قوم ایک بار پھر انتخابات کے جاں گُسل مرحلے سے گزر گئی۔ سانحۂ کوئٹہ کے سوا ملک بھر میں خوں ریزی کا کوئی بڑا واقعہ رونما نہ ہوا‘ مجموعی طور پر خاصے پرامن ماحول میں ووٹ کاسٹ کیے گئے۔ قوم نے اپنے نئے حکمران منتخب کرنے کے حوالے سے غیر معمولی جوش و خروش کا مظاہرہ کیا۔ یہ سب کچھ اب تک انتہائی خوش آئند دکھائی دے رہا ہے۔ اور دعا ہے کہ یہی ماحول بنا رہے۔
تحریکِ انصاف کا قومی اسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرنا بہت سوں کے لیے انتہائی مسرّت اور دوسرے بہت سوں کے لیے انتہائی حیرت کا باعث ثابت ہو رہا ہے۔ مسرّت کا موقع ضرور ہے مگر حیرت کی زیادہ گنجائش نہیں۔ بات سیدھی سی ہے‘ ملک بھر میں ایسے اہلِ سیاست کی کمی نہ تھی جو عشروں سے ڈلیور کرنے میں ناکام رہے تھے۔ ان کی ناکامی تحریکِ انصاف کے لیے کامیابی کا زینہ بن گئی۔ اس زینے پر چڑھ کر یہ جماعت اب ایوانِ اقتدار تک پہنچ گئی ہے۔ نئی نسل پر بالخصوص متوجہ رہنے والی جماعت کی حیثیت سے تحریکِ انصاف کی کامیابی کچھ زیادہ حیرت انگیز نہیں۔
خیبر پختونخوا میں تحریکِ انصاف نے پانچ برس کے دوران تھوڑے بہت کام ضرور کیے۔ چند ایک شعبوں کو درست کرنے میں قابلِ ذکر اور قابلِ رشک حد تک کامیابی حاصل کی اور پھر اس کا ثمر بھی پالیا۔ خیبر پختونخوا کے عوام کسی کو دوبارہ آزمانے کے معاملے میں 'کنجوس‘ واقع ہوئے ہیں‘ مگر انہوں نے تحریکِ انصاف کو ایک بار پھر مینڈیٹ دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ نہ کچھ ڈلیور ضرور کیا گیا تھا۔ کراچی کا معاملہ سب کے سامنے ہے۔ تین عشروں سے جنہیں مینڈیٹ دیا جارہا تھا وہ کچھ بھی کرنے میں مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہوئے تھے۔ یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ یہ الیکشن میں کھڑے ہوتے رہیں گے اور لوگ ووٹ دیتے رہیں گے۔ عوام میں بہت سے حوالوں سے جانب داری کا رجحان پایا جاتا ہے‘ مگر یہی عوام حقیقت کا شعور بھی تو رکھتے ہیں۔ خاموش اکثریت بہت کچھ دیکھتی رہتی ہے‘ مگر پانی سر سے گزرتا ہے تو یہی خاموش اکثریت بہت سے برج الٹ بھی دیتی ہے۔ کراچی میں یہی ہوا۔ ایم کیو ایم تین عشروں کے دوران صرف مینڈیٹ پاتی رہی‘ کام کے معاملے میں اُس نے عضوِ معطّل کا کردار ادا کرتے رہنے کو ترجیح دی۔ سوچ لیا گیا کہ جب جب عوام کو آواز دی جائے گی وہ حمایت ہی سے نوازیں گے۔ دس بارہ برس کے دوران عوام کے مزاج میں بہت کچھ بدل چکا تھا مگر اِسے بھانپنے کی کوشش تو درکنار‘ اِس حوالے سے سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہ کی گئی۔ ایم کیو ایم کو آخری موقع بلدیاتی الیکشن کی شکل میں ملا۔ دو سال قبل کراچی کی حکمرانی ایم کیو ایم کے ہاتھ میں آئی۔ معاملات درست کرنے اور عوام کی خدمت پر مائل ہونے کا یہ آخری سنہرا موقع تھا جو ایم کیو ایم نے ضائع کردیا۔ چند ایک مسائل تو سامنے کے تھے۔ شہر بھر میں کچرا بکھرا پڑا تھا۔ پانی کی فراہمی اور نکاس کا معاملہ بھی سر پر تلوار کی صورت لٹک رہا تھا۔ ایم کیو ایم کی قیادت دانش مندی سے کام لیتی تو شہر کو صاف کرنے اور پانی سمیت چند بنیادی سہولتوں کی فراہمی پر متوجہ ہوتی اور عوام کے دل جیتنے میں کامیاب ہو پاتی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ تحریکِ انصاف جیسے مضبوط حریف کو دیکھ کر بھی ایم کیو ایم کی قیادت نے کوئی سبق سیکھنا لازم نہ سمجھا! ذہنوں میں یہ کِلّا گڑا ہوا تھا کہ جب بھی ہانکا لگایا جائے گا‘ لوگ گھروں سے نکلیں گے اور بھرپور مینڈیٹ سے نواز دیں گے۔
پاک سرزمین پارٹی کی شکست پر حیرت ہونی چاہیے نہ تاسّف۔ تحریکِ انصاف نے بھی جب پہلی بار الیکشن لڑا تھا تو کچھ کچھ ایسا ہی انجام ہوا تھا۔ بہت کم وقت میں کمتر تیاری کے ساتھ الیکشن لڑنا ایسے ہی نتائج پیدا کیا کرتا ہے۔ بہرحال‘ پی ایس پی کے لیے سیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ حالیہ شکست کو بھول کر اُسے اگلے الیکشن کی بھرپور تیاری کرنی چاہیے تاکہ عوام کے پاس جانے کے مرحلے میں کہنے اور بتانے کے لیے کچھ ہو۔ یہی کچھ ایم کیو ایم کو بھی کرنا ہے۔ اس کا روایتی مینڈیٹ خاصے غیر روایتی طریقے سے ختم ہوا ہے۔ یہ سب کچھ محض تماشا نہیں‘ سیکھنے کا لمحہ ہے۔
25 جولائی کو جو کچھ کراچی میں ہوا وہی کچھ ملک کے دوسرے بہت سے شہری اور دیہی علاقوں میں بھی ہوا۔ پنجاب میں بہت سے مضبوط برج الٹ گئے۔ عوام کے جذبات کا سیلاب آیا تو سیاست کے کئی نو گزے پیروں کو بہا لے گیا۔ محض وعدوں اور دعووں سے کیا ہوتا ہے؟ بڑی بڑی باتوں سے کسی کا پیٹ بھرتا نہیں۔ لوگ اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ وہ کب تک محض وعدوں اور دعووں کی مِٹّی پھانکتے رہیں گے؟
ایسا نہیں ہے کہ عمران خان کے لیے سب کچھ پکی پکائی تازہ روٹی جیسا ہوگا۔ انہوں نے سسٹم کو درست کرنے کی بات تواتر سے کہی ہے۔ سسٹم کو درست یا تبدیل کرنا بچوں کا کھیل نہیں۔ کوئی ایسا منتر نہیں پایا جاتا جو پھونکیے اور سب کچھ درست ہونے لگے۔ کہنے سے کرنے تک کا فاصلہ طے کرنا اچھوں اچھوں کو ہانپنے‘ کانپنے پر مجبور کردیتا ہے۔ عمران خان چونکہ کھلاڑی رہے ہیں اس لیے ان میں غیر معمولی جوش و جذبے کا پایا جانا حیرت انگیز نہیں۔ مگر خیر‘ اس مرحلے پر ان سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کرنا ان سے اور اپنے آپ سے زیادتی کے مترادف ہوگا۔ جو معاملات نصف صدی کے دوران محض بگڑے نہیں ہیں بلکہ بگاڑے گئے ہیں انہیں درست کرنے کے لیے آہنی عزم اور مستقل مزاجی درکار ہے۔ عمران خان نے متعدد معاملات میں غیر معمولی جذباتیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ چار سال قبل ن لیگ کی حکومت کے خلاف مشہورِ زمانہ دھرنے کے دوران ان کا طرزِ عمل کسی بھی اعتبار سے قابلِ ستائش نہ تھا۔ اس دھرنے ہی سے نہیں بلکہ اِس کے بعد بھی متعدد معاملات سے ان کے 'زیرِ سرپرستی‘ ہونے کا تاثر ابھرا۔ اب انہیں اپنے سر پر 'دستِ شفقت‘ہونے کا تاثر زائل کرنے کے لیے غیر معمولی سنجیدگی اختیار کرنا ہوگی۔ جذبات سے لبریز نعروں اور دعووں کی سطح سے بہت بلند ہوکر بہت کچھ کرنا ہوگا۔
چڑھتے سورج کو سلام کرنے کی روایت ایک بار پھر جاگ اٹھی ہے۔ بعض چینلز پر اینکرز نے یہ تک کہا کہ ملک کو پہلی بار متوازن جسم والا‘ چاق و چوبند قسم کا وزیر اعظم ملا ہے! اس نوع کی سطحی باتیں کرکے معاملات کو خواہ مخواہ کچھ کا کچھ نہ بنایا جائے۔ قوم کو عمران خان کی جسمانی فٹنس سے کہیں زیادہ ذہنی فٹنس درکار ہے۔ ان کی جماعت نے ملک بھر میں نئی نسل کو قابلِ رشک حد تک متحرک کیا ہے۔ یہ پارٹی کے لیے بہت بڑا پلس پوائنٹ ہے مگر بے عملی کی ڈگر پر گامزن رہنے کی صورت میں یہی پلس پوائنٹ انتہائی مائنس پوائنٹ بن کر گلے کا پھندا بھی بن سکتا ہے۔ عمران خان کے لیے سب سے ضروری چیز یہ ہے کہ وہ کھیل کے میدان والی ذہنیت کے دائرے سے نکلیں۔ بات بات پر اِن کٹر‘
اِن سوئنگ‘ باؤنسر‘ وکٹ‘ گِلّی اور چوکوں‘ چَھکّوں کی بات نہ کریں۔ کھیل کے میدان اور اقتدار کی غلام گردشوں میں بہت فرق ہوتا ہے۔ جذباتیت سے لبریز ذہنیت کو ترک کرکے حقیقت پسندی پر مبنی اپروچ اپنائے بغیر تحریکِ انصاف کے سربراہ کچھ بھی نہ کر پائیں گے۔ کھیل کے میدان کی فتوحات اور سیاست و اقتدار کے میدان کی فتوحات میں کئی اعتبار سے جوہری فرق پایا جاتا ہے۔ اور یہ فرق جس قدر ذہن نشین رکھا جائے عمران خان کے لیے اتنا ہی اچھا ہوگا۔ قوم نے مینڈیٹ دے کر ان پر مہربانی نہیں کی بلکہ آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ اور اس آزمائش میں پورا اترنے کے لیے انہیں بے مثال دانش اور برد باری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔