"MIK" (space) message & send to 7575

اعداد و شمار کا گورکھ دھندا

ہم زندگی بھر معیار پر مقدار کو ترجیح دیتے رہتے ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ مقدار کی چمک دمک زیادہ ہوتی ہے۔ معیار کا معاملہ یہ ہے کہ یہ زیادہ گاتا بجاتا نہیں‘ چپ چاپ رہ کر کام کرتا رہتا ہے۔ لوگ مقدار پر جان دیتے ہیں اور معیار کو بھاری پتھر کی طرح چوم کر چھوڑ دیتے ہیں۔ ہر شعبے میں لوگ کامیابی کا اندازہ مقدار سے لگاتے ہیں۔ معیار کو بھول کر نہیں پوچھا جاتا‘ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ فرق اگر مرتب ہوتا ہے تو معیار سے۔ یہ معیار ہی تو ہے جس کے دم سے زندگی کے میلے کی ساری حقیقی رونق ہے۔ سچ یہ ہے کہ انسان مقدار کو گلے لگانے کے بعد‘ معیار کو بھولنے کی صورت میں صرف خرابیوں کا گراف بلند کرتا ہے۔ لوگ جب 'کتنا‘ پر متوجہ ہوتے ہیں تو 'کیسا‘ دھندلا سا جاتا ہے۔ لوگ وقتی طور پر مقدار کی بھول بھلیوں میں گم ہوکر معیار کی بلندی کو نظر انداز کردیتے ہیں اور پستی کو چومنے چاٹنے میں لگے رہتے ہیں۔ 
شوبز میں بھی اعداد و شمار‘ یعنی مقدار کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ اگر کسی نے ڈھائی تین سو فلموں میں کام کیا ہو تو اسے بہت بڑا اداکار تسلیم کیا جاتا ہے‘ اس حقیقت پر کوئی بھی غور نہیں کرتا کہ کامیابی اور معیار کا تعلق 'کتنا‘ سے نہیں بلکہ 'کیسا‘ سے ہے۔ بہت سے اداکار زندگی بھر کام کرتے رہتے ہیں مگر ان کے کام کا معیار اتنا بلند نہیں ہوتا کہ لوگ مدتوں یاد رکھیں‘ دوسری طرف چند اداکار گنتی کی چند فلموں میں کام کرتے ہیں مگر وہ کام ایسا معیاری اور 'ٹرینڈی‘ہوتا ہے کہ لوگ اَش اَش کر اٹھتے ہیں اور مدتوں یاد رکھتے ہیں۔ سلطان راہی مرحوم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے کم و بیش 900 فلموں میں کام کیا ہے۔ اتنا زیادہ کام کرنا ان کے نام کو گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں شامل کرنے کا ذریعہ تو ضرور بن سکتا ہے‘ مگر فن کی دنیا میں کوئی بلند مقام عطا نہیں کرسکتا۔ دوسری طرف اسلم پرویز‘ علاء الدین اور چند دوسرے اداکاروں نے سلطان راہی کے مقابلے میں کہیں کم کام کیا ‘مگر فن کی دنیا میں زیادہ نام کرگئے۔ محمد علی اس اعتبار سے اہم ہیں کہ انہوں نے زیادہ اور اچھا کام کیا۔ ان کی چھاپ اب تک باقی ہے۔ فلم کے کلائمیکس میں جذبات سے لبریز ہوکر وہ جس طرح سے ڈراما بولتے تھے اس طرح تو کوئی بھی بول نہیں پایا۔ نقل کرنے والے بہت پیچھے رہ گئے۔ 
اعداد و شمار کا گورکھ دھندا ہمیں یوں یاد آیا کہ شوبز میں بڑبولا پن بہت چلتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ کچھ زیادہ ہے۔ بالی وڈ میں بھی لوگ اپنے بارے میں بڑھ چڑھ کر بولنے سے باز نہیں رہتے۔ محمد رفیع مرحوم کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ انتہائی مرنجاں مرنج انسان تھے۔ ان سے کبھی کسی کو کوئی تکلیف نہیں پہنچی۔ آج بھی بالی وڈ میں کوئی ایک فرد ایسا نہیں جو ان کے خلاف ایک لفظ بھی بول سکے۔ گزشتہ دنوں کرن جوہر کی فلم 'اے دل ہے مشکل‘ میں انوشکا شرما کی زبان سے نکلنے والے جملے 'محمد رفیع گاتے نہیں‘روتے تھے‘ نے ملک بھر میں ہنگامہ کھڑا کردیا ہے۔ ہر نسل‘ ثقافت اور مذہب کے لوگوں نے کرن جوہر اور انوشکا شرما سے مطالبہ کیا کہ محمد رفیع مرحوم کے اہل خانہ سے معافی مانگی جائے اور جملہ فلم سے سنسرکیا جائے۔ 
محمد رفیع جیسے شریف النفس انسان کو بھی گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز والوں نے ایک تنازع میں گھسیٹ لیا تھا‘ جب اس کتاب میں لتا منگیشکر کا نام دنیا میں سب سے زیادہ میوزیکل آئٹمز (25 ہزار) ریکارڈ کرانے والی فنکارہ کے طور پر درج ہوا تو محمد رفیع نے 11 جون 1977 ء کو ادارے کے نام خط لکھا جس میں کہا گیا کہ لتا منگیشکر کو غلط اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ محمد رفیع کے پرستاروں کا کہنا تھا کہ محمد رفیع کے گائے ہوئے گانوں کی تعداد 26 ہزار تک ہے اس لیے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز والوں کو محمد رفیع کو یہ اعزاز دینا چاہیے تھا۔ محمد رفیع مرحوم نے نومبر 1977ء میں بی بی سی سے انٹرویو میں کہا کہ ان کے گائے ہوئے گانوں کی تعداد 26 ہزار تک ہے۔ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز والوں کی طرف سے محمد رفیع کو خط کا جواب 20 نومبر 1979 ء کو لکھے گئے خط کے ذریعے دیا گیا۔ 
گنیز بک والوں نے 1984 ء میں لتا منگیشکر کو سب سے زیادہ گانے ریکارڈ کرانے والی فنکارہ کے طور پر انٹری دی اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ محمد رفیع مرحوم کے ریکارڈ کرائے ہوئے گانوں کی تعداد 28 ہزار ہے۔ گنیز بک نے 1991 ء میں یو ٹرن لیتے ہوئے لتا منگیشکر اور محمد رفیع مرحوم کی انٹریز حذف کردیں اور سب سے زیادہ گانوں کا ریکارڈ آشا بھونسلے کے کھاتے میں ڈال دیا۔ منورما آن لائن نے 2015ء میں لکھا کہ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ محمد رفیع مرحوم کے گائے ہوئے گانوں کی تعداد 7405 ہے۔ 2015ء میں محمد رفیع مرحوم کے بیٹے شاہد اور صحافی سجاتا دیو نے مل کر 'محمد رفیع : دی گولڈن وائس آف سلور اسکرین‘کے زیر عنوان کتاب لکھی جس میں بتایا گیا کہ 1945 ء سے 1980ء کے دوران ہندی فلموں کے لیے محمد رفیع کے گائے ہوئے گانوں کی تعداد 4425 ہے‘ دیگر زبانوں کی فلموں کے لیے گائے ہوئے اُن کے گانے 310 ہیں اور 328 غیر فلمی گیت ہیں۔ یعنی محمد رفیع مرحوم کے اپنے بیٹے کی گواہی کے مطابق انہوں نے مجموعی طور پر 5063 گانے گائے۔ 
کہاں 28 ہزار اور کہاں 5063! تفاوت ہو تو ایسی ہو! جب محمد رفیع کے حوالے سے اعداد و شمار غلط ثابت ہوگئے تو پھر لتا جی کہاں کھڑی ہوں گی؟ سیدھی سی بات ہے‘ ان کے معاملے میں بھی بہت زیادہ مبالغے سے کام لیا گیا تھا۔ ایک زمانے میں محمد رفیع فلموں کے مقبول ترین گلوکار تھے یعنی پوری پوری فلم کے گانے وہ گایا کرتے تھے۔ جب ہندی فلموں میں ان کے گائے ہوئے گانے ساڑھے چار ہزار ہیں تو مکیش کمار ماتھر‘ کشور کمار گانگولی اور منّا ڈے کہاں کھڑے ہوں گے؟ طلعت محمود‘ مہیندر کپور‘ شیلیندر سندھ‘ محمد عزیز‘ شبیر کمار‘ انور‘ کمار سانو‘ اُدت نارائن‘ یسو داس‘ سونو نگم اور دیگر گلوکار کس قطار شمار میں ہیں؟ 
بات یہ ہے کہ بہت سے لوگ محض مزاج کی سادگی کے ہاتھوں یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ انہوں نے بہت کام کرلیا ہے۔ شہنشاہِ غزل مہدی حسن مرحوم نے کئی بار سٹیج پر کہا کہ وہ 54 ہزار آئٹمز گاچکے ہیں! حقیقت یہ ہے کہ فلموں میں ان کے گانے 650 تک ہیں۔ اگر منسوخ گانے بھی شامل کرلیں تو یہ تعداد زیادہ سے زیادہ 700 تک جاتی ہے۔ ریڈیو اور ٹی وی پر ان کی گائی ہوئی غزلوں اور گیتوں کو گنیے تو زیادہ سے زیادہ 500 ہیں۔ پرائیویٹ البمز کی گنتی کیجیے تو مزید ڈھائی تین سو آئٹمز بنتے ہیں۔ یعنی تھوڑا مبالغہ بھی کیجیے تو حقیقت یہ ہے کہ مہدی حسن مرحوم کے گائے ہوئے آئٹمز ڈیڑھ ہزار سے زائد نہیں۔ سوال مقدار کا نہیں معیار کا ہے۔ مہدی حسن کے گائے ہوئے کئی آئٹمز دوسروں کے گائے ہوئے سو سو آئٹمز پر بھاری ہیں۔ ایک ٹی وی پروگرام میں انور مقصود نے مجیب عالم مرحوم سے پوچھا کہ آپ نے فلم انڈسٹری کیوں چھوڑی تو انہوں نے بڑی سادگی سے جواب دیا 'پندرہ سال فلموں میں گزارے۔ تین چار ہزار گانے گائے اور پھر میں باہر آگیا‘۔ تین چار ہزار! حقیقت یہ ہے کہ فلموں میں مجیب عالم کے گائے ہوئے گانوں کی تعداد سوا سو سے زیادہ نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے گائے ہوئے بیشتر فلمی گانے انتہائی مقبول ہوئے اور ان کا نام بن گیا۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ مقدار کا معیار سے کوئی تعلق نہیں۔ کوئی ہزار گانے گائے مگر کام کا ایک بھی نہ ہو تو اتنا کام کرنے کا فائدہ؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں