چار گھنٹے اور ہفتے میں چار دن کام کا معمول متعارف کرایا جائے۔ ٹھیک ہے مگر یہ بات بتانے کی زحمت ماہرین نے گوارا نہیں کی کہ کام کے انتہائی عادی افراد جب خاصا کم کام کریں گے تو بچا ہوا وقت کہاں اور کس طرح kill کریں گے، کہاں جاکے سر ٹکرائیں گے!
آسٹریلیا کی نیشنل یونیورسٹی کے محققین نے بتایا ہے کہ ہفتے میں 40 گھنٹے سے زائد کام کرنا صحت کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ اور خواتین کے لیے تو ہفتے بھر میں 34 سے زائد ورکنگ آورز ہونے ہی نہیں چاہئیں!
کبھی کبھی تو ہمیں من حیث القوم اپنے آپ پر رشک آنے لگتا ہے۔ دنیا بھر میں تحقیق کا بازار گرم رہتا ہے۔ کام کے حوالے سے تحقیق کے ڈول ڈالے جاتے ہیں، بہت دور کی کوڑیاں لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور پھر تحقیق کے نتائج کی شکل میں جو نکاتِ جاں فزاء پیش کیے جاتے ہیں وہ ہم پہلے ہی نہ صرف یہ کہ جانتے ہیں کہ حرزِ جاں بنائے ہوئے ہیں۔ اب یہی دیکھیے کہ ترقی یافتہ معاشرے ہفتے میں چار دن کام کا تصور متعارف کرانے پر تُلے ہوئے ہیں اور اس کا کریڈٹ بھی لینا چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ یہ کوشش بھی کی جارہی ہے کہ یومیہ چار گھنٹے سے زائد کام کیا جائے نہ لیا جائے۔ واہ ری دنیا، تیرے ڈھنگ نرالے۔ سب کچھ جاننے کے دعوے اپنی جگہ مگر دنیا والوں کو معلوم کچھ بھی نہیں۔ ع
... جو رہی سو بے خبری رہی!
کام سے متعلق یہ تمام تصورات ہمارے ہاں ایک زمانے سے معروف ہی نہیں، آزمائے بھی جاچکے ہیں! ابتداء سرکاری مشینری سے ہوئی تھی مگر اب خیر سے پورا معاشرہ ایک رنگ میں رنگا ہوا ہے، کام کے حوالے سے ایک پیج پر آچکا ہے۔ سرکاری مشینری کا معاملہ یہ ہے کہ جب یاروں نے دیکھ لیا کہ کسی دفتر میں بیس بائیس میں سے صرف تین چار افراد پوری ورک فورس کا بوجھ برداشت کرسکتے ہیں تو بہتر یہ جانا گیا کہ سب کام کرکے اپنی توانائی ضائع نہ کریں اور اُن تین چار افراد کو کام کرنے دیں جو اس کا حق ادا کرنے کے قابل ہوں! اس تصور پر اب تک عمل کیا جارہا ہے۔ اور دیکھ لیجیے، سرکاری مشینری کام کر رہی ہے۔
اِس ''انقلابی‘‘ سوچ کو اب غیر سرکاری سطح پر بھی خوب آزمایا جاچکا ہے۔ کسی زمانے میں لوگ خوفزدہ رہا کرتے تھے کہ نجی شعبے میں محنت زیادہ کرنا پڑے گی۔ اب ایسا نہیں ہے۔ کام اب انہی سے لیا جاتا ہے یا کرایا جاتا ہے جو کام کا بوجھ اٹھانے کے لیے گدھے بننے کو تیار ہوں۔ جنہیں کام کرنے سے کچھ خاص شغف نہ ہو اُنہیں چھیڑنے سے گریز کیا جاتا ہے۔ اور دیکھ لیجیے، کام سے بچ بچاکے چلتے ہوئے بھی ہم، من حیث القومِ، کس مزے سے زندگی بسر کر رہے ہیں! ٹوکنے والوں کا کیا ہے، وہ تو ہر بات پر ٹوکتے رہتے ہیں اور قوم کو سیدھی راہ پر لگانے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔ اصلاحِ احوال کی فکر میں غلطاں رہنے والوں کی باتوں میں نہ آئیے، جیسے سب جی رہے ہیں ویسے ہی آپ بھی زندگی گزاریے اور پھر دیکھیے کہ زندگی کتنی حسین ہے!
ماہرین یہ بتانے میں کنجوسی سے کام لیتے ہیں کہ کام کے بارے میں زیادہ سوچنا زندگی کے حسن کو گہن لگا دیتا ہے! کام کے بارے میں زیادہ سوچ کر اپنے دل و دماغ کو تکلیف مت دیجیے، ضمیر کی نیند میں خلل مت ڈالیے۔ (شیخ ابراہیم ذوقؔ کی بھی روح سے معذرت کے ساتھ) ؎
اے ذوقؔ! ''مشقّت‘‘ میں ہے تکلیف سراسر
آرام سے ہیں وہ جو مشقّت نہیں کرتے!