یوگنڈا کی پارلیمنٹ نے ایک ایسا قدم اٹھایا ہے‘ جو بیشتر پس ماندہ اور ترقی پذیر معاشروں کے لیے انتہائی قابلِ تقلید ہے۔ پارلیمنٹ نے ایک قانون منظور کیا ہے‘ جس کے تحت اُن تمام لوگوں بالخصوص نوجوانوں پر ٹیکس عائد کیا جائے گا‘ جو فیس بک‘ واٹس اپ‘ ٹوئیٹر اور سماجی رابطے کی دیگر ویب سائٹس پر گپ شپ کرتے ہیں۔
پاکستان کے طول و عرض میں پانی کی شدید قلت پائی جاتی ہے‘ مگر قدم قدم پر گپ شپ کے سمندر ہیں ‘جن میں پوری قوم غرقاب ہے۔ یوگنڈا افریقا میں ہے اور ظاہر ہے کہ ترقی یافتہ بھی نہیں۔ مجموعی طور پر پس ماندہ ملک ہے‘ مگر یہ بات غیر معمولی حد تک قابلِ ستائش ہے کہ پارلیمنٹ نے وقت کا ضیاع روکنے کے حوالے سے اپنی ذمہ داری محسوس کی ہے۔ بیشتر پس ماندہ اور ترقی پذیر معاشروں کی طرح یوگنڈا میں بھی نئی نسل انٹر نیٹ کی دَھتّی ہے۔ لڑکے اور لڑکیاں دن رات فون پر جُڑے رہتے ہیں۔ عمر کا جو حصہ عصری تقاضوں سے مطابقت رکھنے والے علوم و فنون میں دلچسپی لینے کا ہے‘ اُسے محض گپ شپ پر ضائع کرنا تو قومی نقصان کے مساوی ہے۔ نئی نسل کو آگے چل کر قوم کی خدمت کرنا ہے‘ اگر وہی خرافات کی نذر ہوجائے گی ‘تو ملک کا کیا ہوگا؟
پاکستانی معاشرہ بھی گپ شپ کی منزل میں اٹک کر رہ گیا ہے۔ نئی نسل کا یہ حال ہے کہ connectivity کی دلدل میں دھنسی ہوئی ہے۔ جتنے بھی غیر متعلق اُمور ہیں سب کے سب ہماری نئی نسل سے نتھی ہوگئے ہیں۔ لڑکوں اور لڑکیوں کو ہوش سنبھالتے ہی صرف ایک بات کی فکر لاحق ہوتی ہے ... ذاتی موبائل ہو اور جی بھر کے بیلنس ہو۔ نئی نسل کا ذہن اگر کام کرتا ہے‘ تو صرف اس معاملے میں کہ ذہن کو کام کی راہ سے کس طرح زیادہ سے زیادہ دُور رکھنا ہے! حالت یہ ہے کہ رات رات بھر لڑکے اور لڑکیاں فون پر محوِ گفتگو رہتے ہیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر اُن کے ذہنوں میں اتنی کتنی باتیں ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ کوئی کتنی اور کب تک باتیں کرسکتا ہے؟ اگر کسی کے ذہن میں یہ گمان ہے کہ اس حوالے سے کوئی حد بھی ہوسکتی ہے ‘تو وہ ذرا ہماری نئی نسل کو دیکھے۔ یہاں تو کسی بھی حد کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔
جس نسل کو کچھ مدت کے بعد ملک کے بیشتر شعبوں میں قائدانہ و غیر قائدانہ ہر طرح کا کردار ادا کرنا ہے۔ ملک کے لیے کچھ کرنا ہے۔ اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار ممکن بناکر معاشرے کو کچھ لَوٹانا ہے۔ وہ کیا کر رہی ہے؟ وقت کو زیادہ سے زیادہ ضائع کرنے کی راہ پر گامزن رہنا ‘آخر کس مقصد کے حصول کے لیے ہے؟ وقت کے ضیاع سے بھی کسی قوم یا معاشرے کو کچھ ملا ہے؟
نئی نسل تو تاریخ کے ہر دور میں کسی نہ کسی حد تک بے ہنگم و بے لگام ہی رہی ہے۔ جوانی کا جوش انسان کو ایسی کیفیت سے دوچار رکھتا ہے ‘جسے بر وقت کنٹرول کرنے میں ناکامی سے پورا وجود داؤ پر لگ جاتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ڈیڑھ دو عشروں میں دنیا کا ہر معاشرہ ٹیکنالوجیز کی مہربانی سے اس قدر بدل چکا ہے کہ نئی نسل کے لیے سب کچھ بدل گیا ہے۔ ڈیڑھ دو عشروں کے دوران پاکستان کی نئی نسل بھی ہزاروں سال پہلے سے اب تک آنے والی نئی نسل کے مقابلے میں اتنی تبدیل ہوچکی ہے کہ آنکھوں دیکھی حقیقت پر بھی یقین نہیں آتا۔
ہم نے ہر معاملے کو open-ended چھوڑ دیا ہے۔ دنیا بھر میں آنے والی نسلوں کے حوالے سے بھرپور منصوبہ بندی کی جاتی ہے تاکہ اُن کی زندگی بہتر انداز سے بسر ہونے کو یقینی بنایا جاسکے۔ یہ منصوبہ بندی اس لیے بھی ضروری ہے کہ آنے والی نسلوں ہی کو ملک کے معاملات سنبھالنے ہیں۔ زندگی کا سفر تو جاری ہی رہتا ہے‘ مگر منصوبہ بندی کے ساتھ زندگی بسر کرنا بہت سے غیر ضروری مسائل اور بحرانوں کی جڑ کاٹ دیتا ہے۔ ہمارے ہاں تو شاید کسی کو یہ احساس بھی نہیں کہ آنے والے زمانوں میں ہمارے لیے بہت سے بحران سَر اٹھائے کھڑے ہیں۔ وہ بحران اگر دکھائی نہیں دے رہے‘ تو اس کا سبب یہ ہے کہ پہاڑ بیچ میں ہے۔ زمانے کا یہ پہاڑ ہٹ جائے ‘تو ہمیں اپنے حصے کے بحران بھی دکھائی دیں گے۔
حواس پر حملے کرنے والے عوامل اتنے زیادہ ہیں کہ اچھے اچھوں کی 'واٹ‘ لگ چکی ہے۔ معاشرے میں ایسے تمام افعال زیادہ ہیں‘ جو وقت کے ضیاع کا سبب بنتے ہیں۔ کیوں؟ کیا یہ سب محض random کے اصول کی بنیاد پر ہے؟ قوم کی نئی نسل کو غیر متعلق امور میں الجھانے کا عمل فطری تو نہیں ہوسکتا۔ محسوس کیا جاسکتا ہے کہ کوئی نادیدہ ہاتھ اس حوالے سے کچھ کر رہا ہے۔ اور اس دانستہ عمل کی غایت کیا ہوسکتی ہے؟ یہی کہ نئی نسل علوم و فنون کے حصول کے حوالے سے ناکام رہے اور بامقصد انداز سے زندگی بسر کرنے کے قابل نہ رہے۔
کسی بھی پس ماندہ اور ترقی پذیر معاشرے میں اس بات کی قطعی گنجائش نہیں کہ نئی نسل وقت ضائع کرے۔ نئی نسل ہی تو معاشرے اور ریاستی مشینری کا اثاثہ ہوتی ہے۔ یہ اثاثہ ہی داؤ پر لگ جائے تو؟ ذرا سوچیے کہ ایسی حالت میں قوم کا کیا بنے گا۔
سنجیدگی چاہیے‘ سنجیدگی۔ ملک کے لیے سوچنا ہے ‘ تو پہلے اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ وقت کسی بھی طور ضائع نہ ہو۔ ہمیں خود بھی بچنا ہے اور نئی نسل کو بھی بچانا ہے۔ نئی نسل کو تباہی سے بچانے کی بہترین صورت یہ ہے کہ اُسے بامقصد ڈھنگ سے زندگی بسر کرنے کی طرف مائل کیا جائے۔ وقت کا ضیاع پوری قوم کا ضیاع ہے۔ اور اگر وقت نئی نسل کا ہو تو معاملہ اور بھی سنگین ہو جاتا ہے۔
یوگنڈا کی پارلیمنٹ نے تاریخی قدم اٹھاکر یہ ثابت کردیا ہے کہ اُسے اپنی نئی نسل کے بگڑنے کا کس قدر احساس اور دکھ ہے۔ گپ شپ پر ٹیکس لگاکر یوگنڈا کی پارلیمنٹ نے دراصل ایک راہ سجھائی ہے۔ ترقی اور استحکام کے چارٹ پر جو اقوام بہت نیچے ہیں‘ اُنہیں اوپر آنے کے لیے بہت کچھ کرنا ہے۔ اور جو کچھ کرنا ہے ‘اُس کے حوالے سے نئی نسل کا تیار ہونا انتہائی ناگزیر ہے۔ یہ نکتہ ہمیں بھی سمجھنا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں نئی نسل سے جس قدر بے اعتنائی برتی جارہی ہے‘ اس کا نتیجہ محض خرابیوں کے پنپنے کی شکل میں برآمد ہوا ہے۔ نئی نسل ہی سے ملک کو افرادی قوت میسر ہوتی ہے۔ افرادی قوت‘ جس قدر معیاری ہوگی‘ ملک اُسی قدر ترقی کرے گا۔ افرادی قوت کو معیاری اُس وقت تک نہیں بنایا جاسکتا؛ جب تک نئی نسل کو وقت کے ضیاع کی راہ سے ہٹایا نہ جائے۔ غیر متعلق امور سے توجہ ہٹنے ہی پر نئی نسل اپنے کام سے کام رکھ سکے گی۔ یہ تبدیلی راتوں رات نہیں آسکتی۔ والدین اور اساتذہ کو اس حوالے سے اپنا کردار پوری دلجمعی اور سنجیدگی سے ادا کرنا ہے۔ نئی نسل کو غیر متعلق اور لاحاصل معاملات کے سمندر میں ڈبکیاں لگانے سے روکنا قوم کے لیے بنیادی فریضے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس حوالے سے حکومت کو بھی اپنے حصے کا کام کرنا ہے۔ یہ احساس ختم ہونا چاہیے کہ نئی نسل کو بامقصد زندگی کی ڈگر سے ہٹاکر لاحاصل معمولات کی راہ پر ڈالا جارہا ہے۔
٭٭٭