"MIK" (space) message & send to 7575

چل نہ پائے گا بہانہ کوئی

اگر آپ ناکامی سے دوچار ہیں اور کسی نہ کسی طور مزید ناکامی سے بچنا چاہتے ہیں تو اپنی ناکامی کا جواز پیش کرنے کے لیے بہانہ تلاش کرنے یا تراشنے کے بجائے ٹھوس اسباب کے بارے میں سوچیے اور جو کچھ سوچیے اُس کی روشنی میں اپنی کارکردگی کا جائزہ لیجیے۔ 
براین ٹریسی کا نام کامیابی کی تحریک دینے والے مصنفین میں بہت نمایاں ہے۔ ''نو ایکسیکوزز‘‘ میں براین ٹریسی نے اس نکتے پر زور دیا ہے کہ ہم جب کبھی ناکامی سے دوچار ہوتے ہیں تو عام طور پر بہانے تلاش کرکے اپنے آپ کو بے قصور ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ایک بنیادی غلطی ہے جو ہم سے بار بار سرزد ہوتی ہے۔ 
ناکامی کس سے ہضم ہوتی ہے؟ کسی سے بھی نہیں۔ ہم میں سے کوئی بھی نہیں جو ناکام ہونے کو پسند کرتا ہو اور اسے ہضم کرنے کے لیے تیار ہو۔ کامیابی نہ تو حادثہ ہے نہ اسے نصیب کے کھاتے میں ڈالا جاسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم چند اصولوں اور اقدار کو ذہن نشین کرنے کے بعد ان کے مطابق کام کرنے کے نتیجے میں کامیابی سے ہم کنار ہوتے ہیں۔ 
کامیاب افراد کی زندگی کا جائزہ لے کر ہم سیکھ سکتے ہیں کہ بھرپور کامیابی کس طور یقینی بنائی جاسکتی ہے۔ کامیاب ہونے کے لیے لازم ہے کہ آپ میں کچھ بننے اور کچھ کر دکھانے کی بھرپور لگن ہو۔ بھرپور لگن کے بغیر بھرپور کامیابی کسی بھی طور ممکن نہیں بنائی جاسکتی۔ کامیاب شخصیات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کی صورت میں ہمیں کام کرنے کی بھرپور تحریک ملتی ہے۔ 
جو لوگ ناکامی کو درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ کامیابی کے لیے نفسی طور پر کبھی تیار نہیں ہو پاتے۔ اگر ناکامی کو درست ثابت کرنے یا اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری محسوس کرنے سے گریز کی عادت پڑگئی ہو تو انسان کامیابی کی راہ پر گامزن ہونے سے اجتناب برتتا رہتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ میں کام کرنے کی بھرپور صلاحیت بھی ہو اور سکت بھی مگر آپ ذہنی طورپر تیار نہ ہوں۔ ہم بھرپور کامیابی کے لیے اسی وقت تیار ہوسکتے ہیں جب ہماری زندگی میں نظم و ضبط ہو۔ نظم و ضبط کی راہ پر گامزن ہوئے بغیر کسی کو بھرپور کامیابی نہیں ملی۔ جب آپ نظم و ضبط کے پابند ہوں گے تو بہت سی بری عادتوں سے چھٹکارا پائیں گے اور بہت سی اچھی عادتیں اپنائیں گے۔ 
براین ٹریسی لکھتے ہیں کہ جب تک مقاصد یعنی اہداف کا تعین نہ کرلیا جائے تب تک ہم ٹھوس بنیاد پر کچھ نہیں کرسکتے۔ جب ہم اہداف کا تعین کرلیتے ہیں تب منزل کی طرف جانے والا راستہ خود بہ خود مل جاتا ہے۔ نئے سال کی آمد پر بہت سے لوگ بہت کچھ کرنے کا عزم کرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ صرف 4 فیصد افراد ہی اپنے عزم پر قائم رہتے ہیں۔ یعنی آپ نے جو کچھ بھی سوچ رکھا ہے اس کے مطابق کام کرنا ہی پڑے گا۔ 
یہ بات ذہن نشین رہے کہ وراثت یا ترکے میں دولت ملتی ہے، کامیابی نہیں۔ اس دنیا میں بھرپور کامیابی سے ہم کنار ہونے والوں کی زندگی کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ انہوں نے بھرپور محنت اور نظم و ضبط کی مدد سے کامیابی حاصل کی ہے۔ 
ہم میں بہت سی منفی عادات پنپتی رہتی ہیں۔ ان عادات پر قابو پانا اور پھر انہیں اپنے وجود سے الگ کرنا لازم ہے۔ ہم چاہیں تو اچھی عادات کو بھی اپناسکتے ہیں۔ سوال صرف ہمارے چاہنے کا ہے۔ پہلے مرحلے میں چند اقدار کا تعین لازم ہے۔ ان اقدار کے مطابق کام کرنے سے زندگی میں معنویت پیدا ہوگی اور اپنے وجود کو بہ طریق احسن بروئے کار لایا جاسکے گا۔ اپنی یا زمانے کی تسلیم شدہ اقدار پر سمجھوتہ کرنے والے ہمیشہ دکھی رہتے ہیں۔ 
کامیابی کی راہ پر گامزن ہونے کے لیے ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ آپ اپنی خرابیوں اور خامیوں کے لیے دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرانا چھوڑ دیں۔ دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانا یکسر منفی سوچ ہے۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ منفی توانائی کو اپنی طرف بلاتے ہیں یعنی توانائی کا ضیاع یقینی بناتے ہیں۔ دوسروں کو موردِ الزام ٹھہرانے کی ذہنیت ہمیں رفتہ رفتہ ہمارے ذہن کو بہانہ سازی کے کارخانے میں تبدیل کردیتی ہے۔ 
جسم کی طرح دماغ کو بھی ورزش کی ضرورت پڑتی ہے۔ دماغ کی ورزش یہ ہے کہ اس میں منفی خیالات کو پروان چڑھنے نہ دیا جائے۔ جو لوگ اپنے خیالات میں استحکام یقینی بناتے ہیں وہ سکھ کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں۔ اچھا یہی ہے کہ ہمارے ذہنوں میں منفی خیالات راہ نہ پائیں اور ہم اپنی کسی بھی ناکامی، خامی یا خرابی کے لیے دوسروں کو مورد الزام نہ ٹھہرائیں۔ 
جو لوگ بہانے تلاش کرنے کے عادی نہیں ہوتے وہ ہمیشہ محنت کرکے کامیابی سے ہم کنار رہتے ہیں۔ وہ اپنے وقت کو ڈھنگ سے بروئے کار لاتے ہیں۔ یاد رکھیے کامیاب افراد کبھی کوشش ترک نہیں کرتے اور کوشش ترک کرنے والا کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔ 
دیکھا گیا ہے کہ لوگ کام سے زیادہ تنخواہ پر توجہ دیتے ہیں۔ انہیں ہر وقت زیادہ سے زیادہ کمانے کی فکر لاحق رہتی ہے۔ ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طور تنخواہ میں اضافہ ہو۔ انہیں کام کرنے سے زیادہ غرض نہیں ہوتی اور زیادہ کام کرنے سے تو بالکل غرض نہیں ہوتی۔ 
جو لوگ بہانے تلاش نہیں کرتے وہ اپنے اوصاف کا گراف بلند کرنے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں۔ ایسے لوگ ہر معاملے میں کام کا معیار قابل رشک حد تک بلند رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے اندر قائدانہ صلاحیت پیدا کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ بحرانی کیفیت میں جو اپنے حواس پر قابو پانے میں کامیاب رہے وہی قائدانہ اوصاف کا حامل کہلاتا ہے۔ قائدانہ صلاحیت کو عمدگی سے بروئے کار لانے کے لیے لازم ہے کہ بہت زیادہ بولنے سے گریز کیا جائے۔ 
ہر کاروباری ادارے کی کامیابی کا راز فروخت بڑھانے پر ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ کسٹمرز کا اطمینان برقرار رہے۔ جو لوگ کسٹمرز کو دھوکا دیتے ہیں وہ میدان میں زیادہ دن ڈٹے نہیں رہ سکتے۔ ہر کاروبار فرد کو فروخت بڑھانے پر زیادہ سے زیادہ دھیان دینا چاہیے۔ 
جس طرح کسی کاروبار ادارے کو چلایا جاتا ہے بالکل اسی طرح ہر انسان کے لیے بھی لازم ہے کہ اپنے آپ کو خالص کاروباری بنیاد پر چلائے۔ اس مقصد کا حصول اسی وقت ممکن ہے جب انسان اپنے لیے بہترین ٹائم مینیجر ثابت ہو۔ ہر انسان کو اپنے وقت کا بہترین استعمال یقینی بنانا چاہیے۔ سوال وقت بچانے کا نہیں، اسے بہترین ڈھنگ سے بروئے کار لانے کا ہے۔ ہر کام کے لیے وقت نکالا نہیں جاسکتا اور اس کی کوئی ضرورت بھی نہیں۔ ہاں، اہم کاموں کے لیے وقت نکالنا لازم ہے اور ایسا کرنے ہی سے زندگی میں معنویت پیدا ہوتی ہے۔ 
آمدنی میں اضافے کے ساتھ اخراجات میں اضافہ فطری امر ہے۔ جب انسان زیادہ کماتا ہے تو زیادہ خرچ کرکے اپنی زندگی میں کچھ نیا پن بھی لانا چاہتا ہے۔ یاد رکھیے کہ جو کچھ بھی آپ کماتے ہیں اسے پورا کا پورا خرچ کردینا کسی طور درست نہیں۔ آمدنی کا 20 فیصد بچاکر محفوظ سرمایہ کاری یقینی بنانا بہت ضروری ہے۔ 
بھرپور کامیابی کے لیے ہر مسئلے کو سمجھنا اور پھر اس کے حل کی بھرپور کوشش کرنا لازم ہے۔ یاد رکھیے ہر مقصد کا حصول لازمی طورپر کامیابی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ہم زندگی بھر سکھ اور سکون کے لیے ترستے رہتے ہیں۔ سکھ ذہنی حالت کا نام ہے۔ لازم نہیں کہ زیادہ کمانے سے سکھ حاصل ہو۔ سکھ کا کسی مقصد یا چیز کے حصول سے بھی کوئی بلاواسطہ تعلق نہیں۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں