پاک چین دوستی کوئی نئی بات نہیں۔ کئی عشروں کے دوران ایک دوسرے پر اعتماد رکھنے سے یہ دوستی پروان چڑھی ہے۔ بہت سوں کو لفظ ''دوستی‘‘ پر کچھ تحفظات سے ہیں۔ ہوبھی سکتے ہیں۔ سفارت کاری کے میدان میں دوستی اور دشمنی کوئی چیز نہیں ہوا کرتی۔ دو ریاستوں کے درمیان جو بھی تعلق ہوتا ہے ‘وہ صرف مفادات کے تابع ہوتا ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان بھی ایسا ہی معاملہ ہے‘ تو اس میں بھی حیرت کیسی اور برُا کیا ہے۔
ہم نے اسٹریٹجک معاملات کے نام پر اب تک امریکا اور یورپ کی محض غلامی اختیار کی ہے۔ یورپ سے معاملات قدرے بہتر رہے ہیں ‘مگر امریکا نے تو ہمیشہ دھوکا دیا ہے۔ اب بھی معاملہ اس سے کچھ مختلف نہیں۔ ایک امریکا کو خوش رکھنے کے فراق میں ہم نے کتنے ہی ملکوں کو ناراض کیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جس کے لیے یہ سب کچھ کیا‘ وہ بھی اب تک ناراض ہے اور من کر نہیں دے رہا۔ امریکا نے اب تک منہ پُھلا رکھا ہے؎
لو‘ وہ بھی کہہ رہے ہیں یہ بے ننگ و نام ہے
یہ جانتا اگر تو لٹاتا نہ گھر کو میں
سابق سوویت یونین سے سرد جنگ کے دوران ایک محاذ ہم سے بھی کُھلوایا گیا۔ ایک زمانے سے افغانستان میں ''سفارتی گہرائی‘‘ کا غلغلہ ہے۔ پاکستان کے لیے افغانستان سے بہتر تعلقات استوار رکھنا لازم ہے۔ دونوں محض ہمسائے نہیں‘ بلکہ مذہبی‘ نسلی اور ثقافتی بندھن میں بھی بندھے ہوئے ہیں۔ افغانستان میں حکومت سازی کے عمل کو سبوتاژ کیا جاتا رہا ہے۔ عوام جو کچھ چاہتے ہیں اُسے کبھی اہمیت نہیں دی گئی۔
بین الریاستی تعلقات کی دنیا میں ہر طرف چیلنجز پائے جاتے ہیں۔ ہر معاملہ توجہ چاہتا ہے۔ خطے کی بات ہو یا عالمی سطح پر کچھ کر دکھانے کی‘ ہر ملک کو اپنے لیے کسی بھی طرح کی گنجائش پیدا کرنے کی خاطر متعدد چیلنجز سے نمٹنا پڑتا ہے۔ متعدد معاملات میں قربانی دی جاتی ہے۔ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ جب قیام کا وقت آتا تو سجدے میں گر جاتے ہیں! بارہا ایسا ہوا ہے کہ ہمیں بھرپور موقع ملنے پر جو کچھ کرنا چاہیے تھا‘ اُس کے برعکس کیا اور بعد میں پچھتائے بھی۔
اب پھر وہی مرحلہ درپیش ہے۔ چین نے ایشیا کو عالمی سیاست و معیشت کا مرکز و محور بنانے کی بھرپور تیاری شروع کردی ہے۔ روس‘ ترکی اور پاکستان کو ملاکر ایک بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔ دوسری طرف بھارت اور اس کی ہم خیال قوتیں بنگلہ دیش‘ بھوٹان اور سری لنکا کو دھمکا رہی ہیں۔ بنگلہ دیش چونکہ ایک طویل مدت سے بھارت کا حاشیہ بردار رہا ہے‘ اس لیے نئی دہلی نہیں چاہتا کہ بیجنگ اور ڈھاکہ میں دوستی بنی رہے۔ چین چاہتا ہے کہ بنگلہ دیش کا بنیادی ڈھانچا اپ گریڈ کرے اور اس کے لیے سرمایہ کاری کرنے پر آمادہ ہے‘ مگر یہ سب کچھ دیکھ کر بھارت پریشان ہو اٹھا ہے اور چاہتا ہے کہ بنگلہ دیش کو قابو میں رکھے۔ سری لنکا‘ بھوٹان اور نیپال کو بھی ڈرایا جارہا ہے کہ چین سرمایہ کاری کے نام پر قرضوں کا جال پھیلا رہا ہے۔
بھارت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ چینی قیادت کی جانب سے عالمی سیاست و معیشت میں حصہ بڑھانے پر اُسے اپنی وقعت میں کمی واقع ہوتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔ بھارت کل ملاکر اپنی قوت میں تو زیادہ اضافہ کر نہیں سکتا‘ اس لیے لازم ہے کہ چین کو مزید طاقت حاصل کرنے سے روکا جائے۔
پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) پر اعتراضات کی بھرمار ہے۔ چینی قیادت پر پس ماندہ اقوام کے استحصال کا الزام عائد کیا جارہا ہے۔ ایسے میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا امریکا اور یورپ نے کم و بیش ڈیڑھ صدی تک پس ماندہ اقوام کا شدید استحصال نہیں کیا؟ کیا امریکا نے پس ماندہ اقوام کے لیے ترقی کا کوئی ایسا ماڈل پیش کیا ‘جو قرضوں سے ہٹ کر ہو؟ کیا آج بھی ایشیا‘ افریقا اور لاطینی امریکا کے بیشتر ممالک قرضوں کی دلدل میں دھنسے ہوئے نہیں ہیں؟
ترقی ممکن اور یقینی بنانے کے لیے آج کی دنیا میں بھی قرضوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ فی زمانہ یہی ایک معیاری طریق کار ہے۔ یہ الگ بات کہ زیادہ قرضے لینے سے معاملات بگڑ جاتے ہیں۔ مگر خیر ع
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں!
چین آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا اور مالیاتی اعتبار سے بھی بہت مضبوط ملک ہے۔ چینیوں کی سوچ خالص تاجرانہ و سرمایہ دارانہ ہے۔ اس میں بھی حیرت کا کون سا پہلو ہے؟ چین ترقی کرنے‘ آگے بڑھنے اور عالمی سطح پر قائدانہ کردار ادا کرنے کا خواہش مند ہے۔ اس خواہش کو عملی جامہ امریکا نے بھی پہنایا اور یورپ نے بھی اور یہ سب کچھ پس ماندہ اقوام کی قیمت پر کیا گیا۔
بھارت کو یہ بات پسند نہیں کہ اس کے پڑوسیوں کا بنیادی ڈھانچہ مضبوط بنایا جائے۔ بنگلہ دیش‘ بھوٹان‘ نیپال اور سری لنکا اپنے پیروں پر کھڑے ہوگئے ‘تو علاقائی سطح پر بھارتی بالا دستی کو دھچکا لگے گا۔ بنگلہ دیش تو ہے ہی بھارت کے آغوش میں۔ نیپال اور بھوٹان خشکی سے گھرے ہوئے ہیں۔ دونوں کو بھارت پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ نئی دہلی نے کولمبو کو بھی دباؤ میں لینے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ چین نے سری لنکا میں کئی اہم منصوبے مکمل کیے ہیں۔ ایک نئی بندر گاہ بھی تعمیر کی جارہی ہے۔
اگر چین نے اپنے مقاصد کے لیے ایران اور افغانستان کو نوازنا شروع کردیا‘ تو بھارت کا کیا ہوگا؟ بھارت‘ ایران اور افغانستان کے مابین جو کھچڑی پک رہی ہے وہ ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے۔ ایران کی چاہ بہار بندر گاہ میں بھارت کی بڑھتی ہوئی دلچسپی بہت کچھ بیان کر رہی ہے۔ اگر نئی دہلی کے اربابِ بست و کشاد یہ سمجھ رہے ہیں کہ چینی قیادت بنگلہ دیش‘ نیپال‘ سری لنکا اور بھوٹان کو نواز کر بھارت کو گھیرنے کی کوشش کر رہی ہے‘ تو اسلام آباد بھی یہ سمجھنے کا حق رکھتا ہے کہ ایران اور افغانستان کو ساتھ ملاکر بھارتی قیادت دراصل پاکستان کی ناکہ بندی کر رہی ہے! ایسا کیوں نہ سمجھا جائے کہ مغرب کی طرف سے مہمیز دیئے جانے پر بھارت نے خطے کی سیاسی حرکیات کو تبدیل کرنے کی ٹھانی ہے؟
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ سی پیک آخر کس کے گلے کی ہڈی ہے؟ یہ سوال اگر سمجھ میں آجائے اور اس کا موزوں ترین جواب مل جائے ‘تو مغربی طاقتوں کی طرف سے ایشیا میں کھیلا جانے والا پورا کھیل بھی پوری طرح سمجھ میں آجائے گا۔ روس نے ایک مدت تک بھارت کا انتظار کیا ‘مگر وہ امریکا اور یورپ کے دامِ الفت سے نہ نکلا تو ماسکو کے پالیسی میکرز نے چین‘ پاکستان اور ترکی کے ساتھ جانے کی ٹھانی۔ سی پیک کے معاملے میں بھارت کو بہت سوچ سمجھ کر چلنا ہے۔ یہ صرف پاکستان کا معاملہ نہیں۔ کئی ممالک کی معیشت کا استحکام اس عظیم منصوبے کی موثر تکمیل سے وابستہ ہے۔ سی پیک کی راہ میں روڑے اٹکاکر بھارت کئی ممالک اور بالخصوص پڑوسیوں کو ناراض کرے گا۔ اپنے خطے کی حقیقتیں نظر انداز کرکے بھارت اگر امریکا اور یورپ کا حاشیہ بردار ہوکر چلتا رہا تو خرابی کو روکنا کسی کے بس میں نہ ہوگا۔ بھارتی قیادت کو سوچنا چاہیے کہ کب تک وہ اسٹریٹجی کی سطح پر زمینی حقیقتوں کے خلاف جاکر کچھ کرتی رہے گی اور لوگ کہتے رہیں گے ؎
نہ ہم سمجھے‘ نہ آپ آئے کہیں سے
پسینہ پونچھیے اپنی جبیں سے!