بات سیدھی سی ہے۔ جس قوم نے مان لی وہ ترقی کرگئی۔ اور جس نے نہ مانی وہ بہت پیچھے رہ گئی۔ بات یہ ہے کہ فرق پیدا ہوتا ہے تو صرف علم سے۔ علم ہی کی بنیاد پر طے ہوتا ہے کہ کسی کو کیا کرنا ہے، کہاں جانا ہے اور کہاں تک جانا ہے۔ علم کو گلے لگانے والے فنون کو بھی گلے لگاتے ہیں۔ اور علوم و فنون کو گلے لگانے والوں کو بصد شوق گلے لگاتی ہے!
کسی بھی ترقی یافتہ معاشرے پر غور کیجیے۔ وہ معاشرہ جس حالت میں دکھائی دے رہا ہے اس کے لیے کریڈٹ صرف ایک چیز کو جاتا ہے ... تعلیم و تعلم کو۔ مضبوط تعلیمی نظام ہی طے کرتا ہے کہ معاشرہ کس سمت جائے گا، کس قدر ترقی کس طور یقینی بنائے گا۔ تعلیمی نظام کی ساخت ہی پورے معاشرے میں علم دوستی کو پروان چڑھانے کی راہ ہموار کرتی ہے۔ ہر ترقی یافتہ معاشرہ سب سے زیادہ زور تعلیم پر دیتا ہے۔ پالیسی میکرز اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے معاشرے نے جو بھی فرق پیدا کیا ہے وہ صرف اور صرف علم دوستی کی مدد سے پیدا کیا ہے۔ علم سے دوستی جیسے ہی کمزور پڑتی ہے، معاشرہ انحطاط کا شکار ہونے لگتا ہے اور یہ عمل طول پکڑے تو زوال کی طرف سفر شروع ہو جاتا ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا اجلاس ہو رہا تھا۔ موضوع تھا اعلٰی تعلیم و تحقیق کے اخراجات۔ ڈائریکٹرز کا خیال تھا کہ اعلٰی تعلیم و تحقیق کے اخراجات بہت بڑھ گئے ہیں، اُن میں کمی لائی جانی چاہیے۔ جب اچھی خاصی بحث ہوچکی تو اجلاس کی صدارت کر رہے ہارورڈ یونیوسٹی کے صدر نے صرف دو الفاظ ادا کیے اور بحث ختم کردی۔ انہوں نے اگر آپ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم و تحقیق بہت مہنگا معاملہ ہے تو Try ignorance یعنی جہالت کو آزما دیکھیے! بات بالکل درست ہے۔ اگر تعلیم و تحقیق کو نہ اپنایا جائے یا اصولوں پر سودے بازی کی ذہنیت پروان چڑھائی جائے تو پھر صرف جہالت کو گلے لگانے کا آپشن رہ جاتا ہے۔
بات اِتنی سی ہے کہ مستحکم معاشرے صدیوں کے عمل میں مستحکم ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کی عمارت کن ستونوں پر کھڑی ہے۔ اور یہ بھی کون سا ستون ہٹانے سے پوری عمارت زمین پر آ رہے گی۔ یہی سبب ہے کہ کوئی بھی ترقی یافتہ معاشرہ اپنی انتہائی بنیادی اقدار کے حوالے سے اصولوں پر سودے بازی نہیں کرتا۔ کسی بھی ترقی یافتہ معاشرے کے بنیادی معاملات کا جائزہ لیجیے، اندازہ ہوجائے گا کہ وہ اپنی بنیادوں کو مضبوط رکھنے کے لیے کیا کیا جتن کرتے ہیں۔ اور ان میں سرفہرست معاملہ ہے تعلیم و تحقیق کا۔ جدید ترین علوم و فنون میں غیر معمولی مہارت یقینی بنانے پر غیر معمولی توجہ دی جاتی ہے۔ تعلیم ہی سے بہتر معاشی امکانات کے ساتھ ساتھ قابل رشک ثقافتی و تہذیبی عروج کی بھی راہ نکلتی ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ ہمارے ہاں بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت پر غیر معمولی توجہ دی جاتی تھی۔ والدین اور اساتذہ مل کر محنت کرتے تھے جس کے نتیجے میں نئی نسل مستقبل کے لیے بہتر انداز سے تیار ہوتی تھی۔ امتحانات کے موسم میں ہر محلے کا الگ ہی رنگ ڈھنگ ہوا کرتا تھا۔ بچے امتحان کی تیاری میں اس قدر مصروف نظر آتے تھے کہ پورا ماحول ہی تبدیل ہو جاتا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے پورا ماحول ہی امتحان دینے والا ہے!
والدین بھی اس بات کو محسوس کرتے تھے کہ امتحان کی تیاری میں مصروف بچوں سے گھر کا کوئی کام غیر ضروری طور پر نہ کرایا جائے اور پڑھنے، آرام کرنے کا زیادہ سے زیادہ موقع دیا جائے۔ دوسری طرف اساتذہ بھی اپنی ذمہ داری محسوس کیے بغیر نہیں رہتے تھے۔ بیشتر اساتذہ طلباء کو شام کے اوقات میں گھر پر بلاتے تھے تاکہ اضافی کوچنگ کی جاسکے۔ تب کوچنگ کے نام پر دھن بٹورنے کا کلچر عام نہیں ہوا تھا۔ امتحانات نزدیک آنے پر کوچنگ بھی بڑھ جاتی تھی اور طلباء و طالبات گھر پر مطالعے میں گزارے جانے والے وقت میں بھی اضافہ کردیا کرتے تھے۔
ایک اہم بات اور۔ اس زمانے میں پڑوسی بھی اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ امتحانات کے زمانے میں طلباء و طالبات کی توجہ منتشر کرنے والی کوئی بات نہ ہو۔ گھروں سے ریڈیو اور ٹی وی کی آواز باہر نہیں جاتی تھی۔ بلا ضرورت ریڈیو سننے یا ٹی وی دیکھنے سے گریز کیا جاتا تھا۔ اب تو وہ زمانہ صرف خواب و خیال کا تانا بانا ہے۔
جب والدین اور اساتذہ مل کر توجہ دیتے تھے تو پڑھنے والوں پر بھی ذمہ داری کا بوجھ بڑھ جاتا تھا اور انہیں بھرپور تیاری کی تحریک ملتی تھی۔ وہ پوری توجہ اور لگن سے تیاری کرتے تھے۔ اس کے نتیجے میں بھرپور مثبت نتائج غیر متوقع نہیں ہوتے تھے۔ آج یہ ساری باتیں محض حافظے کا حصہ ہیں۔ اب سوچیے تو ایسا لگتا ہے جیسے وہ کوئی اور ہی دنیا تھی، ہم کسی اور ہی سیّارے پر بسا کرتے تھے!
روس سے خبر آئی ہے کہ وہاں ایک دور افتادہ قصبے کے ریلوے اسٹیشن پر ٹرین کے لیے خصوصی اسٹاپ مقرر کیا گیا ہے۔ یہ اسٹاپ محض ایک طالبہ کو سہولت فراہم کرنے کی خاطر ہے جسے گھر سے بہت دور واقع اسکول جانا پڑتا ہے۔ صرف ایک طالبہ کے لیے ٹرین کا اسٹاپ! اِسے کہتے ہیں علم دوستی ... اور یہ بھی کہ ریاست اپنی ذمہ داری کس حد تک سمجھتی ہے! ایسے ہی چراغ جلتے ہیں تو روشنی ہوتی ہے۔ ایسا ہی ایک کیس جاپان کا بھی ہے۔ وہاں ایک دور افتادہ قصبے کی بچی کو اسکول پہنچانے میں مدد دینے کے لیے دو ٹرینوں کا اسٹاپ مقرر کیا گیا تھا!
تعلیم و تحقیق کے حوالے سے جب ریاست اپنی ذمہ داریوں کو بھول بھال جاتی ہے تب اسکولوں میں اوطاق سجتی ہے یا پھر مویشی باندھے جاتے ہیں! ہم ایک مدت سے یہ تماشا دیکھ رہے ہیں اور صرف محظوظ ہونے تک محدود ہیں۔
نئی نسل کا دل سو تماشوں میں لگتا ہے مگر انہیں حقیقی ضرورت ہے صرف بات کی کہ تعلیم و تحقیق میں زیادہ سے زیادہ دلچسپی لے، علم و کے حصول پر پوری طرح متوجہ رہے۔ ہماری آج کی نئی نسل علم کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں سے پوری طرح واقف بھی نہیں اور متوجہ بھی نہیں۔ بہت کچھ ہے جو ان کا انہماک منتشر کرنے کے لیے موجود اور متحرک ہے۔ ایسے میں لازم ٹھہرتا ہے کہ ہم سب نئی نسل کو بہتر مستقبل کے لیے تیار کرنے کے حوالے سے اپنا اپنا کردار ادا کریں۔ اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں ریاست کو بھی اس کی ذمہ داریاں یاد دلانا ہوں گی تاکہ معاملات میں بھرپور ہم آہنگی پیدا ہو۔ نئی نسل کو تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا کے لیے تیار کرنے کے معاملے میں ریاست بظاہر اپنے فرائض بھول گئی ہے۔ والدین اور اساتذہ اس حوالے سے خاصا متحرک کردار ادا کرسکتے ہیں۔ مگر تان ٹوٹتی ہے نئی نسل پر۔ بالآخر آگے بڑھنے نہ بڑھنے کا فیصلہ تو اُسی کو کرنا ہے۔ نئی نسل کو اپنی ترجیحات کا نئے سِرے سے تعین کرنا ہوگا تاکہ اکیسویں صدی کے تقاضوں کو نبھانے کی بھرپور صلاحیت پیدا ہو۔