زبان کے پھسل پڑنے کا فسانہ بھی خوب ہے۔ دنیا بھر میں بڑی شخصیات کی زبان پھسلتی ہے‘ تو خبر بن جاتی ہے۔ کبھی خوشی کے مارے اور کبھی گھبراہٹ کے عالم میں لوگ کچھ کا کچھ بول جاتے ہیں‘ اور جب تک اُنہیں اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے‘ تب تک ایک زمانے کو ''بھنڈ‘‘ کا علم ہوچکا ہوتا ہے‘ جس طور کمان سے نکلا ہوا تیر واپس نہیں آتا‘ بالکل اُسی طور زبان سے نکلا ہوا لفظ بھی واپس نہیں آتا‘ بلکہ وائرل ہوکر متعلقہ شخصیت کی ''واٹ‘‘ لگانے لگتا ہے۔
زبان کے پھسلنے کے معاملات ہمارے ہاں بھی بہت ہوئے ہیں۔ زبان پھسلنے کے واقعات تو خیر خبر بنتے ہی ہیں ‘مگر کبھی کبھی تو لکنت پیدا ہو جانے سے بھی خبر بنتی ہے اور خوب بنتی ہے۔ گزشتہ دنوں وزیر اعظم عمران خان کی حلف برداری کے موقع پر لکنت یا اٹکاؤ کا نمونہ دیکھنے کو ملا تھا۔
زبان کے پھسلنے کے متعدد واقعات کی بدولت شاہ سائیں‘ یعنی سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کو ایسی شہرت ملی کہ وہ نہال ہوگئے۔ ایک بار تو انہوں نے اپنے (پارٹی) قائد آصف علی زرداری کو بھی شہداء کی فہرست میں رکھ دیا تھا! ایک بار کراچی میں بارش ہوئی ‘تو انہوں نے بارش کے پانی میں شرابور ہوئے بغیر انتہائی بھیگے ہوئے لہجے میں ''انکشاف‘‘ کیا کہ 40 میٹر بارش ہوئی ہے! بعض احباب کا خیال تھا کہ شاہ سائیں شاید اُس بارش کی شدت بیان کرنا چاہتے تھے‘ جس کے باعث نوح علیہ السلام کے زمانے میں طوفان آیا تھا اور پوری سطح زمین پانی سے ڈھک گئی تھی!
ایک بار یوں بھی ہوا کہ میڈیا سے گفتگو کے دوران سابق صدرِ مملکت آصف زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور کی زبان پھسلی ‘تو اُن کے حقیقی بھتیجے بلاول بھٹو زرداری بُری طرح ''لپیٹے‘‘ میں آگئے اور اس موقع پر موجود سیدہ شہلا رضا کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں!
ہمیں یاد پڑتا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں کورنگی (کراچی) میں بلدیاتی سطح کے ایک ''رہنما‘‘ نے انتخابی کارنر میٹنگ کے دوران خطاب میں تمام حاضرین کو یقین دلایا کہ منتخب ہونے پر وہ علاقے میں ایک نہیں‘ دو میٹرنٹی ہوم بنوائیں گے۔ ایک خواتین کے لیے اور دوسرا ...!
جنوری 2013ء کے پہلے ہفتے کی بات ہے۔ اس وقت کے پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے (حاضرین کی طرف دیکھ کر) کہا ''اگر میں اپنے کہے پر عمل کرانے میں ناکام رہوں ‘تو پھر میرا ہاتھ ہوگا اور آپ کے گریبان!‘‘ اور یہ سن کر حاضرین حیران رہ گئے۔ حیران ہونے کی ضرورت نہ تھی۔ اس نوع کا انتباہ سیاست دانوں کے منہ سے جب بھی نکلے گا‘ گریبان عوام ہی کے رہیں گے۔
معاملہ انفرادی ہو یا اجتماعی‘ عام سا ہو یا سیاسی‘ جب کوئی بڑھک مارنے پر آتا ہے‘ تو کچھ نہیں دیکھتا کہ اُس کے منہ سے کیا‘ بلکہ کیا کیا نکل رہا ہے اور یہ کہ معاملہ جب بڑی بڑی پھینکنے اور ہانکنے کا ہو تو پھر کوئی حد مقرر نہیں ہوتی۔ یہی سبب ہے کہ فی زمانہ جب کوئی بھرپور جوشِ خطابت کے عالم میں بڑھک آمیز دعوے کرنے پر تُلتا ہے‘ تو سلطان راہی‘ ساون‘ مظہر شاہ اور اقبال حسن کو بھی پیچھے چھوڑ دیتا ہے!
بڑھک مارنے کا سلسلہ عوام کی خدمت کے دعوے سے شروع ہوتا ہے۔ سیاست کے میدان میں قدم رکھنے والے اللہ کے بندے جب عوام کی خدمت کے حوالے سے بلند بانگ دعوے کرنے بیٹھتے ہیں‘ تو پھر کسی حد کو ذہن میں نہیں رکھتے۔ دعووں‘ وعدوں اور یقین دہانیوں کے دریا میں ڈبکی لگانے والوں کو یاد ہی نہیں رہتا کہ خود کو دھارے کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے بعد کہاں تک جانا ہے۔
زبان پھسلنے کے واقعات کہیں بھی رونما ہوسکتے ہیں۔ پاکستان میں یہ ''تابندہ روایت‘‘ الیکٹرانک میڈیا کے تیز رفتار فروغ سے مزید توانا ہوئی ہے۔ خیر‘ بھارت میں بھی لوگ پیچھے نہیں رہے اور جوشِ خطابت میں انٹ شنٹ بولنے کے حوالے سے اپنی مثال آپ قسم کے واقعات کی بنیاد ڈال دیتے ہیں۔ ایک تو ہوتا ہے‘ بھرپور جوش اور ولولہ‘ اور اگر اس میں نشے کی حالت کو بھی جوڑ لیجیے‘ تو سمجھیے معاملہ دو آتشہ ہونے میں ذرا دیر نہیں لگاتا۔ جب کوئی سیاست دان پوری طرح ''ٹُن‘‘ ہونے کے بعد خطابت کے حوالے سے اپنی مہارت کا مظاہرہ کرنے پر کمر بستہ ہوتا ہے‘ تو لوگوں کے پیسے وصول ہو جاتے ہیں۔ اس معاملے میں لالو پرساد یادو کا ثانی ڈھونڈ نکالنا آسان نہیں۔ اُن کے فن کا درجۂ کمال یہ ہے کہ ٹُن ہوئے بغیر بھی کچھ کا کچھ کہہ جاتے ہیں اور زبان کے پھسلے بغیر بھی اُن کے منہ سے الفاظ کچھ اس طرح پھسل پڑتے ہیں کہ سُننے والوں پر قیامت ڈھا جاتے ہیں!
ممبئی کے علاقے گھاٹکوپر سے منتخب ہونے والے مہا راشٹر اسمبلی کے رکن رام کدم نے تو کمال ہی کر دکھایا۔ رام کدم کی زبان ایسی پھسلی ہے کہ منتخب نمائندوں کے لیے عوام کا سامنا کرنا‘ اُنہیں منہ دکھانا دشوار ہوگیا ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں رام کدم نے کچھ ایسا کہا ہے کہ دنیا دنگ رہ گئی ہے۔
بھارت کے دوسرے حصوں کی طرح ممبئی میں بھی گزشتہ دنوں دہی ہانڈی تہوار منایا گیا۔ اس تہوار کی ایک تقریب میں بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والا ایم ایل اے رام کدم کچھ زیادہ ہی دہی چاٹ گیا۔ اور معاملہ دہی چاٹنے تک محدود نہ رہا۔ اُس نے بھرپور رنگِ محفل کی مناسبت سے جی بھرکے پی۔ دہی سے مل کر شراب نے کچھ الگ ہی رنگ جمادیا۔ رام کدم بھرپور ٹُن ہوکر آپے سے ایسا باہر ہوا کہ تقریب کے شرکاء (اپنے) دل تھام کر (اپنے ہی) سَر پیٹنے لگے۔ بات کچھ یہ ہوئی کہ تقریب ابھی جوبن پر تھی‘ رنگِ محفل سب پر چڑھنا شروع ہی ہوا تھا کہ چڑھی ہوئی ہونے کے باعث رام کدم پر رنگِ محفل کچھ زیادہ ہی چڑھ گیا۔ اُس نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا ''میں آپ کا خادم ہوں۔ جو آپ چاہیں گے‘ وہ ہوگا۔ آپ کی خدمت کے لیے میں کس بھی حد تک جاسکتا ہوں۔ میں آپ کے لیے کسی بھی چیز کا بندوبست کرسکتا ہوں؛حتیٰ کہ عورت کا بھی۔‘‘
سوشل میڈیا میں وائرل ہونے والی ویڈیو میں رام کدم نے اتنا کہنے کے بعد تھوڑا سانس لیا (کیونکہ حاضرین میں بھنبھناہٹ شروع ہوگئی تھی) اور پھر بولا ''اگر میرے حلقے کے کسی نوجوان کو کوئی لڑکی پسند ہے‘ تو مجھے بتائے۔ میں لڑکی والوں سے بات کروں گا۔ اگر وہ شادی کے لیے راضی ہوئے‘ تو ٹھیک ورنہ پھر لڑکی کو اغواء کرکے نوجوان کے قدموں میں ڈال دوں گا ‘تاکہ اپنی مرضی کی جیون ساتھی کے ساتھ گھر بسائے۔‘‘
نشے میں دُھت رام کدم نے محض اتنا کہنے پر اکتفا نہیں کیا ‘بلکہ حاضرین کو اپنا خصوصی سیل فون نمبر بھی نوٹ کرایا‘ تاکہ کسی لڑکی پر دل آ جانے کی صورت میں کوئی بھی نوجوان کسی بھی وقت‘ بلا جھجک اور بلا تکلّف‘ رابطہ کرسکے!
دیکھا آپ نے؟ بھارتی معاشرے میں اس طرح بھی ہوتی ہے‘ عوام کی خدمت! ''عوام کے خادم‘‘ جب خدمت کے نام پر سخاوت کا دریا بہانے پر آتے ہیں ‘تو اِدھر اُدھر نہیں دیکھتے‘ بلکہ خود بھی بہتے جاتے ہیں اور دوسروں کو بھی ساتھ ساتھ لے بہتے ہیں۔ اور پھر یہ دریائے سخاوت ''بحرِ ناپیدا کنار‘‘ ہونے میں دیر نہیں لگاتا۔