اب کے گرمی کا یہ عالم ہے کہ معمولات بھی تہس نہس ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ شیخ سعدی نے کہا تھا کہ ایک بار دمشق میں ایسا شدید قحط پڑا کہ یار لوگ عشق وشق سب بھول گئے! اب کے گرمی نے کراچی میں بھی کچھ ایسی ہی کیفیت پیدا کی ہے۔ ذہنوں سے بہت کچھ محو ہوگیا ہے۔ حد یہ ہے کہ بہت دنوں سے منظور وسان نے کوئی خواب بھی نہیں دیکھا! گزشتہ دنوں سندھ اسمبلی میں اسپیکر آغا سراج درانی سے چند دلچسپ جملوں کے تبادلے کے دوران ایم کیو ایم کے عبدالرؤف صدیقی نے کہا کہ منظور وسان نے میری دوسری شادی کا خواب دیکھا ہے۔ ہمیں اس بات پر یقین نہیں آیا کیونکہ کراچی سمیت سندھ بھر میں جیسی سڑا دینے والی گرمی پڑ رہی ہے‘ اُس میں تو انسان پہلی شادی کا خواب بھی مشکل سے دیکھ پاتا ہے!۔
منظور وسان ہمارے اُن مہربانوں میں سے ہیں جنہیں خود بھی نہیں معلوم کہ وہ ہم پر مہربانی کر جایا کرتے ہیں۔ بات کچھ یوں ہے کہ منظور وسان کا محبوب مشغلہ ہے پیش گوئی کرنا۔ اور پیش گوئی کرتے ہیں وہ خواب کی بنیاد پر۔ منظور وسان جب بھی کوئی خواب دیکھتے اور میڈیا والوں سے گفتگو میں بیان کرتے ہیں تب ہمارے کسی نہ کسی کالم کو بھی تعبیر مل جاتی ہے۔ منظور وسان کی پیش گوئیاں ہمارے کالم کی زمین کے لیے کھاد، بیج اور پانی کا کام کرتی ہیں۔ ان کی باغ و بہار شخصیت جب کسی خواب کو بیان کرتی ہے ‘تو لوگوں کے دل کِھل جاتے ہیں۔‘مگر اے وائے ناکامی۔ اس گرمی نے اچھے اچھوں کو چپ رہنے پر مجبور کردیا ہے۔ ہم گرمی سے بھی پریشان ہیں‘ مگر یہ سوچ کر زیادہ پریشان ہیں کہ اگر گرمی کے ہاتھوں ہمارے مہربانوں کی زبان پر تالا لگ گیا تو ہم اپنے کالموں کا پیٹ کس طور بھرا کریں گے؟
خیر، ایک در بند ہوتا ہے‘ تو اللہ تعالیٰ سو در کھول دیا کرتے ہیں۔ بھلا ہو منتخب عوامی نمائندوں کا جنہوں نے اس گرمی میں بھی ایوانوں کی کارروائی کو گل و گلزار کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ قومی اسمبلی ہو یا صوبائی اسمبلیاں، یومیہ بنیاد پر مو شگافیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور قوم محظوظ ہوتی رہتی ہے۔ سندھ اسمبلی اس معاملے میں بازی لے جاتی دکھائی دے رہی ہے۔ مسلم لیگ (فنکشنل) نصرت سحر عباسی پہلے نمبر پر ہیں۔ انہوں نے معاملات کو محض منہ کے فائرز تک محدود نہیں رکھا بلکہ ایک مرحلے پر ''جُوتی دِکھائی‘‘ کی رسم بھی ادا کر ڈالی۔ اس پر ایوان میں خاصا ہنگامہ برپا ہوا اور ڈپٹی اسپیکر سیدہ شہلا رضا نے سارجنٹ ایٹ آرمز کو طلب کرکے نصرت سحر عباسی کو ایوان سے نکلوادیا۔ معاملات کا اخراج کی منزل تک پہنچنا بھی کم افسوسناک نہ تھا۔ اضافی دکھ اس بات سے پہنچا کہ اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہارالحسن خواہ مخواہ لپیٹے میں آگئے! خواجہ صاحب عام طور پر پُرسکون رہتے ہوئے اظہارِ خیال کرتے ہیں اس لیے ہم اُنہیں احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو خواجہ صاحب ہمارے مہربانوں میں سے نہیں کیونکہ وہ ایسی بات کم ہی کرتے ہیں جو ہمیں کالم لکھنے کی تحریک دے یا کالم میں آسانی سے کھپ سکے! یہی سبب ہے کہ سیاست کے حوالے سے سنجیدہ اور متوازن باتیں کرنے والوں کو ہم عموماً پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتے۔
گرمی جُوں جُوں بڑھتی جارہی ہے، بد مزاجی کے پارے بھی بلند ہوتے جارہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں انتخابی مہم شروع کرچکی ہیں۔ ماہِ صیام کی آمد بھی سیاسی گرما گرمی پر قابو پانے میں زیادہ کامیاب نہیں ہوسکی۔ جسے جو کہنا ہے، کہہ رہا ہے۔ اور ''جواب آں غزل‘‘ کا سلسلہ بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ لوگ یہ سوچ کر بھی پریشان ہیں کہ ماہِ صیام کے بعد شدید گرمی میں بھرپور انتخابی مہم چلائی جائے گی تب کیا ہوگا، کیا کیا دیکھنے اور سُننے کو ملے گا۔
اہل کراچی گرمی کے ہاتھوں کم، کے الیکٹرک کے ہاتھوں زیادہ تنگ ہیں۔ عوام کی پریشانیاں دیکھ کر ستم ظریف کب نچلے بیٹھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک ایس ایم ایس بہت تیزی سے گردش کرتا رہا‘ جس کا متن کچھ یوں تھا ''چاند تو مفتی منیب نے دکھا دیا، تارے ہم دکھائیں گے؛ منجانب ترجمان کے الیکٹرک‘‘ یہ ایس ایم ایس پڑھ کر ہم سہم گئے۔ گرمی کہہ رہی ہے میرا کام۔ اور دوسری طرف کے الیکٹرک نے بھی شہریوں کی شدید آزمائش کا تہیہ کر رکھا ہے۔ سنت کبیر کہہ گئے ہیں:۔ع
دو پاٹن کے بیچ میں باقی بچا نہ کوئے
ایک ماہ سے طلباء و طالبات کی پریشانی دیکھ دیکھ کر والدین اور دیگر شہری بھی پریشان ہوئے جاتے تھے۔ شدید گرمی میں امتحانات کی تیاری نے متعلقین اور غیر متعلقین سبھی کا لہو پی لیا۔ امتحانات کا مہینہ گزرا تو آزمائش کا موسم آگیا۔ ماہِ صیام کی بابرکت ساعتوں کے درمیان شدید گرمی اور پھر بجلی کی بندش نے معاملات کو ایسا بگاڑا ہے کہ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا اب درستی کی راہ پر کیونکر گامزن ہوا جائے۔ کے الیکٹرک نے طے کر رکھا ہے کہ موسم گرما کے بھرپور ''لشکاروں‘‘ سے صارفین کو محروم ہرگز نہیں رکھے گی۔ بجلی جاتی ہے تو واپسی کا نام نہیں لیتی۔ لوگ ''اکھیاں اڈیک دیاں‘‘ کی تصویر ہوکر رہ جاتے ہیں۔ لاکھ توجہ دلائیے، کے الیکٹرک والوں کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگتی۔ اُنہوں نے بھی شاید قسم کھا رکھی ہے کہ معاملات کو :۔ع
کمال اُس نے کیا اور میں نے حد کردی
کی منزل تک پہنچاکر دم لیں گے! بجلی کے نہ ہونے سے پانی کا بحران بھی فطری طور پرسر اٹھائے کھڑا ہے۔ اللہ کے آگے سجدہ ریز ہونے کی مبارک ساعتیں بجلی کے ماتم اور پانی کی تلاش میں ضائع ہو رہی ہیں۔ گرمی کی پہلی لہر آئی تھی تو شارٹ فال نے قیامت ڈھائی تھی۔ پیداواری صلاحیت کے مطابق کام کرنا کے الیکٹرک کے لیے ممکن نہ ہوسکا۔ کہا گیا کہ ایک بڑا پُرزہ خراب ہوگیا ہے۔ اب وہ پُرزہ تو آگیا ہے‘ مگر گئی ہوئی بجلی اب تک نہیں آئی۔
شدید گرمی کی دوسری لہر بھی وارد ہوچکی ہے۔ تین دن سے اہلِ کراچی شدید گرمی اور اُس سے بھی شدید پریشانی کی زد میں ہیں۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ:۔ع
مرے جاتے ہیں ہر دم اور ہر دم جی رہے ہیں
کی تصویر ہوچلے ہیں۔ دن سُورج کی معیت میں گزرتا ہے۔ شام ہوتی ہے تو افطار کے بعد لوگ جب سونے کی تیاری کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دن بھر سُورج جلوے بکھیرنے سے باز نہیں آتا اور رات بھر بجلی دیدار دینے کو تیار نہیں ہوتی! نیند اول تو آسانی سے آتی نہیں۔ اور آ بھی جائے تو بجلی کے جاتے ہی چلی جاتی ہے۔ بہت سے علاقوں میں لوگ رات رات بھر شدید گرمی اور حبس کے عالم میں کروٹیں بدلتے رہتے ہیں۔ اس کیفیت کو حسرتؔ موہانی نے یوں بیان کیا ہے :۔
اب دیکھیے کیا حال ہمارا ہو سَحر تک
بھڑکی ہوئی اک آگ سی ہے دل سے جگر تک
جو بھی کچھ اچھا بُرا ہے اللہ کی طرف سے ہے مگر ہمیں بُرے کی شدت کم کرکے اچھے کا گراف بلند کرنے کی کوشش تو کرنی ہی چاہیے۔ اگر اتنا بھی نہ کرسکے تو جینا کس کام کا؟ کے الیکٹرک، کے ایم سی، واٹر بورڈ اور بنیادی سہولتیں فراہم کرنے والے دیگر ادارے اتنا تو کریں کہ لوگ یہ کہنے پر مجبور نہ ہوں کہ:۔ ع
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے