"MIK" (space) message & send to 7575

وہی دانا ہے کہا جس نے نہ مانا دل کا

دل، دماغ، جگر... کچھ بھی کہاں قابو میں رہے جب تمام ہی معاملات ''ہیضے‘‘ کی نذر ہو گئے ہوں! معاشرہ وہاں کھڑا ہے جہاں رکنے کی گنجائش ہے نہ بیٹھنے کی۔ مصائب تو اور بھی ہیں اور پہاڑ ایسے ہیں۔ مشکلات کی کمی نہیں کہ ہم ''مشکل پسند‘‘ واقع ہوئے ہیں۔ قدیم زمانوں کے شعراء زیادہ سے زیادہ پیچیدہ اور سنگلاخ زمین میں شعر کہنا پسند کرتے تھے تاکہ جوہر شناسوں سے داد پا سکیں۔ ہم نے بھی کچھ ایسا ہی مزاج پایا ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک سنگلاخ قسم کا مسئلہ ہم نے اپنی زندگی کے کباڑ خانے میں جمع کر رکھا ہے۔ اگر کوئی مسئلہ کہیں سے آ نہ رہا ہو یا ہاتھ نہ لگ رہا ہو تو ہمیں سُوجھ جاتا ہے۔ ہم اپنی دنیا آپ پیدا کرنے والے مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگر کوئی بحران دریافت نہ ہو پا رہا ہو تو ایجاد کرنے میں ہم تکلف سے کام نہیں لیتے! 
دنیا والے یہ الزام لگاتے نہیں تھکتے کہ پاکستانی وقت ضائع کرنے میں سب سے بڑھ کر ہیں۔ ہمارے خیال میں اہلِ جہاں کو وہ آنکھیں نہیں ملیں جو حقیقت کو دیکھ سکیں۔ کوئی صاحبِ بصارت ہو تو ذرا غور سے دیکھے اور سمجھے کہ الجھنوں کو تلاش کر کے گلے لگانے میں ہم ذرا بھی تاخیر کے مرتکب نہیں ہوتے، گویا وقت ضائع نہیں کرتے! اب یہی دیکھیے کہ پورا پاکستانی معاشرہ، باقی دنیا کے تمام رجحانات کو بالائے طاق رکھ کر، ایک انوکھے رجحان سے ہم کنار بلکہ ہم آغوش ہے۔ یہ رجحان ہے اپنے حصے کا کام ایک طرف ہٹا کر دوسرے کے کام کو انجام تک پہنچانے کے جنون کا۔ جو اپنے کام سے کام رکھتا ہو اُسے حیرت سے دیکھا جاتا ہے اور دیکھا جانا بھی چاہیے۔ بھلا کیا زندگی صرف اِس لیے ملی ہے کہ اپنے آپ تک محدود رہتے ہوئے کام کریں اور اِس دنیا سے ایسی حالت میں کوچ کر جائیں کہ دوسروں کے کسی کام میں ہمارا کوئی حصہ نہ ہو؟ 
مگر قوم بھی کیا کرے؟ کائنات کے جتنے بھی اصول ہیں وہ ہم پر بھی تو اطلاق پذیر ہیں۔ زیادہ کام کرنے والے زیادہ آرام کرتے ہیں۔ رُوئے زمین پر ہر دور کا یہی چلن رہا ہے۔ ہم نے اِس چلن کو ذرا سا الٹ کیا دیا ہے ایک ہنگامہ برپا ہے۔ ہم اِتنا ہی تو کرتے ہیں کہ آرام پہلے کرتے ہیں تاکہ زیادہ تازہ دم ہو کر کام کریں۔ اور کام کے بعد تو آرام کرنا ہی ٹھہرا۔ 
انٹرنیٹ نے وبائی شکل اختیار کر کے پوری قوم کو ایک طرف کر دیا ہے۔ معاملہ ''ون سائیڈڈ‘‘ ہے یعنی ہمارے حواس کے سینے ہیں اور انٹرنیٹ کے تیر ہیں۔ کوئی ڈھنگ کی ڈھال بھی میسر نہیں۔ دنیا بھر میں انٹرنیٹ کا محض غلغلہ ہے، ہمارے ہاں ولولہ بھی ہے۔ معاملہ کچھ یوں ہے کہ کئی وقتوں کے بُھوکے کو اچانک بہت کچھ کھانے کو ملنے پر جو کیفیت پیدا ہوتی ہے وہی کیفیت ہم پر مسلط ہو گئی ہے۔ آسانی یہ ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے بہت کچھ میسر اور دستیاب ہے اور مشکل یہ ہے کہ ہم بسیار خوری کا شکار ہو گئے ہیں۔ جی نہیں، ہم نہاری پائے وغیرہ کی بات نہیں کر رہے۔ وہ بسیار خوری تو اپنی جگہ ہے۔ ہم تو جدید ترین اینڈرائڈ فونز کے ذریعے انٹر نیٹ کے دستر خوان پر کی جانے والی بسیار خوری کا ذکر کر رہے ہی۔ 
میڈیا ہو یا سوشل میڈیا، ہر محاذ پر پاکستانی ڈٹے ہوئے ہیں۔ جو کچھ بظاہر اس قابل نہیں کہ دیکھا اور سُنا جائے اُسے بھی دیکھنا اور سننا مزاج کا حصہ بن گیا ہے۔ کتنا دیکھنا چاہیے یہ بھی اب گئے وقتوں کا پیمانہ ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ پیکیج لگایا جاتا ہے اور بسیار خوری شروع کر دی جاتی ہے۔ معاملہ بتیانے کا ہو یا ویڈیو کلپس دیکھنے کا، ہر معاملے میں ضرورت اور گنجائش کو دیکھنے اور سمجھنے کی روش کو ترک کیا جا چکا ہے۔ ہم وہ عظیم قوم ہیں کہ کسی کی محنت کو رائیگاں نہیں جانے دیتے۔ دل نہ چاہ رہا ہو تب بھی بہت کچھ دیکھتے، سُنتے اور پڑھتے ہیں۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دل چاہنے پر کیا عالم ہوتا ہو گا! 
مرکزی دھارے کے میڈیا اور غیر روایتی یا سوشل میڈیا پر ایسا بہت کچھ ہے جو ہمارے لیے ہے نہ ہمارے کام کا ہے۔ مگر ہم کسی کی محنت کیوں ضائع ہونے دیں؟ نتیجہ یہ ہے کہ ع 
جو آئے آئے کہ ہم دل کشادہ رکھتے ہیں 
کے مصداق ہم انٹرنیٹ پر موجود بہت کچھ یوں اپنا رہے ہیں گویا حرزِ جاں ہو۔ جدید ترین موبائل فونز نے ہر وقت رابطے میں رہنا آسان کر دیا ہے اس لیے لوگ رابطہ کرنے کو کفرانِ نعمت شمار کرتے ہوئے ہر وقت کسی نہ کسی سے رابطے میں رہنے کو زندگی کا لازمی جُزو سمجھ بیٹھے ہیں۔ نتیجہ وہی نکلا ہے جو ہیضے کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ ہمارے حواس کو پیچش کی سی صورتِ حال کا سامنا ہے! ہم نے جدید ترین فونز، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور میڈیا کے سامنے سِپر ڈال دی ہے۔ کیوں نہ ڈالتے؟ جنگل میں کوئی تنہا جا رہا ہو اور سامنے سے شیر آ جائے تو وہ کیا کرے گا؟ ارے بھئی، اُسے کیا کرنا ہے؟ ایسی حالت میں جو کرنا ہے شیر کو کرنا ہے! ہمارے معاملے میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے شیر ہی کا کردار ادا کیا ہے۔ حضرتِ داغؔ دہلوی نے کہا تھا ؎ 
اچھی صورت پہ غضب ٹوٹ کے آنا دل کا 
یاد آیا ہے ہمیں ہائے زمانہ دل کا 
نگہِ یار نے کی خانہ خرابی ایسی 
نہ ٹھکانہ ہے جگر کا نہ ٹھکانہ دل کا 
ایمان داری کی بات تو ہے کہ رابطے بہتر بنانے والی ٹیکنالوجی نے ہمیں رابطوں کی دلدل میں پھنسا دیا ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ ؎ 
ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے 
اُس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے 
ہم نے سطورِ بالا میں کائنات کے اصولوں کا ذکر کیا ہے۔ کائنات کا ایک اصول یہ بھی تو ہے کہ ہر عمل کے نتیجے میں یکساں قوت کا رد عمل پیدا ہوتا ہے۔ اِسی اصول کا یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ لوگ سوچے سمجھے بغیر دماغ کے پیالے میں اُنڈیلی جانے والی چیزوں کے ریلے میں بہہ جاتے ہیں۔ مرکزی دھارے کا میڈیا ہو یا غیر روایتی میڈیا، پیش کی جانے والی چیز سب کے لیے نہیں ہوتی۔ غیر متعلق چیز کو دماغ کی پیالی میں ڈالیے گا تو طوفان اٹھے بغیر نہیں رہے گا۔ اور اس وقت پاکستانیوں کا معاملہ یہی ہے۔ ہر وہ چیز دیکھی، سُنی اور پڑھی جا رہی ہے جو متعلق ہے نہ کام کی۔ یہی سبب ہے کہ سب اپنا اپنا کام بھول کر دوسروں کے کام میں مشغول دکھائی دے رہے ہیں۔ جو پرچون کی دکان ڈھنگ سے نہیں چلا سکتا وہ بتیانے بیٹھتا ہے تو ملک کی سلامتی کے حوالے سے آرمی چیف کو مشورے دینے پر کمر بستہ دکھائی دیتا ہے! نتیجہ؟ ع 
نہ ٹھکانہ ہے جگر کا نہ ٹھکانہ دل کا 
کم ہی لوگ ہیں جن کے حواس قابو میں ہیں۔ عقلِ سلیم کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے کام سے کام رکھیں اور دستر خوان پر اُتنا ہی کھائیں جتنا ضروری ہو۔ پچاس ساٹھ پکوان چُن دیئے گئے ہوں تو ہر ایک کے لیے سب کو چکھنا لازم نہیں۔ دل تو بہت کچھ چاہتا ہے مگر دل کی ہر بات نہیں مانی جا سکتی۔ ہم جس کیفیت سے دوچار ہیں وہ دراصل اُسی وقت پیدا ہوتی ہے جب ذہن پر دل کا غلبہ واقع ہوچکا ہو۔ داغؔ دہلوی ہی کہہ گئے ہیں ؎ 
بعد مدت کے یہ اے داغؔ سمجھ میں آیا 
وہی دانا ہے کہا جس نے نہ مانا دل کا

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں