"MIK" (space) message & send to 7575

معمولات کا پنجرہ

ہم میں سے کون ہے جو چند معاملات میں لگی بندھی زندگی بسر کرنے کا عادی نہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں اکثریت ان کی ہے جو ایک ڈگر پر چلتے ہوئے زندگی بسر کرنے کے عادی ہیں۔ جب زندگی معیّن ڈگر پر چلتے ہوئے بسر ہو رہی ہو تو کہا جاسکتا ہے کہ انسان معمولات کے پنجرے میں قید ہوکر رہ گیا ہے۔ اِسی کے نتیجے میں زندگی یکسانیت سے دوچار ہوتی ہے۔ اِس میں کچھ شک نہیں کہ معمولات کے بغیر زندگی میں توازن مشکل سے پیدا ہوتا ہے مگر خیر، پوری زندگی کو معمولات کے حوالے کر دینا بھی کسی طور دانش کی علامت نہیں۔ 
اگر آپ روزانہ یکساں نوعیت اور شدت کے افعال انجام دیں تو بلا خوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ آپ معمولات کے پنجرے میں مقیّد ہیں۔ چند باتیں لگی بندھی ہوسکتی ہیں اور ہونی بھی چاہئیں۔ مثلاً دفتر یا فیکٹری جانے کی تیاری، کھانا پینا وغیرہ۔ اگر آپ چند معمولات نہیں اپنائیں گے تو زندگی میں خلاء سا محسوس کریں گے۔ چند ایک اور افعال بھی معمولات کی صورت ہی میں اچھی طرح انجام پاتے ہیں۔ مگر اپنے پورے وجود کو معمولات کے حوالے کر دینا نری حماقت ہے۔ یہ روش ذہن کے تمام دریچے بند کردیتی ہے۔ جب ہم روزانہ بیشتر افعال سوچے سمجھے بغیر، آنکھیں بند کر کے انجام دیتے ہیں تب ذہن کی کارکردگی کا گراف گرتا چلا جاتا ہے۔ اگر کسی معاملے میں سوچنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو تو زندگی ''آسان‘‘ ہوتی چلی جاتی ہے۔ زندگی کو آسان ضرور ہونا چاہیے مگر ایسی آسانی کس کام کی جو بہت سے معاملات میں ہمارے لیے صرف الجھنیں پیدا کرے؟ ذہن سوچنے کی مشین ہے، تماشا دیکھنے کی نہیں۔ اگر ہم ذہن سے کام لینے کی روش ترک کرتے جائیں گے تو اس کی کارکردگی کا گراف گرتا چلا جائے گا۔ ذہن اُسی وقت ڈھنگ سے کام کرتا ہے جب اُس سے کام لیا جاتا ہے۔ ذہن میں جس قدر محرکات ہوں گے وہ اُسی قدر تحرک سے ہم کنار ہوگا، بہتر کام کرے گا۔ جس طرح کوئی مشین طویل مدت تک بند رہنے کی صورت میں ڈھنگ سے کام نہیں کر پاتی بالکل اُسی طرح ذہن بھی اگر تادیر غیر فعال رہے تو بہتر انداز سے کام کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ معمولات کی شدید نوعیت کی غلامی اختیار کرنے کی صورت میں انسان اپنے ذہن کو زنگ لگاتا رہتا ہے۔ 
ذہن میں ابھرنے والے خیالات ہی ہمیں عمل کی تحریک دیتے ہیں اور ہم خود کو عمل کی دنیا میں کچھ ثابت کرنے پر توجہ دیتے ہیں۔ جب ذہن میں کوئی ڈھنگ کا خیال نہیں ابھرے گا تو عمل کی تحریک نہیں ابھرے گی۔ معمولات کے دائرے میں گھومتے گھومتے ہم کولھو کے بیل بن جاتے ہیں۔ یہ روش ہمیں جدت اور ندرت سے دور لے جاتی ہے۔ لگی بندھی زندگی ہمیں سوچنے کی ''زحمت‘‘ سے نجات دلا کر وہاں لے جاتی ہے جہاں ذہن کی کارکردگی صفر کو چھونے لگتی ہے۔ 
کامیاب افراد کی زندگی میں بھی معمولات ہوتے ہیں مگر وہ اِس راہ پر طویل سفر سے گریز کرتے ہیں۔ چند معمولات کامیابی کے حصول میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مثلاً صبح جلد اُٹھنا، وقت پر کھانا، وقت پر سونا وغیرہ۔ ہاں، 24 گھنٹے معمولات کے دائرے میں رہا نہیں جاسکتا۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ زندگی کو خاصا بے رنگ کردیتے ہیں۔ لگی بندھی زندگی میں تنوع نہیں ہوتا۔ دیکھا گیا ہے کہ معمولات کی پابندی زندگی سے ساری دل کشی نچوڑ لیتی ہے۔ زندگی کا اصل حسن اس امرمیں پوشیدہ ہے کہ ہم سبھی کچھ لگے بندھے انداز سے نہ کریں بلکہ چند ایک افعال اس طور بھی انجام دیں کہ چونکا دینے والا عنصر نمایاں ہو۔ زندگی کا حُسن حیرت میں ہے۔ ہم کوئی بھی نئی بات دیکھ کر، سیکھ کر زندگی میں معنویت پیدا کرتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو زندگی میں کچھ بھی دل کشی نہ رہے۔ 
معمولات کا جائزہ لیتے رہیے۔ اس صورت میں کچھ نیا کرنے کی تحریک پیدا ہوتی ہے۔ کسی بھی معمول کو اپنے وجود پر اس قدر حاوی نہ ہونے دیں کہ وہ سوچنے کے عمل پر اثر انداز ہو۔ سوچنا خالص انسانی عمل ہے اور انسان کو دیگر مخلوقات سے یہی وصف ممتاز کرتا ہے۔ صرف انسان سوچنا اور اس پر عمل کرنا جانتا ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کر پائے تو انسان ہی نہ رہے۔ بہت سے معمولات ہماری سوچ پر بُری طرح اثر انداز ہوتے ہیں کیونکہ ان کی گرفت میں ہمارا ذہن سوچنے کی طرف مائل ہی نہیں ہوتا۔ معمولات ہمیں سوچنے کے عمل سے دور کرسکتے ہیں اور کرتے ہیں۔ کسی بھی معمول کو حد سے زیادہ قبول کرنا خطرناک ہوتا ہے اور حد کا تعیّن بھی آپ ہی کریں گے۔ زندگی بھر معمولات کی قید میں رہنے والے اپنے آپ پر اور اپنی صلاحیتوں پر ظلم ڈھا رہے ہوتے ہیں۔ زندگی بہت بڑی حقیقت ہے اور معمولات اس کا محض حصہ ہیں۔ کسی ایک حصے کے لیے پوری حقیقت کو ٹھکرانا یا نظر انداز کرنا کسی طور دانش کی علامت نہیں۔ آپ بھی اپنے معمولات کا بغور جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ بہت کچھ میکانیکی انداز سے ہو رہا ہے۔ سوچ کو بروئے کار لائے بغیر مکمل ہونے والا عمل ہی معمول کہلاتا ہے اور یہی عمل حد سے گزرنے پر آسانی سے زیادہ مشکلات پیدا کرتا ہے۔
کامیاب زندگی بسر کرنے کے لیے نظم و ضبط ناگزیر ہے۔ کوئی بھی انسان اپنی زندگی میں واضح ترتیب اور نظم و ضبط پیدا کیے بغیر کامیابی کی طرف بڑھ نہیں سکتا۔ اگر کسی کو حالات کی مہربانی سے کامیابی مل بھی جائے تو واضح نظم و ضبط کے بغیر وہ اس کامیابی کو برقرار رکھنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ نظم و ضبط کی عادت مضبوط بنانے کیلئے انسان کو چند عادات اپنی زندگی میں داخل کرنا پڑتی ہیں جو معمولات بن جاتی ہیں۔ بعض معمولات ہماری زندگی میں اس طور سرایت کر جاتے ہیں کہ ان کے بغیر زندگی بسر کرنا کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ 
مگر خیر، ہر حال میں تمام معمولات لازم نہیں ہوتے۔ بہت سی باتیں ہماری زندگی میں کسی واضح تیاری اور منصوبہ بندی کے بغیر داخل اور شامل ہو جاتی ہیں۔ بعض عادات ہماری شعوری کوشش کے بغیر زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں۔ اس معاملے میں ہمیں غیر معمولی احتیاط برتنا ہے۔ اگر ہم معاملات اور معمولات پر نظر نہ رکھیں تو بہت سے از کار رفتہ افکار و اعمال غیر محسوس طور پر ہماری نفسی ساخت کا حصہ بنتے جاتے ہیں۔ 
لوگ ہمیں معمولات میں گھرا ہوا دیکھ کر ہم سے دور ہوتے جاتے ہیں۔ جب انہیں یقین ہو جاتا ہے کہ ہم معمولات کی حدود میں رہتے ہوئے سوچیں گے اور سوچے ہوئے پر عمل کریں گے تب وہ ہمارے بارے میں پُر امید ہونا چھوڑ دیتے ہیں۔ ہمارا میکانیکی انداز دیکھ کر انہیں بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ ہم چلتی پھرتی مشین کے سوا کچھ نہیں۔ 
ڈھنگ سے زندگی بسر کرنے کا ایک اچھا طریقہ یہ ہے کہ چند ایک ناگزیر معمولات سے ہٹ کر بہت کچھ ایسا بھی کیجیے جس میں حیرت اور ندرت کا عنصر یا تناسب نمایاں ہو۔ زندگی میں ایسا کچھ ضرور ہونا چاہیے جو آپ کو اور دوسروں کو تھوڑا بہت چونکاتا رہے، اپنی طرف متوجہ کرتا رہے۔ یہی زندگی کا حُسن ہے۔ معمولات کی غلامی زندگی کے حُسن کا یہ لطیف و دل کش پہلو غارت کردیتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں