"MIK" (space) message & send to 7575

آپ کے لب پہ … اور وفا کی قسم!

اُردو شاعری کے خزانے کو کھنگال دیکھیے ‘تو گام گام کوئی نہ کوئی نگینہ ایسا نکل آئے گا ‘جو مودی سرکار پر پورا فِٹ اور چسپاں ہوگا۔ ایک زمانے سے ہندو بنیاد پرستی نے پورے خطے کا امن و سکون داؤ پر لگا رکھا ہے۔ ایک طرف پاکستان کو پریشان رکھا گیا ہے اور دوسری طرف بنگلہ دیش کو بھی دبوچ کر رکھنے سے گریز نہیں کیا گیا۔ تیسری طرف بھوٹان اور نیپال ہیں۔ ان دونوں ریاستوں کو بھی بھارت نے قدم قدم پر الجھایا ہے۔ دنیا کی واحد باضابطہ ہندو ریاست نیپال ہے‘ مگر ہندو اِزم کی ''رکشا‘‘ کا بیڑا اٹھانے والے ''سنگھ پریوار‘‘ نے ملک کو شدید نوعیت کی مذہبیت سے دوچار رکھنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی اور ہر معاملے میں زیادتی کے بعد مظلوم ہونے کا ڈھونگ بھی رچایا جاتا ہے۔ع 
وہی قتل بھی کرے ہے‘ وہی لے ثواب اُلٹا 
ایک زمانے سے انتہا پسند ہندو بھارت کے طول و عرض میں اقلیتوں کا ناطقہ بند کرکے اپنی سیاسی دکان چلاتے آئے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ''دھرم کی رَکشا‘‘ کا نعرہ بلند کرکے فتح یاب ہوتی رہی ہے۔ مودی سرکار بھی اس معاملے میں انوکھی نہیں۔ گزشتہ انتخابات کے موقع پر دکھاوے کی مد میں معاشی امکانات کا راگ الاپا گیا اور لوگوں کو یقین دلانے کی کوشش کی گئی کہ بی جے پی اقتدار میں آئی تو بھارت دیکھتے ہی دیکھتے ابھرتی ہوئی معیشتوں کی صف سے نکل کر ابھری اور پنپی ہوئی معیشتوں کی صف میں جا کھڑا ہوگا۔ 
مودی سرکار کے ساڑھے چار برس کے دوران خطے میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی طرف سے ہندو دھرم کو لاحق خطرات کا ہوّا کھڑا کرکے بی جے پی نے ووٹ بٹورے۔ یہ کوئی انوکھا معاملہ نہ تھا۔ بی جے پی نے اپنا ووٹ بینک اسی طور برقرار رکھا ہے۔ اسی کو ووٹ بینک کی سیاست کہا جاتا ہے۔ اب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کہتے ہیں کہ ووٹ بینک کی سیاست نے سات عشروں کے دوران ملک کو دیمک کی طرح چاٹ لیا ہے! مدھیہ پردیش میں بی جے پی کے کارکنوں سے خطاب میں نریندر مودی نے کہا کہ ملک کو خالص‘ غیر جانب دار سیاسی سوچ کی ضرورت ہے اور اب ہمیں ووٹ بینک کی سیاست سے دور جانا ہوگا! 
اسی کو تو کہتے ہیں اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔ چار پانچ عشروں سے سنگھ پریوار یہی تو کرتا آیا ہے اور اس انتہا پسند سیاسی ''خاندان‘‘ کا نمایاں ترین گھرانہ بی جے پی ہے‘ جس کے ہر دورِ اقتدار میں اقلیتوں کو شدید مسائل کا سامنا رہا ہے۔ ملک کی واضح ہندو اکثریت کو انتہا پسندوں نے اعتدال کی راہ پر گامزن ہونے ہی نہیں دیا۔ آج بھی مسلمانوں‘ مسیحیوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کا ہوّا کھڑا کرکے معاملات کو یوں الجھادیا جاتا ہے کہ ہندو اکثریت کو بادی النظر میں اپنا دھرم خطرے میں پڑتا دکھائی دیتا ہے۔ انتخابات میں اسی خوف کو جی بھرکے کیش کروایا جاتا ہے۔ 
خطے کا سب سے بڑا ملک ہونے کے ناتے بھارت میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے پورا خطہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ پاکستان کو ایک مستقل اور سب سے بڑے دشمن کے روپ میں دیکھنا بھارتی پالیسی میکرز کا محبوب مشغلہ رہا ہے۔ رہی سہی کسر اہلِ سیاست نے پوری کردی ہے۔ بی جے پی ایک طرف تو غالب ہندو اکثریت کو اس بات سے ڈراتی ہے کہ مسلمان اپنی آبادی بڑھا رہے ہیں اور بہت جلد بھارت میں اُن کی اکثریت ہوگی۔ دوسری طرف مذہب کی تبدیلی کے رجحان سے بھی ذہنوں میں خوف کے بیج بوئے جاتے ہیں۔ تیسرا محاذ گائے کو تحفظ فراہم کرنے کا ہے۔ ملک بھر میں گائے کا گوشت کھایا جاتا ہے ‘مگر اس حوالے سے مطعون کیا جاتا ہے‘ صرف مسلمانوں کو۔ تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ گائے کا گوشت کھانے کا رجحان برقرار رہا تو بھارت سے بہت جلد گائے اور دیگر مویشیوں کا نام و نشان مٹ جائے گا! گائے کا اِشو ایسا ہے‘ جس نے بھارت کے عام ہندو کے ذہن کو جکڑ رکھا ہے اور وہ گائے کے ذکر ہی سے جذباتی ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد حقائق کے بارے میں سوچنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ 
خطے کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات نے بھارتی پالیسی میکرز پر بھی دباؤ بڑھا دیا ہے۔ ملک کو کئی بحرانوں کا سامنا ہے‘ مگر ان سے چشم پوشی برتی جارہی ہے۔ اب اسی بات کو لیجیے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر گرتی جارہی ہے اور سٹاک مارکیٹ میں شدید عدم اعتماد کی فضاء پائی جاتی ہے۔ ایک ہفتے کے دوران سرمایہ کاروں کو کم و بیش 8 لاکھ 47 ہزار کروڑ روپے کا نقصان پہنچا ہے۔ بازارِ زر اور بازارِ حصص کی اس گراوٹ نے معیشت کی مشکلات دوچند کردی ہیں۔ ایک سال کے دوران خام تیل کے بل میں 47 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ایران سے تیل درآمد کرنا بھارت کے لیے بہت اچھا سودا رہا ہے‘ مگر اب مشکل یہ ہے کہ امریکا نے ایران پر نئی پابندیاں عائد کی ہیں۔ ایران سے تیل خریدنے پر بھی پابندی عائد کی جارہی ہے۔ 4 نومبر کے بعد جو ملک ایران سے تیل خریدے گا ‘اُسے امریکی اقدامات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بھارت چاہتا ہے کہ ایران سے تیل کی درآمد جاری ہے اور اس حوالے سے امریکی قیادت سے بات چیت بھی ہوئی ہے‘ مگر اب تک ایسا کوئی اشارا نہیں ملا کہ بھارت کو اس حوالے سے کوئی خاص رعایت دی جائے گی۔ خلیجی ممالک سے تیل کی ترسیل پر بھارت کو اضافی رقم ادا کرنا پڑتی ہے‘ یعنی لاگت بڑھ جاتی ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ اس وقت ممبئی میں ایک لیٹر پٹرول کی قیمت 90 روپے (پاکستانی کم و بیش 153 روپے) تک جا پہنچی ہے! یہی سبب ہے کہ اب بھارتی حکومت خام تیل کی درآمد میں کٹوتی کرکے ذخیرہ کیے ہوئے تیل کو بروئے کار لانا چاہتی ہے۔ 
ان تمام بحرانوں سے دوچار ہونے کے باوجود بھارتی قیادت اب تک زمینی حقائق کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں معاملات درست کرنے کی بجائے مزید بگاڑے جارہے ہیں۔ پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کی بجائے مزید خراب کیے جارہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال کو بہانہ بناکر بھارت کی سیاسی و عسکری قیادت کشیدگی برقرار رکھنے‘ بلکہ پروان چڑھانے کے موڈ میں دکھائی دیتی ہے۔ 
بھارت میں انتخابی موسم شروع ہوچکا ہے۔ چند ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات کے بعد آئندہ برس لوک سبھا کے (یعنی عام) انتخابات ہوں گے۔ بی جے پی اور اس کی ہم خیال جماعتوں کے لیے پھر ووٹ بینک برقرار رکھنے کی سیاست کا زمانہ آگیا ہے۔ نریندر مودی نے اب تک ایسا بیانیہ نہیں اپنایا‘ جس سے اندازہ لگایا جاسکے کہ وہ خطے کے حالات کو ذہن نشین رکھ کر اصلاحِ احوال کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ شمالی‘ مغربی اور مشرقی بھارت میں اب تک ''ہندوتو‘‘ کی سیاست کا بازار گرم ہے۔ گائے کی حفاظت کے نام پر ووٹ بٹورنے کا ماحول برقرار رکھا جارہا ہے‘ تاکہ ہندو اکثریت کسی اور طرف نہ جاسکے۔ 
نریندر مودی کے لیے وقت آگیا ہے کہ خطے کے زمینی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے پالیسیاں تبدیل کرنے پر توجہ دیں۔ پالیسی میکرز کو اس حوالے سے تھوڑی بہت جرأت کا مظاہرہ کرنا ہے‘ مگر خیر اس کے بھی آثار نہیں۔ بھارت ایک بار پھر انتخابی سیاست کی نذر ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ عالمی اور علاقائی حالات بدل چکے ہیں‘ مگر نریندر مودی اب تک غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے اپنی بلا اوروں کے سَر ڈال رہے ہیں۔ ووٹ بینک کی سیاست کرنے والوں کو لتاڑ کر اُنہوں نے ویسی ہی کیفیت پیدا کی ہے ‘جس کے لیے داغؔ دہلوی نے کہا تھا ۔ع
آپ کے لب پہ ... اور وفا کی قسم 
کیا قسم کھائی ہے خدا کی قسم! 
٭٭٭

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں