علامہ اقبال کا شہرۂ آفاق شعر ہے:
جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
کون اس حقیقت سے انکار کرسکتا ہے کہ اہمیت مقدار کی نہیں معیار کی ہوتی ہے۔ علامہ نے بھی تو جمہوریت کی اسی خامی کی نشاندہی کی ہے۔ ہم زندگی بھر مقدار کو پوجتے رہتے ہیں اور معیار سے یکسر بے نیاز رہتے ہیں۔ زندہ رہنے کے لیے کھانا لازم ہے مگر صرف کھانا لازم نہیں، یہ بھی تو دیکھنا پڑتا ہے کہ کیا اور کتنا کھایا جارہا ہے۔ بے ڈھنگی اور غذائیت سے محروم خوراک لیتے رہنے سے ہمارا کیا بھلا ہونا ہے؟ یہی معاملہ جمہوریت کا بھی ہے۔ ہم اب تک بندوں کو گن رہے ہیں‘ تول نہیں رہے۔ ٹھیک ہے‘ جمہوریت میں دیکھا یہی جاتا ہے کہ کس نے کتنے ووٹ ڈالے مگر ووٹرز ہی کو تو طے کرنا ہے کہ کسے کتنے ووٹ ملنے چاہئیں۔ ان کے سوا کون طے کرسکتا ہے کہ ان کا حکمران کون ہو؟
ایک بار پھر ملک انتخابات کی دہلیز پر کھڑا ہے۔ پھر وہی دعوؤں اور وعدؤں کا بازار گرم ہے۔ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کا عمل جاری ہے۔ کسی پر تنقید کرتے کرتے ہم پہلے تنقیص کی منزل سے گزرتے ہیں اور پھر پتا نہیں کن کن منزلوں سے گزر جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ووٹرز کی نظر میں زیادہ سے زیادہ سرخرو ہونے کی دھن میں ایک بار پھر اہلِ سیاست تمام اخلاقی اقدار کو سات سلام کرچکے ہیں۔ دور چونکہ میڈیا کا ہے اس لیے لازم ہے کہ میڈیا کی بھرپور توجہ حاصل کی جائے۔ میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ ایسا کہتے رہنا لازم ہے کہ جو خبروں کی سرخیوں میں جچے۔ سرخیوں میں جگہ پانے کی دوڑ نے بہت کچھ پیچھے چھوڑنے پر مجبور کردیا ہے۔ گزشتہ روز سید خورشید شاہ نے ڈٹ کر میدان میں آنے والے اوربھرپور انداز سے تیاری کرنے والے مخالفین کے حوالے سے کہا کہ اس وقت سندھ میں سیاسی بلائیں گھوم رہی ہیں! اس طرح کے جملے میڈیا والے فوری اُچک لیتے ہیں اور دن بھر پیٹتے رہتے ہیں۔ ووٹرز کو مخالفین سے برگشتہ کرنے کے لیے تمام اخلاقی حدود و قیود کو خیرباد کہنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہ کرنے کا وقت آچکا ہے۔ اور یہی ہو رہا ہے۔ الزامات لگاتے وقت کچھ نہیں دیکھا اور کچھ نہیں سوچا جارہا۔ گڑے مردے اکھاڑنے سے بھی گریز نہیں کیا جارہا۔ جب طے کرلیا گیا ہے کہ کچھ دیکھنا ہے نہ سوچنا ہے تو پھر کیسی شرم، کیسی جھجھک؟
دکھ اس بات کا ہے کہ اس پورے جمہوری تماشے میں عوام محض تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے خاموش رہنے کی ایسی قسم کھائی ہے کہ اب کوئی ان سے کچھ بُلوا نہیں سکتا۔ کسی بھی تماشے میں تبدیلی اس وقت رونما ہوتی ہے جب تماشائی کوئی بڑی تبدیلی چاہتے ہیں۔ تماشا وہی چلتا ہے جو تماشائیوں کو پسند آئے۔ جمہوریت کے نام پر جو کچھ ہوتا آیا ہے اور ہو رہا ہے اُسے برداشت کرتے رہنے کی عوامی روش نے اس تماشے کے کلیدی کرداروں کو یہ طے کرنے کی راہ سُجھائی ہے کہ لوگ بے وقوف بننے کے لیے تیار ہیں لہٰذا انہیں بے وقوف بنائے جاؤ۔ عوام کا یہ حال ہے کہ ان میں تحریک ہے نہ تحرّک۔ چپ چاپ تماشا دیکھتے رہنے کی روش نے اُنہیں مِٹی کے مادھو اور کاٹھ کے اُلّو میں تبدیل کردیا ہے۔
ملک میں جمہوری تماشا عشروں سے چل رہا ہے۔ سیاست دان اپنی روش تبدیل کرتے رہے ہیں۔ یہ تبدیلی عوام کے لیے نہیں بلکہ اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہوا کرتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ مالی منفعت کا حصول یقینی بنانے کی کوشش کی جاتی رہی ہیں۔ یہ کوششیں بار آور اس لیے ثابت ہوتی رہی ہیں کہ ان کی راہ میں دیوار بننے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ عوام حساب طلب کرنے میں دلچسپی نہیں لیتے۔ احتجاج ریکارڈ کرانا اور مجاز اداروں کے ذریعے احتساب کی راہ ہموار کرنا ایک خاص حد تک ان کے بس میں ہے مگر یہ کردار ادا کرنے میں وہ دلچسپی ہی نہیں لیتے۔
عوام کیوں ہمت ہار بیٹھے ہیں؟ کیا انہیں جمہوریت پر ذرا بھی یقین نہیں؟ کیا جمہوریت ان کے مسائل حل نہیں کرسکتی؟ ان تمام سوالوں کے جواب تلاش کرنے کے لیے بہت سے عوامل پر غور کرنا ہوگا۔ سب سے پہلے تو یہ کہ ہر دور میں میڈیا اور دیگر ذرائع کا سہارا لے کر رائے عامہ کو متاثر اور مسخ کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ سیاست دانوں نے اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کی خاطر عوام کو مختلف مغالطوں میں الجھاکر رکھا ہے۔ کہیں زبان کی بنیاد پر اور کہیں نسل کی بنیاد پر عوام کے جذبات کو اپیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر یہ دونوں معاملات کام نہ آئیں تو برادری کا ٹنٹا کھڑا کیا جاتا ہے۔ نظریات، تصورات، آدرش ‘سبھی اس تماشے میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ عوام کو مختلف حوالوں سے دوسروں سے اس قدر خوفزدہ کیا جاتا ہے کہ وہ عمومی سطح پر زیادہ سوچنے کے قابل نہیں رہتے۔ اہلِ سیاست ایسا ماحول پیدا کر رکھتے ہیں کہ عوام کے لیے حقیقت پسندانہ انداز سے زیادہ سوچنے کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی۔ یہ سیاست دانوں کی کامیابی سے کہیں بڑھ کر عوام کی ناکامی ہے۔ اس کا فائدہ اٹھانے میں کوئی اسی وقت کامیاب ہوسکتا ہے جب وہ اسے ایسا کرنے دے رہے ہوں۔ ہمارے اپنے معاشرے میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ عوام جب کچھ کرنے پر آتے ہیں تو کرکے دم لیتے ہیں۔ سیاست کو بھی ایسے ہی عوامی جذبے اور دم خم کی ضرورت ہے۔
ہماری سیاست مختلف حوالوں سے بحرانوں کی دلدل میں دھنس کر رہ گئی ہے۔ بہت کچھ بگڑ چکا ہے مگر بہرحال اصلاح کی گنجائش تو ہمیشہ رہتی ہے۔ جمہوریت کے نام پر جتنی بھی خرابیوں کو راہ ملی ہے وہ سب جڑ سے ختم ہوسکتی ہیں۔ سوال صرف عوام کے بیدار ہونے کا ہے۔ وہ اگر پورے شعور اور احساسِ ذمہ داری کے ساتھ انتخابی عمل میں شریک ہوں‘ تمام امیدواروں کے کردار اور صلاحیتوں کا جائزہ لیں‘ ان کے ریکارڈ کو پرکھیں‘ اپنے مسائل کے حل کے حوالے سے ان کے ممکنہ کردار پر غور کریں تو بہت کچھ بدل سکتا ہے۔ کسی بھی نوع کے تعصب کی بنیاد پر ووٹ کاسٹ کرنا انتہائے حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ خیبر پختونخوا کے عوام نے ڈھائی عشروں کے دوران کم از کم اتنا تو ثابت کیا ہے کہ ووٹ آنکھیں بند کرکے کاسٹ نہیں کرنا چاہیے۔ انہوں نے پارٹیاں بدلی ہیں۔ دوسری طرف سندھ کے عوام اب تک ایک ہی‘ گھسی پٹی ڈگر پر گامزن ہیں۔ جو کچھ کرکے نہیں دکھاتے انہی کو پھر اپنے سروں پر مسلط ہونے دیا جاتا ہے۔ بندوں کو گِننے کی روش ترک کرکے تولنے‘ پرکھنے کا مرحلہ آچکا ہے۔ اگر عوام اب بھی نہ جاگے تو پھر کب جاگیں گے؟ مختلف نادیدہ قوتیں انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ معاملہ انتخابات کو ملتوی کرانے سے زیادہ معلّق پارلیمنٹ لانے کا ہے۔ اندرونی اور بیرونی ہر دو طرح کے حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ آئندہ حکومت لنگڑی‘ لولی نہ ہو بلکہ اتنی مضبوط ہو کہ اندرونی ملک عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر ڈٹ کر بات کرسکے۔ ووٹ کاسٹ کرتے وقت محض گنتی کا خیال رکھنا لازم نہیں‘ بندوں کو تولنا بھی ناگزیر ہے۔ اگر عوام اب بھی اس مرحلے سے نہ گزرے تو ایک بار پھر انتخابی عمل سعیٔ لاحاصل کے سوا کچھ بھی ثابت نہ ہوگا۔