بے حسی اور بے دِلی کی دبیز چادر ہے جس نے پورے معاشرے کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ عدم دلچسپی کا گراف روز بروز بلند سے بلند تر ہوتا جا رہا ہے۔ جس طرح خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے‘ اُسی طرح لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کر مزید بگڑتے جا رہے ہیں۔ خرابیوں کی بنیاد مضبوط ہوتی جاتی ہے اور اصلاحِ احوال کے لیے کی جانی والی مساعی بے دم ہوئی جاتی ہیں۔
کراچی اور ملک کے دیگر بڑے شہروں میں ایک رجحان تیزی سے پروان چڑھا ہے۔ یہ رجحان ہے نئی نسل کے بے نیاز و بے لگام ہونے کا۔ موبائل فون کا استعمال بڑھنے سے معمولات کی نیرنگی بڑھ گئی ہے۔ لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی موبائل فون سے چپکے رہتے ہیں۔ کچھ نہ کچھ اَپ ڈیٹ ہوتا ہی رہتا ہے۔ ہاں، اَپ گریڈ کا معاملہ آگے نہیں بڑھ پاتا۔ نئی نسل موبائل فون، انٹرنیٹ اور ہلّے گلے میں گم ہوکر رہ گئی ہے۔
نئی نسل کے بے نیاز و بے لگام ہونے کی کئی صورتیں ہیں۔ کراچی اور دیگر بڑے شہروں میں ایک بنیادی فرق اِس قدر نمایاں ہے کہ نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کراچی میں واضح اکثریت ان کی ہے جو دیہی پس منظر نہیں رکھتے۔ اور جو دیہی پس منظر رکھتے بھی ہیں وہ سال میں ایک آدھ مرتبہ آبائی علاقوں کو جاتے ہیں۔ لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد، ملتان، سکھر اور دیگر بڑے شہروں کا معاملہ یہ ہے کہ وہاں آباد ہونے والوں کی اکثریت دیہی پس منظر رکھتی ہے اور ان کے آبائی علاقے بھی وہاں سے زیادہ دور نہیں یعنی رابطہ برقرار رہتا ہے۔ یہ پس منظر اُنہیں رات بر الوؤں کی طرح جاگنے کے رجحان سے محفوظ رکھتا ہے۔
کراچی، لاہور اور راولپنڈی وغیرہ میں نئی نسل ایک عجیب ہی رجحان سے دوچار ہے۔ یہ رجحان ہے رات رات بھر جاگنے کا۔ اور وہ بھی کسی جواز کے بغیر۔ محض دل پشوری کے لیے۔ کراچی کے طول و عرض میں رات بھر کھلے رہنے والے ہوٹلز کی بھرمار ہے۔ چائے پراٹھے والے اِن ہوٹلز پر نئی نسل اُسی طرح جمع رہتی ہے جس طرح شمع کے گرد پروانے منڈلاتے رہتے ہیں۔
کبھی نائٹ کرکٹ کے نام پر، کبھی گھومنے پھرنے کے نام پر... نئی نسل گھر سے باہر رہنے کو غیر معمولی ترجیح دینے لگی ہے۔ رات کو سڑکوں پر ٹریفک کم ہوتی ہے اس لیے موٹر سائیکل پر دندناتے پھرنے کا اپنا مزا ہے۔ یہ مزا خون کی طرح ہے کہ جس کے منہ کو یہ خون لگ گیا وہ پھر کسی کو دیکھتا ہے نہ کسی کی سنتا ہے۔
کراچی میں اس وقت نوجوانوں کے لیے بہترین مشغلہ صرف اتنا ہے کہ رات کو جب گھر کے تمام افراد گہری نیند سو جائیں تو تیار ہو کر، بن ٹھن کر نکلیے اور رات بھر دوستوں کے ساتھ خوش گپیوں کے بعد فجر کی اذان کے وقت گھر میں قدم رکھیے۔
رات کا جاگنا بھی عجیب ہی نشہ ہے۔ جب دنیا سو جاتی ہے تب یاروں کے ساتھ بیٹھ کر دنیا بھر کے لایعنی معاملات پر جی بھرکے تبادلۂ خیال کرنا! دن میں تو کچھ فکر بھی لاحق رہتی ہے کہ گھر والوں کو شاید کچھ منگوانا ہو اس لیے گھر سے زیادہ دیر تک دور رہا نہیں جا سکتا۔ رات کو ایسی کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوتی۔ جس قدر جی چاہے بیٹھے رہیے اور بتیاتے رہیے۔ چائے ہے کہ آتی رہتی ہے اور باتیں ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ رات کب شروع ہوئی اور کب ختم ہوئی کچھ پتا نہیں چلتا۔
مگر صاحب، پتا تو چلتا ہے! ہاں، اِس میں کچھ وقت لگتا ہے۔ وقت کا معاملہ بھی بہت عجیب ہے۔ اِسے ضائع کرتے رہیے، کچھ پتا نہیں چلتا کہ کتنا وقت ضائع ہوا۔ اور جب ایک منطقی حد آجاتی ہے تب اچانک اعمال نامۂ وقت کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔ تب اندازہ ہوتا ہے کہ ایسا بہت کچھ کھودیا ہے جو کسی صورت نہیں کھونا تھا۔ ؎
کھلی جو آنکھ تو وہ تھا، نہ وہ زمانہ تھا
دہکتی آگ تھی، تنہائی تھی، فسانہ تھا
ایک دور تھا کہ بچہ جب دس گیارہ سال کا ہوتا تھا تب والدین کو فکر سی لاحق ہو جاتی تھی کہ اِس کی تعلیم کا رخ متعین کیا جائے، چال چلن، کردار، معمولات اور حلقۂ احباب پر نظر رکھی جائے تاکہ زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے کی بنیاد ڈالی جا سکے۔ سب سے زیادہ فکر کردار اور تعلیم کی ہوا کرتی تھی۔ والدین تعلیم پر بھی نظر رکھتے تھے اور کردار پر بھی۔ کراچی میں آج بھی ایسے لاکھوں افراد ہیں جنہیں عین عالمِ شباب میں بھی اس بات کا پابند کیا جاتا تھا کہ مغرب تک گھر میں ہوں یعنی گھر واپس آ جائیں۔ اور اگر کسی کام سے کہیں جانا بھی پڑے تو عشاء تک واپس آ جائیں۔ اس بات کی تو خیر کوئی گنجائش ہی نہ تھی کہ جوان بچہ کسی ٹھوس جواز کے بغیر رات گئے تک گھر سے باہر رہے۔
یہ ہم کس دور میں جی رہے ہیں، کس زمانے کا حصہ ہیں کہ جوان بچہ رات رات بھر گھر سے باہر رہتا ہے اور والدین کو بظاہر کوئی فکر ہی نہیں! ایسا لگتا ہے جیسے والدین کو اولاد کی تعلیم، کردار اور مستقبل کے حوالے سے کوئی واضح فکر لاحق نہیں رہی۔ سب نے طے کر لیا ہے کہ معاملات Random کے اصول کی بنیاد پر نمٹانے ہیں یعنی جسے جو بننا ہو گا‘ بن جائے گا، زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت کیا ہے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی دیکھ کر والدین نے شاید یہ سوچنا شروع کر دیا ہے کہ بازار میں جلد ایسی ٹیکنالوجیز بھی دستیاب ہوں گی جن کی مدد سے نئی نسل کو بہتر مستقبل کے لیے تیار کرنے کی فکر سے بھی جان چھوٹ جائے گی!
اضافی دکھ یہ ہے کہ اگر والدین کی توجہ اس بات کی طرف دلائیے کہ اُن کی اولاد Unmanagable ہوتی جا رہی ہے تو یہ کہتے ہوئے بات کو ٹال دیا جاتا ہے کہ بھئی اب معاشرے کا یہی چلن ہے، اگر بچہ اپنے ساتھیوں میں نہیں بیٹھے گا تو پیچھے رہ جائے گا۔ اب پتا نہیں بچہ کس معاملے میں پیچھے رہ جائے گا۔ اور اس کے یار دوست ایسی کون سی خوبیوں کے حامل ہیں کہ اُن کے ساتھ وقت نہ گزارنے کی صورت میں وہ خوبیاں اپنائی نہ جا سکیں گی!
لڑکپن اور جوانی کا زمانہ نئی نسل کو عجیب و غریب احساسات و جذبات سے دوچار کر دیتا ہے۔ ایسے عالم میں والدین کی بھرپور توجہ ہی تعمیری کردار ادا کر سکتی ہے۔ شباب کا زمانہ یقینا‘ محض اس لیے ہوتا ہے کہ بہتر اور بھرپور زندگی کے لیے کماحقہٗ تیاری کی جائے۔ یہ حسین دور قدرت اس لیے نہیں دیتی کہ رات رات بھر ہوٹلز اور تھڑوں پر بیٹھ کر ضائع کر دیا جائے۔ والدین اپنا بنیادی فریضہ بھول گئے ہیں۔ اولاد کی محض پرورش کافی نہیں، تربیت بھی لازم ہے۔ اُسے بہتر مستقبل کے لیے تیار کرنا ایک بنیادی ضرورت ہے جو پوری کی جانی چاہیے۔ نئی نسل کو بہت سے معاملات میں رہنمائی درکار ہوا کرتی ہے۔ یہ کام والدین اور دیگر بزرگ ہی کر سکتے ہیں مگر اس کے لیے لازم ہے کہ اُنہیں بھی اپنے فرض کا احساس ہو۔ اگر بزرگ ہی اپنا کردار بھول جائیں تو نئی نسل کیا کرے؟
رات کے تین بجے جوان بچہ بستر پر ہو نہ گھر میں کہیں اور تو والدین کا متفکر ہونا تو بنتا ہے۔ اور اگر وہ اس حوالے سے بے نیاز ہیں، غیر متفکر ہیں تو والدین اور اولاد دونوں کے مقدر کا صرف ماتم کیا جا سکتا ہے۔