عام انتخابات نزدیک آنے پر بہت کچھ ہم سے دُور ہوتا جارہا ہے۔ اس معاملے میں پہلا نمبر شائستگی کا ہے۔ شائستگی اتنی تیزی سے دامن چھڑاکر رخصت ہونے کی تیاری کر رہی ہے کہ حیرت بھی ہوتی ہے اور دُکھ بھی۔ منتخب ایوانوں کی مدت ختم ہونے کو ہے۔ نگراں سیٹ اپ آیا چاہتا ہے۔ جو سیٹ اپ آنے والا ہے‘ وہ خدا جانے کیا کیا ساتھ لائے گا‘یہاں تو مشکل یہ آن پڑی ہے کہ جاتا ہوا سیٹ اپ جاتے جاتے بہت کچھ دے رہا ہے بلکہ دینے پر تُل گیا ہے۔ گرما گرمی، آپا دھاپی، دھینگا مُشتی ... پتا نہیں کیا کیا ہے ‘جو in ہوچکا ہے اور تہذیب و شائستگی تیزی سے out ہوتی جارہی ہے۔
سندھ اسمبلی میں مسلم لیگ (فنکشنل) کی رکن نصرت سحر عباسی نے کسی معاملے پر مشتعل ہوکر جب جُوتی دکھائی ‘تو ایوان میں ہنگامہ برپا ہوگیا۔ اسی دوران ڈپٹی سپیکر شہلا رضا نے کسی بات پر قدرے مشتعل ہوکر اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن کو ڈانٹ دیا۔ اس کے بعد آخری آخری لمحات کے ایوان کا ماحول قدرے مکدّر آمیز ہوگیا۔
گرما گرمی بڑھی تو بات ٹی وی سٹوڈیوز تک پہنچ گئی۔ تحریکِ انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان معاملات بگڑے تو نعیم الحق اور دانیال عزیز کے درمیان خُنّس کی شکل میں پروان چڑھے اور پھر نعیم الحق کے ''ہاتھوں‘‘ ظاہر ہوئے! ''جُوتا دکھائی‘‘ کی رسم سندھ اسمبلی میں نصرت سحر عباسی نے ادا کی تھی‘ چینل کے سٹوڈیو میں ''ہاتھ اُٹھائی‘‘ کی رسم نعیم الحق کے ہاتھوں انجام پائی!
سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے سندھ میں الگ صوبے کی خواہش رکھنے والوں پر اسمبلی کے فلور پر لعنت بھیج کر نیا پینڈورا بکس کھول دیا ہے۔ ایم کیو ایم‘ مہاجر قومی موومنٹ اور دیگر جماعتیں اس حوالے سے پیپلز پارٹی پر لعن طعن کر رہی ہیں۔ لعنت اور جوابِ لعنت کے اس ماحول میں کوئی معقولیت کی کیا بات کرے! جب شائستگی کا دامن ہاتھ سے چُھوٹا اور جواب آں غزل کی توپ سے گولے داغنے کا سلسلہ شروع ہوا‘تو لوگ گڑے مُردے اکھاڑنے پر تُل گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے معاملات ذوالفقار علی بھٹو تک پہنچ گئے۔
جو تھوڑی بہت کسر رہ گئی تھی‘ وہ قومی اسمبلی میں اُس وقت پوری ہوگئی‘ جب لعنت والے معاملے پر ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ الگ صوبے کی خواہش رکھنے والوں کی بجائے پیپلز پارٹی کو اپنے فکر و عمل پر لعنت بھیجنی چاہیے۔ بعد ازاں میڈیا سے گفتگو میں فاروق ستار نے قدرے پرسنل ہوتے ہوئے کہا کہ کراچی میں ہیٹ ویو کا اثر سید مراد علی شاہ کے سَر پر براہِ راست ہوا ہے! اس کے جواب میں خورشید شاہ نے قومی اسمبلی کے فلور پر ایم کیو ایم کے بخیے اُدھیڑے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کے لوگ ایک دوسرے کو مارتے رہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اُنہوں نے رشید گوڈیل کو مبارک باد دی کہ قاتلانہ حملے میں ماں کی دعا سے بچ گئے!
سب ایک دوسرے کے بخیے اُدھیڑنے پر کمر بستہ ہیں۔ انتخابات کے گلشن میں جب بہار آتی ہے‘ تو ایسے ہی گُل کِھلائے جاتے ہیں۔ اور کیوں نہ کِھلائے جائیں کہ ساری رونق ان گُلوں سے ہے! سیاست مجموعی طور پر انتخابی مہم کا رنگ اختیار کرتی جارہی ہے۔ نِت نئے تماشے آنکھوں کو خیرہ کیے دیتے ہیں۔ بہت کچھ ہے‘ جو اس چکا چوند میں دکھائی نہیں دے رہا۔ ؎
یہ میرے ساتھ کیسی روشنی ہے
کہ مجھ سے راستہ دیکھا نہ جائے
انتخابی دکان داری خوب چل پڑی ہے۔ پگڑیاں اُچھالنے کی تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں۔ الزامات کے پوٹلے تیار ہیں اور کسی بھی وقت کھولے جاسکتے ہیں۔ ایسے ماحول میں جو جتنا ڈھیٹ ثابت ہو ‘وہ اُتنا ہی کامیاب رہتا ہے۔ بقول محسنؔ بھوپالی ؎
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دِیے میں جان ہوگی وہ دِیا رہ جائے گا
میاں صاحب نے کہہ دیا ہے کہ وہ کسی بھی وقت ہر راز افشاء کرسکتے ہیں۔ وہ اس بار کشتیاں جلاکر میدان میں آنا چاہتے ہیں۔ شہباز شریف کی سوچ خواہ کچھ ہو‘ نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کو منہ دینے کی ٹھان لی ہے اور اس معاملے جہاں تک جاسکتے ہیں ‘وہاں تک جانے پر کمر بستہ دکھائی دیتے ہیں۔ میڈیا والے آس لگائے بیٹھے ہیں کہ میاں صاحب کچھ کہیں‘ چند نئے پینڈورا بکس کُھلیں اور سلسلۂ روز و شب آگے بڑھے یعنی :ع
روٹی تو کسی طور کما کھائے مُچھندر!
اس وقت شہباز شریف کے لیے سیاسی دکان داری خاصی بڑی آزمائش کا درجہ رکھتی ہے۔ وہ ریاستی اربابِ حل و عقد سے معاملات کو درست رکھنا چاہتے ہیں ‘مگر بڑے بھیا تصادم کی راہ پر گامزن ہیں۔ میاں صاحب سمجھوتہ کرکے نِچلے بیٹھنے کو تیار نہیں۔
قدرتی ہیٹ ویو سے زیادہ شدت والی ہیٹ ویو میڈیا کی فضاء میں پنپتی، ابھرتی دکھائی دے رہی ہے۔ سبھی دبنگ انٹری دینے پر تُلے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ ذہن کی پیالی میں طوفان اٹھانے کے بعد سب اس بات کے منتظر ہیں کہ مائک اور کیمرے کے سامنے آنے کی دعوت دی جائے اور وہ سیاسی محفل کی رونق میں حتی الوسع اضافہ کریں۔ اہلِ وطن کو رونقیں نِہارنے اور سمیٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے‘جو سلوک دانیال عزیز سے روا رکھا گیا‘ وہ کسی سے کسی بھی وقت روا رکھا جاسکتا ہے۔ اب قدم قدم پر تنازعات جنم لینے کو ہیں۔ ایک دوسرے کو بیچ چوراہے پر ذلیل و بے نام کرنے کی کوششوں کا آغاز ہونے والا ہے۔
جب کسی ایوان کی مدت ختم ہونے لگتی ہے‘ تب اچانک کئی رکے ہوئے کام ہونے لگتے ہیں۔ فاٹا انضمام بل کی منظوری بھی ایک ایسا ہی معاملہ تھا۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظوری کے بعد اب یہ بل صدرِ مملکت کو بھیجا جائے گا۔ یہ بل اُن کی توثیق سے قانون میں تبدیل ہوگا اور یوں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے باضابطہ طور پر خیبر پختونخوا کا حصہ بن جائیں گے۔ اس نوع کے حساس فیصلے منتخب ایوان کے آخری لمحات میں کرنے کی منطق سمجھ میں نہیں آئی جبکہ اس پر خاطر خواہ بحث بھی نہیں کی جاسکتی۔
ماہِ صیام کے دوران گرمی بھی نقطۂ عروج پر ہے اور سیاسی ہما ہمی بھی نِچلی بیٹھتی دکھائی نہیں دیتی۔ سبھی لنگوٹ کس کر اکھاڑے میں اتر آئے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی درجۂ حرارت بلند تر ہوتا جارہا ہے۔ ؎
لگا ہے مصر کا بازار دیکھو
نئی تہذیب کے شاہکار دیکھو
والی کیفیت پائی جارہی ہے۔ سیاسی روشنیاں آنکھوں کو خیرہ کیے دیتی ہیں۔ عوام، جو ہر معاملے میں محض تماشا دیکھنے کے قابل رہ گئے ہیں‘ اس معاملے میں بھی محض تماشائی ہیں۔ ابھی کچھ طے نہیں کہ اگلے دو ماہ میں اُنہیں کیا کیا دیکھنا اور سہنا ہے۔ اہلِ سیاست قیامت ڈھانے پر بضد ہیں۔ ع
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گُہر ہونے تک