یہاں کی ہر ریت نرالی ہے۔ ہر معاملہ (بات چیت کے بجائے) محض باتوں کے ذریعے نمٹانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یاروں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ محض باتیں کرلینے سے دنیا کو چلایا جاسکتا ہے اور یہ کہ شاید دنیا باتوں ہی کے دم سے چل رہی ہے‘ اگر واقعی ایسا ہوتا تو آج ہمارا شمار ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا۔ ع
صرف باتوں سے کہیں بات بنا کرتی ہے؟
ایک المیہ تو یہ ہے کہ جو بولنے کا ہنر جانتے ہیں‘ یعنی کوئی بھی بات ڈھنگ سے کرسکتے ہیں وہ بالعموم خاموش رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ جہاں ان کے لیے بولنا ناگزیر ہو وہاں خاموش رہنے سے خرابیاں بڑھتی ہیں اور دوسرا‘ بڑا المیہ یہ ہے کہ جو نہیں جانتے کہ بولنا کیا ہنر ہے‘ کیسا فن ہے ‘وہ چپ رہنے کو تیار نہیں۔ جن کا بولنا نہ بولنا برابر ہو‘ اُن کے بولنے سے کچھ اچھا ہو نہ ہو‘ بُرا ضرور ہو جاتا ہے۔ پاکستان کی بدنصیبی کئی امور سے مل کر بنی ہے اور ان میں ایک نمایاں امر ہے بولنے کے ہنر کا نہ ہونا۔ جن کے ذہن خالی ہیں وہ یوں بولتے ہیں‘ جیسے اُن سے اچھا بولنے والا روئے زمین پر پایا ہی نہ جاتا ہو۔ کوئی لاکھ سمجھائے کہ جناب! ہر معاملے میں کچھ نہ کچھ بولنا لازم نہیں‘ مگر پھر بھی کوئی کب مانتا ہے۔ آج کے زمانے میں جو بات مان لے وہ پاکستانی کیسا!
سات عشروں سے عمومی اور ڈیڑھ دو عشروں سے خصوصی طور پر ہم باتیں ہی تو بناتے اور جھیلتے آئے ہیں۔ کسی نے خوب کہا ہے ؎
کہہ رہا ہے شورِ دریا سے سمندر کا سکوت
جس کا جتنا ظرف ہے اُتنا ہی وہ خاموش ہے!
ایسا نہیں ہے کہ لوگ عظمت کا راز نہیں جانتے۔ سب کو معلوم ہے کہ دنیا میں پنپنے کی کون سی باتیں ہیں مگر سوال اُن باتوں کو جاننے سے کہیں بڑھ کر اُنہیں قبول کرنے‘ اپنانے اور اُن کے مطابق اپنے وجود کو تبدیل کرنے کا ہے۔اس الجھن کو غالبؔ نے یوں بیان کیا ہے ؎
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد
پر طبیعت اِدھر نہیں آتی
محض باتوں کی سطح سے بلند ہوکر عمل کی طرف آنا کسی کسی کے بس کی بات ہوتی ہے۔ یہ بات بہت سیدھی اور سادہ ہے ع
مگر اِس میں لگتی ہے محنت زیادہ
جس کام میں محنت لگتی ہو وہ ہم کیسے کریں؟ یہ تو پہاڑ کو جگہ سے ہلانے والی بات ہوئی! آج کا عام پاکستانی خوش فہم اور خام خیالی کے ماحول میں سانس لینے کا اس قدر عادی ہوچکا ہے کہ عمل کی طرف لانے کی کوشش کیجیے تو اِس تصوّر ہی سے اُس کی جان پر بن آتی ہے! اگر زندگی کی مقصدیت کے حوالے سے کسی کی ذہن سازی کیجیے اور اُسے باعمل ہوکر زندگی بسر کرنے کی طرف لانے کی کوشش کر گزریے تو دیکھیے گا کہ اُس کی زندگی تماشا بننے میں دیر نہیں لگائے گی۔ بہت سوں کو ہم نے انتہائی پُرسکون یعنی بے عملی کی زندگی بسر کرتے دیکھا ہے اور اگر کوئی اُنہیں بے عملی کے طلسمات سے نکال کر باعمل رہتے ہوئے زندگی بسر کرنے کی روش پر گامزن کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کچھ ہی وقت گزرنے پر یہ کہتا ہوا پایا جاتا ہے کہ ؎
کوئی گناہ تھا اے دل! حصولِ آزادی؟
یہ کس عذاب میں ہم ہیں‘ یہ کس عذاب میں تو!
باتوں سے کسی کا پیٹ بھرا ہے نہ بھرے گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ معاشرے میں جو رجحان ہر طرف پایا جائے اور ٹس سے مس ہوتا ہوا محسوس نہ ہو اُسے اپنائے رہنے میں لوگ زیادہ سکون محسوس کرتے ہیں۔ ذہنوں میں ایک بڑی غلط فہمی تو یہ پائی جاتی ہے کہ جس روش پر سبھی چل رہے ہیں وہ غلط تو نہیں ہوسکتی نا! اور دوسری‘ اِسی درجے کی‘ خطرناک بات یہ ہے کہ اگر عمومی روش بُری محسوس ہو رہی ہو تب بھی انسان سوچتا ہے کہ جب سبھی اِس پر گامزن ہیں اور ضمیر پر بوجھ محسوس نہیں کر رہے تو پھر مجھے ضمیر کا قیدی بننے کی کیا ضرورت ہے؟
باتیں بگھارنے کا فن دو طرح کا ہے۔ ایک طرف تو معاملہ یہ ہے کہ لوگ دن رات بے بنیاد باتیں کرکے اپنا اور دوسروں کا دل بہلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ روزمرہ گفتگو میں بالعموم ہر معاملہ خاصی دیر تک باتوں کی منزل تک رہتا ہے۔ کسی بھی معاملے کو عمل کی دہلیز تک لانے میں انسان کو ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑتا ہے کیونکہ ایک بڑا مسئلہ اپنے وجود کو منانے‘ راضی کرنے کا ہے۔ دوسری طرف معاملہ یہ ہے کہ جنہیں کچھ کر دکھانا ہے اور جن کے عمل ہی پر معاملات کے درست ہونے کا مدار ہے وہ بھی باتوں پر گزارا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ زیادہ پیچیدہ اور خطرناک صورتِ حال ہے۔ اگر کوئی انفرادی یا نجی سطح پر باتیں بگھارنے کا عادی ہو تو کوئی بات نہیں۔ صورتِ حال پیچیدہ تر اُس وقت ہوتی جاتی ہے جب وہ بھی باتوں سے کام چلانے لگیں جنہیں معاشرے کی بہتری کا فریضہ سونپا گیا ہو۔ آج ہم اِسی صورتِ حال سے دوچار ہیں جو ہمارے حق میں دُہری دھار کا خنجر ثابت ہو رہی ہے۔
عام آدمی کا بے عمل ہو جانا بے حد افسوسناک سہی‘ مگر بہرحال‘ سمجھ میں آجاتا ہے‘ کیونکہ بہت کچھ ہے ‘جو اُس کے دستِ تصرّف میں نہیں۔ رونا اِس بات کا ہے کہ جنہیں کچھ کر دکھانے کا موقع اختیارات کے ساتھ دیا جاتاہے وہ بھی عملی سطح پر کچھ کرنے کے بجائے محض باتیں بنانے سے کام چلانا چاہتے ہیں۔ اب آپ ہی سوچیے کہ جنہیں معاشرے کو درست کرنے کی ذمہ داری اور مینڈیٹ ملا ہو وہی اگر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے کو بنیادی شعار بنالیں اور محض باتیں بگھارنے پر تُلے رہیں تو کیا ہوگا؟ سیدھی سی بات ہے‘ مسائل جوں کے توں رہیں گے‘ معاملات سلجھنے کا نام نہ لیں گے۔
سیاسی لوگ ہوں یا ریاستی (حکومتی و انتظامی مشینری) کے ارکان‘ سب طے کرچکے ہیں کہ بڑی بڑی باتوں سے پیٹ بھرنے کی کوشش کی جاتی رہے گی۔ کسی کا پیٹ بھرے نہ بھرے‘ باتیں بنانے سے اُن کی دال تو گلتی ہی ہے۔ بس‘ اتنا کافی ہے۔ اُنہیں اس سے زیادہ کچھ درکار نہیں۔ اب یہ تو ہمیں سوچنا ہے کہ محض باتیں ہی ہوتی رہیں گی یا کچھ کام وام بھی کیا جائے گا۔ پورے معاشرے کی مجموعی فضاء اور تاثر یہ ہے کہ معاملات کو ٹالتے رہیے۔ کام میں دل لگانے کے بجائے ایسی باتیں کیجیے کہ فریقِ ثانی کو لطف آجائے اور وہ قول و فعل میں ہم آہنگی تلاش کرنے کے بجائے صرف قول پر اکتفا کرے اور عمل کو بھول جائے۔ جب سبھی نے طے کر رکھا ہو کہ عمل میں بھرپور دلچسپی لینے کی بجائے محض باتوں سے کام چلایا جائے تو سبھی کمتر معیار کی زندگی پر اکتفا کرلیتے ہیں۔ اور اس وقت پاکستانی معاشرے میں یہی ہو رہا ہے۔
باتیں چھوٹی ہوں یا بڑی‘ کسی کا پیٹ نہیں بھرتیں۔ عمل یقینی نہ بنایا جائے تو کوئی بھی بات معاملات کو درست کرنے کی سمت نہیں بڑھتی۔ آج کا پاکستان بھلی لگنے والی اور بُری محسوس ہونے والی ... ہر دو طرح کی باتوں میں الجھ کر رہ گیا ہے۔ عمل کو زندگی کا محور بنانے کا وقت آگیا ہے۔ عمل کی گھڑی میں عمل ہی سے بات بنتی ہے‘ محض باتیں بگھارنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ اِس اہم اور نازک مرحلے پر ہمیں طے کرنا ہے کہ باتیں بناتے رہنے کی منزل پر رک جانا ہے یا عمل کی طرف بڑھنا ہے۔ عمل کی طرف بڑھنے کے لیے میٹھی میٹھی‘ دِل لُبھانے والی اور حقیقت کی دنیا سے بہت دور لے جانے والی باتوں سے جان چھڑانا لازم ہے۔ ایسی باتوں سے کبھی کسی فرد یا قوم کا بھلا ہوا ہے نہ ہوگا۔ ہم اس حقیقت کو جس قدر جلد تسلیم کرلیں ہمارے حق میں اُتنا ہی بہتر ہے۔