ہم زندگی بھر دو چیزوں پر قابو پانے میں کچھ خاص کامیاب نہیں ہو پاتے۔ پہلا نمبر ہے‘ لالچ کا اور دوسرے نمبر پر ہے ‘خوف۔ کسی نہ کسی چیز کی طمع ہمیں گھیرے رہتی ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی چیز سے ہمیں کچھ فیض نہیں پہنچتا ‘مگر اُسے پانے کے لیے ہم خواہ مخواہ بے تاب رہتے ہیں اور پاکر ہی دم لیتے ہیں۔ بعد میں احساس ہوتا ہے کہ اپنا وقت ضائع کیا اور کسی کی حق تلفی کر بیٹھے۔
خوف کا معاملہ یہ ہے کہ یہ ہمیں زندگی بھر ایک یا چند دائروں تک محدود رکھتا ہے۔ ہم زندگی بھر مختلف معاملات میں بلا جواز خوف کا شکار رہتے ہیں۔ کہیں اس خوف کو ہم شرم کا نام دیتے ہیں۔ کہیں یہ جھجھک کا نام پاتا ہے۔ کہیں کہیں یہی خوف ''کم آمیزی‘‘ اور ''قناعت پسندی‘‘ کے پردے میں ہوتا ہے۔ ہمارے خوف کا یہ عالم ہے کہ اپنے خوفزدہ ہونے کا اعلان بھی کھل کر نہیں کرتے!
کنویں میں کتا گر جائے‘ تو کنویں کو پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ فقہاء کی طے کردہ مخصوص مقدار میں پانی نکال کر پھینکا جائے۔ بیان کردہ مقدار میں پانی نکال کر پھینک دیا جائے‘ تب بھی کنواں پاک نہ ہوسکے گا ... جب تک کتا نہ نکالا جائے! لوگ کنویں سے کتا نکالتے نہیں اور پانی نکال نکال کر پھینکتے رہتے ہیں۔ ایسا ہی معاملہ لالچ اور خوف کا بھی ہے۔ ہم خوف سے نجات پانا چاہتے ہیں‘ مگر اس حوالے سے اپنی تمام کوششیں بھی خوف کے دائرے میں رہتے ہوئے کرتے ہیں۔
لالچ ہو یا خوف‘ دونوں ہی ہمارے ازلی دشمن ہیں۔ یہ فیصلہ کرنا انتہائی دشوار ہے کہ ہمیں لالچ سے زیادہ نقصان پہنچتا ہے یا خوف سے۔ بہت سے معاملات میں لالچ کے ہاتھوں ہمارے مفادات داؤ پر لگ جاتے ہیں اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی معاملے میں بے جا خوف ہماری پوری زندگی کا تانا بانا بکھیر دیتا ہے۔ کسی واضح فیصلے تک پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ بننے والی احتیاط پسندی بھی تو خوف ہی کی ایک شکل ہے۔
زندگی ہم سے قدم قدم پر ایڈجسٹمنٹ کا تقاضا کرتی ہے۔ ہمیں گام گام اپنے لیے جگہ بنانا پڑتی ہے‘ دوسروں کے لیے گنجائش پیدا کرنا پڑتی ہے۔ ایڈجسٹمنٹ سے مراد اپنے آپ کو دوسروں کے لیے قابلِ قبول بنائے رکھنا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ دوسروں کو بھی ایسی حالت میں قبول کرنا ہوتا ہے کہ ہم اُن سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہوسکیں۔ یہ سب کچھ اُس وقت ممکن ہے جب ہم لالچ اور خوف دونوں سے نجات پائیں۔ کسی بھی معاملے میں غیر ضروری لالچ اور بے بنیاد خوف ہماری ساری تیاری پر پانی پھیر دیتا ہے۔
کسی بھی معاملے کو وسیع تر تناظر میں سمجھنے اور بھرپور ادراک کے ساتھ عمل کی راہ پر گامزن ہونے کے لیے لازم ہے کہ ہمارے ذہن پر کوئی بھی غیر ضروری بوجھ نہ ہو۔ غیر ضروری بوجھ لالچ کا بھی ہوسکتا ہے اور خوف کا بھی۔ جب ہم کسی معاملے میں غیر ضروری طور پر فوائد کی توقع رکھتے ہیں تو صورتِ حال کچھ اور نکلنے پر دکھ ہوتا ہے۔ اسی طور بے جا خوف ہمیں وقت کی مناسبت سے اور ٹھوس فیصلے کرنے سے روکتا ہے۔ ہر صورتِ حال ہم سے کسی نہ کسی فیصلے یا نتیجے تک پہنچنے کا تقاضا کرتی ہے۔ ہمیں موزوں اور جامع رسپانس کے ذریعے ثابت کرنا ہوتا ہے کہ ہم میں بیدار مغزی بھی ہے اور بالغ نظری بھی۔ یہ دونوں اوصاف اُسی وقت پنپتے ہیں جب ہم دل و دماغ کی پوری وسعت کے ساتھ سوچیں اور سوچے ہوئے پر عمل کرنے کے معاملے میں بھی سنجیدہ ہوں۔
ہمیں سیکھنے کے لیے کیا کرنا پڑتا ہے؟ بہت کچھ اپنے ذہن میں انڈیلنا پڑتا ہے اور چند ایک معمولات یا عادات کو ترک کرنا پڑتا ہے۔ کیا اتنا کافی ہے؟ یقینا نہیں۔ فی زمانہ حواس اور حافظے پر اس قدر دباؤ ہے کہ جو کچھ الٹا سیدھا ''سیکھ‘‘ رکھا ہے اُس میں سے بہت کچھ ''ان سیکھا‘‘ کیے بغیر نیا کچھ بھی سیکھنا دردِ سر سے کم نہیں۔ فی زمانہ سیکھنے کا عمل انتہائی پیچیدہ ہے۔ چھوٹی موٹی چیز تو کسی نہ کسی طور سیکھی جاسکتی ہے‘ مگر کسی شعبے میں درجۂ کمال تک پہنچنے کے لیے بے حد محنت کرنا پڑتی ہے۔
ہر نئی صورتِ حال ہم سے کسی نہ کسی رسپانس اور تبدیلی کا تقاضا کرتی ہے‘ اگر ہم ضرورت کے مطابق تبدیل نہ ہوں‘ تو معاملات خرابی کی طرف جاتے ہیں‘ اگر مالی مشکلات بڑھ جائیں ‘تو ہمیں زیادہ کمانے کے بارے میں سوچنا پڑتا ہے‘ اگر ہم مالی پریشانیوں سے نجات پانے کے لیے عملی سطح پر کچھ نہ کریں‘ تو معاملات کسی منزل پر رکے نہیں رہتے‘ بلکہ خرابی اور پیچیدگی کی طرف بڑھتے رہتے ہیں۔ الجھن کا یہ مرحلہ اُسی وقت ختم ہوسکتا ہے‘ جب ہم بدلتے ہوئے حالات کے مطابق خود کو تبدیل کرنے کے قابل ہوں۔ عمیر نجمی کا شعر ہے ؎
نکال لایا ہوں ایک پنجرے سے اک پرندہ
اب اس پرندے کے دِل سے پنجرہ نکالنا ہے
ایسی ہی کیفیت سے ہم سب زندگی دوچار رہتے ہیں۔ ہم اپنے دل سے متعدد امور میں لالچ اور بہت سے معاملات کا خوف نہیں نکال پاتے۔ ذہن غلام ہوچکا ہو تو جسم کی آزادی کسی کام کی نہیں ہوتی۔ پرندے کے لیے سب سے حسین لمحہ کون سا ہوتا ہے؟ وہ کہ جب اُسے پنجرے سے نکال کر فضاء میں چھوڑ دیا جائے‘لیکن اگر پرندہ آزاد کردیئے جانے پر بھی سہما سہما رہے اور اُس کے دل میں خوف جاگزیں رہے ‘تو آزادی کس کام کی؟ پنجرے سے نکلنے پر بھی اگر پرندے کے دل میں پنجرہ بسا رہے ‘ تو آزادی کچھ بھی نہیں دے پاتی۔ ہمیں زندگی بھر قدم قدم پر ایسی ہی صورتِ حال کا سامنا رہتا ہے۔ بہت کوشش کرنے پر بھی ہم متعدد معاملات میں تحفظات سے نجات پانے میں کامیاب نہیں ہو پاتے‘ یعنی ہم تو پنجرے سے نکل آتے ہیں‘ مگر ہمارے دِل سے پنجرہ نہیں نکل پاتا۔
تعطل کی سی حالت سے دوچار رہنے کا ایک بنیادی سبب یہ ہوتا ہے کہ ہم بے بنیاد خوف اور لالچ سے نجات پانے کی سنجیدہ کوشش نہیں کرتے۔ کسی بھی بڑے کام کے لیے‘ بامقصد زندگی کے لیے خود کو تیار کرنے کی خاطر ہمیں اپنے دل و دماغ سے بہت سے پنجرے نکالنا ہوتے ہیں۔ ایسا کیے بغیر ہم بھرپور عمل پسند زندگی بسر کرنے کے قابل نہیں ہو پاتے‘ جو کچھ بھی ہمارے کام کا نہیں یا ہمارے لیے یکسر غیر متعلق ہے اُسے اپنی ذہنی ساخت کا حصہ بنائے رکھنا‘اپنے احساسات و جذبات کا جُز بنائے رکھنا کسی بھی طور قابلِ ستائش ہے‘ نہ قابلِ اعتناء اور یہ فیصلہ بھی ہمیں بر وقت کرنا ہوتا ہے کہ کیا ترک کرنا ہے اور کیا اپنانا ہے۔
بس اتنا یاد رکھیے کہ کسی بھی صورتِ حال سے نکلنے کے بعد اُسے غیر ضروری ذہنی ساخت یا حافظے کا حصہ بنائے رکھنے میں کسی بھی درجے کی بہتری نہیں بلکہ اپنی ہی ذات کا خسارہ ہے۔ ہمیں ہر نئی صورتِ حال کے لیے اس طور تیار ہونا ہے کہ گزرے ہوئے تمام لمحات گزرے ہوئے ہی ہوں‘ ہمارے موجودہ ماحول پر بے جا اثر انداز نہ ہوتے ہوں۔