شعبہ کوئی بھی ہو اور معاملہ کچھ ہو، قائد کا کردار سب سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ قائدانہ کردار سے انکار کرکے کسی بھی شعبے میں بہتری لانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ یہ قائدانہ کردار ہی تو ہوتا ہے جو کسی قوم یا ٹیم کی راہ متعین کرتا ہے۔ کسی بھی ٹیم کو بہترین کارکردگی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے قائد کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ بہترین قائد وہ ہے جو اپنی ٹیم، ادارے یا قوم کی کارکردگی کا گراف بلند کرنے کی راہ ہموار کرے۔ کسی بھی ٹیم کے تمام ارکان بہترین کارکردگی کا مظاہرہ اُسی وقت کرسکتے اور کر پاتے ہیں جب اُن کے ذہنوں میں اپنا اپنا ہدف واضح ہو۔ ٹیم کے ارکان کے ذہنوں میں ہدف واضح کرنا قائد کا کام ہے۔ قیادت کا بنیادی وصف یہی ہے کہ اِس کی مدد سے تمام معاملات واضح تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔
کسی بھی قائد کا بنیادی کردار کیا ہوتا ہے؟ یہ سوال بہت سے جواب رکھتا ہے۔ قائد کی بنیادی ذمہ داری تو یہ ہے کہ وہ اپنی ٹیم میں شامل ہر فرد کو زیادہ سے زیادہ اور بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی تحریک دیتا رہے۔ کارکردگی کا گراف گِرنے کا بنیادی سبب یہ ہوتا ہے کہ قائد اپنا کردار بھول جاتا ہے یا اُس پر نیم دِلی طاری ہو جاتی ہے۔ قائد کو کرنا کیا ہوتا ہے اور کیا قائد کے بغیر کام بہتر انداز سے نہیں ہوسکتا؟ آئیے، اِس سوال کے حوالے سے معاملات کا جائزہ لیں۔
ہر انسان بہت سی صلاحیتوں اور سکت کا حامل ہوتا ہے۔ وہ بہت کچھ کرنا اور پانا چاہتا ہے۔ اپنے طور پر کوشش کرنے کی صورت میں بہت کچھ حاصل ہو بھی جاتا ہے مگر کام کرنے کا زیادہ مزا اُسی وقت ہوتا ہے جب کوئی واضح راہ متعین ہو اور اُس پر بہتر انداز سے گامزن رہا جائے۔ ہر معاشرے میں ایسے افراد کی تعداد کم نہیں ہوتی جن میں بہت سی صلاحیتیں ہوتی ہیں مگر وہ کچھ زیادہ اِس لیے نہیں کر پاتے کہ اُنہیں ٹھیک ٹھیک اندازہ نہیں ہوتا کہ کرنا کیا ہے۔
چلیے، ہم کھیلوں کی کسی ٹیم کی مثال لیتے ہیں۔ کرکٹ ٹیم میں بیٹسمین بھی ہوتے ہیں، باؤلرز بھی ہوتے ہیں۔ اور فیلڈنگ تو سبھی کو کرنی پڑتی ہے۔ کپتان خود بھی کھلاڑی ہی ہوتا ہے۔ وہ بیٹسمین بھی ہوسکتا ہے اور باؤلر بھی۔ اچھی بات تو یہ ہے کہ کپتان اچھا کھیل کر دکھائے۔ کپتان کی عمدہ کارکردگی سے ٹیم کے تمام ارکان کا حوصلہ بلند ہوتا ہے۔ بحرانی کیفیت میں کپتان کا عمدہ کھیل مورال بلند رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ مگر ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ کپتان اچھا کھیلے یا نہ کھیلے، اُسے دوسروں سے اچھا کام لینا ہے۔ موقع کی نزاکت کے اعتبار سے ہر کھلاڑی کو بہترین انداز سے استعمال کرنا ہی کپتان کا کام ہے۔ اُس کی تعیناتی ہوتی ہی اِس کام کے لیے ہے کہ اپنی انفرادی کارکردگی پر کم اور تمام کھلاڑیوں کی اجتماعی کارکردگی پر زیادہ دھیان دے۔ اس معاملے میں بہترین مثال انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان مائک بریرلی کی ہے۔ 1980 کے عشرے میں بریرلی اچھا کپتان تھا۔ اس کی اپنی کارکردگی برائے نام بھی متاثر کن نہ تھی مگر اُس نے ٹیم کو پوری ہم آہنگی کے ساتھ چلایا اور اُس کے دور میں تمام کھلاڑی یک جان ہوکر کھیلتے رہے۔
ہم اگر اپنے ملک کی مثال لیں تو عمران خان کامیاب کپتان تھے۔ وہ خود بھی اچھا کھیلتے تھے اور تمام کھلاڑیوں سے خوب کام لینا بھی جانتے تھے۔ عمران خان کی بیٹنگ اور باؤلنگ لاجواب تھی مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ کھلاڑی سے زیادہ کپتان کی حیثیت سے یاد رکھے جائیں گے۔ اُن کے دور میں تمام کھلاڑی جان لڑادیتے تھے۔ بھرپور فتح کے لیے جو کچھ بھی درکار ہوا کرتا ہے وہ سب کچھ عمران خان کی قیادت میں کھلاڑی کیا کرتے تھے۔ یہی حال جاوید میانداد کا تھا۔ انہوں نے جب بھی ٹیم کی قیادت کی، ثابت کیا کہ وہ خود ہی نہیں کھیلتے بلکہ دوسروں سے بھی اچھی طرح کام لینے کا ہنر جانتے ہیں۔ میچ کے بدلتے ہوئے تیور دیکھ کر میاں داد باؤلنگ اور فیلڈنگ میں ضروری تبدیلیاں یقینی بنانا جانتے تھے۔
ٹیم لیڈر کے لیے اس بات کی غیر معمولی اہمیت ہے کہ وہ اپنے حصے کا انفرادی کام ایک طرف ہٹائے اور دوسروں سے کام لینے پر زیادہ توجہ دے۔ ٹیم لیڈر کو تمام ارکان میں زیادہ سے زیادہ جوش و جذبہ پیدا کرنے پر خاطر خواہ توجہ دینی چاہیے۔ کسی بھی ٹیم لیڈر کے لیے منصب اہمیت نہیں رکھتا۔ زیادہ وقعت اس بات کی ہے کہ وہ ٹیم کے ہر رکن میں بھرپور کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کا جذبہ کس طور پیدا کرتا ہے۔ کام کرنے کا جذبہ ہی ٹیم کو ٹیم بناتا ہے۔ اگر ٹیم کا ہر رکن اپنی کارکردگی بہتر بنانے پر توجہ نہ دے، بھرپور جذبے اور لگن سے متصف نہ ہو تو مل کر کام کرنے کا مزا اور مقصد جاتا رہتا ہے۔
کسی بھی شعبے اور سطح کی ٹیم میں سب سے زیادہ اہمیت اِس بات کی ہے کہ ٹیم لیڈر دوسروں میں بہتر کارکردگی کا جذبہ پیدا کرنے میں کس حد تک کامیاب ہو پاتا ہے۔ ٹیم لیڈر کا اصل اور بنیادی کام ٹیم کے تمام ارکان کو ایک دوسرے کے لیے قابل قبول بناتے ہوئے بہتر کام کے لیے تیار کرنا ہے۔ وہ اپنی انفرادی کارکردگی کے ذریعے بھی مثال بنتا ہے مگر اِس سے ایک قدم آگے جاکر اُسے ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ تمام ارکان کی صلاحیتوں کو بخوبی سمجھتا ہے، قدر کرتا ہے اور اُن سے کماحقہ کام لینے کے معاملے میں سنجیدہ ہے۔ اگر ٹیم کے ارکان کسی بھی مرحلے پر محسوس کریں کہ ٹیم لیڈر اُن کی صلاحیت اور سکت کے حوالے سے زیادہ پُرامید اور سنجیدہ نہیں تو اُن میں جوش و جذبے کا گراف گِرتا چلا جاتا ہے۔
تیزی سے بدلتی ہوئی صورتِ حال میں کام کرنے والی ٹیم کے لیے لیڈر کی بھرپور صلاحیت بہت اہم ہوا کرتی ہے۔ ٹیم لیڈر ہی طے کرتا ہے کہ کسی بھی تبدیل شدہ صورتِ حال میں کیا کرنا ہے اور کس طرح کرنا ہے۔ کاروبار ہو یا کھیل، سیاست یا تعلیم ... ٹیم لیڈر ہی طے کرتا ہے کہ ٹیم کے تمام ارکان کی طرزِ فکر و عمل کیا ہونی چاہیے۔ کسی بھی ٹیم میں ہر رکن کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ پوری تصویر ذہن نشین رکھے، صورتِ حال کے ہر پہلو کو مکمل طور پر سمجھے اور اپنی کارکردگی کا گراف بلند کرے۔ ٹیم لیڈر ہی طے کرتا ہے کہ کب کسے کیا اور کس طرح کرنا ہے۔ یہ سب کچھ وہ پورا منظر نامہ دیکھنے اور سمجھنے کے بعد طے کرتا ہے۔ ٹیم کے ارکان کو صرف عمل کی منزل سے گزرنا ہوتا ہے۔
اگر آپ بھی کسی بھی سطح پر کسی ٹیم کے سربراہ ہیں تو یہ نکتہ ہرگز نظر انداز مت کیجیے کہ آپ کو اپنی انفرادی کارکردگی پر کم اور ٹیم کے ارکان کی کارکردگی بہتر بنانے پر زیادہ توجہ دینی ہے۔ آپ کو کام کرنے سے زیادہ کام لینے پر متوجہ رہنا ہے۔ یاد رکھیے، ٹیم کے ارکان بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی تحریک پانے کے لیے لیڈر کی طرف دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں۔ اس معاملے میں یڈر کی طرف سے تساہل بلا جواز اور غیر معمولی خرابیاں پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔