دنیا بھر میں ماہرین اس نکتے پر زور دیتے آئے ہیں کہ انسان پر کام کا دباؤ اتنا نہیں ہونا چاہیے کہ وہ معیاری زندگی بسر کرنے کی سکت سے محروم ہو جائے۔ یہی سبب ہے کہ ہر معاشرہ اپنے محنت کشوں کے لیے زیادہ سے زیادہ راحت و تسکین کا سامان کرنے کی کوشش میں مصروف رہتا ہے۔ مغربی معاشرے اس معاملے میں پیش پیش رہے ہیں۔ وہاں کام کرنے والوں کو اِتنی آسانیاں فراہم کی جاتی ہیں کہ کام بہت حد تک کام لگتا ہی نہیں۔ انسان ہنستے گاتے ہوئے کام پر جاتا ہے اور اسی طور‘ تھکے بغیر‘ فرحاں و شاداں شام کو گھر واپس آتا ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر پاکستان جیسے معاشروں کے لوگ دِل مسُوس کر رہ جاتے ہیں۔ ٹھیک ہی تو ہے‘ بیگار کے سے انداز سے کام کروانے اور پیار سے کام لینے میں تو بہت فرق ہے۔
امریکا اور یورپ میں طویل عرصے سے سوچا جارہا ہے کہ کام کے اوقات گھٹادیئے جائیں۔ یومیہ آٹھ گھنٹے کے بعد چار یا پانچ گھنٹے کام لینے کے حوالے سے حکمتِ عملی ترتیب دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یورپ اس معاملے میں زیادہ متحرک دکھائی دیتا ہے ‘کیونکہ وہاں مادّی اعتبار سے حقیقی فلاحی معاشرے کا ایک واضح تصور ذہنوں میں موجود ہے۔ دنیا بھر سے بہتر مستقبل کی تلاش میں نکلنے والے لوگ یورپ میں داخل ہونے اور بسنے کو اولین ترجیح دیتے ہیں۔ ناروے‘ سویڈن‘ فن لینڈ‘ ڈنمارک‘ آئس لینڈ‘ ہالینڈ اور چند دوسرے چھوٹے یورپی ممالک نے ایسے معاشرے ترتیب دیئے ہیں‘ جن میں انسان کے لیے آسانیاں ہی آسانیاں ہیں۔ زندگی گزارنی نہیں پڑ رہی‘ گزر رہی ہے۔ انسان نے خالص مادّی اعتبار سے فلاحی معاشرے کا جو خواب دیکھا تھا وہ ''سکینڈینیویا‘‘ کہلانے والے ان ممالک میں خوب شرمندۂ تعبیر ہوا ہے۔ یہ معاشرے حقیقی شر سے محفوظ رہنے اور حقیقی خیر کی طرف بڑھنے میں کس حد تک کامیاب رہے ہیں‘ یہ الگ بحث ہے۔
خالص مادّی نقطۂ نظر سے بہبود کا اہتمام کرنے والے معاشروں میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ بھی شامل ہیں ۔ یہ دونوں ممالک باقی دنیا سے بہت حد تک کٹے ہوئے ہیں۔ خود اِن کے درمیان بھی اچھا خاصا فاصلہ ہے۔ یہ دونوں معاشرے اس سرزمین پر بسنے والوں کو زیادہ سے زیادہ آسانیاں فراہم کرنے کی ٹھانے ہوئے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ کام اب کام نہیں رہا‘ کھیل کود کا معاملہ ہوکر رہ گیا ہے۔ لوگ خوشی خوشی کام پر جاتے ہیں اور خوشی خوشی واپس آتے ہیں۔ گویا کسی نوع کا کوئی دباؤ ہے‘ ہی نہیں۔
اب نیو زی لینڈ میں ایک انوکھا تجربہ کیا گیا ہے۔ ایک بڑی کمپنی نے کچھ سوچا اور جو سوچا اُس پر عمل بھی کیا۔ سوچا یہ گیا کہ ملازمین کے لیے زیادہ سے زیادہ راحت و سکون کا اہتمام کیا جائے‘ تاکہ وہ کام کا دباؤ محسوس نہ کریں اور بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں۔ کام کا دباؤ کم کرنے کے ماہرین سے مشاورت کے بعد طے کیا گیا کہ ہفتے میں چار دن کام کرنے کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ نیو زی لینڈ میں بھی ہفتہ اور اتوار کی چھٹی ہوتی ہے۔ کمپنی نے سوچا کہ ملازمین کو جمعہ کی بھی چھٹی دی جائے۔ اس صورت میں اوور ہیڈ اخراجات بھی گھٹیں گے اور ملازمین کی زندگی کا معیار بھی مزید بلند ہوگا۔ یوں وہ اہلِ خانہ اور احباب کو زیادہ وقت دے سکیں گے‘ یعنی سماجی زندگی کا دائرہ بھی وسیع ہوگا اور متعلقہ معیار کا گراف بھی بلند ہوگا۔
چند تجربات کیے گئے۔ ماہرین نے ان تجربات کی روشنی میں اندازہ لگایا کہ ہفتے میں چار دن کام کرنا انسان کے لیے انتہائی مفید ہے‘ کیونکہ یومیہ سفر کا جھنجھٹ بھی کم رہ جاتا ہے‘ کام کا دباؤ گھٹتا ہے اور کام کا معیار بلند کرنے کی سوچ بھی پروان چڑھتی ہے۔ اب اس کمپنی نے ہفتے میں چار دن کام کرنے کا طریق اپنالیا ہے۔
جب ہم نے نیو زیلینڈ کی کمپنی کے تجربے اور اُس تجربے کی کامیابی کے بارے میں مرزا تنقید بیگ کو بتایا تو اُن کی رگِ ظرافت و خباثت پھڑک اٹھی۔ مرزا کی تو عادت سی ہوگئی ہے کہ ہر معاملے میں کوئی نہ کوئی خامی تلاش کی جائے اور پھر تنقید کے ڈونگرے برسائے جائیں۔ ہفتے میں چار دن کام لینے اور تین دن مکمل آرام کا موقع دینے کا آئیڈیا اُن کے نزدیک حماقت کے سِوا کچھ نہیں! آپ مرزا کی سوچ پر زیادہ حیران نہ ہوں۔ وہ سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوئے ہیں اس لیے بزعمِ خود اچھی طرح جانتے ہیں کہ آرام کے دوران کام کتنا کرنا چاہیے! مرزا ٹِپیکل سرکاری ملازم تھے ‘یعنی کام کو ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کے لیے زہرقاتل اور انسانیت کے ماتھے کا بدنما داغ سمجھتے تھے اور اُن کا ایک انتہائی بنیادی فلسفہ یہ تھا کہ انسان کو ''بے کام‘‘ رہ کر دنیا کی حقیقی فلاح کے لیے زیادہ سے زیادہ سوچنا چاہیے! یہی سبب تھا کہ ملازمت کے دوران دفتر میں اُن کا بیشتر وقت صرف اور صرف سوچ بچار میں گزرتا تھا اور وہ کام کو کبھی درخورِ اعتناء نہیں سمجھتے تھے۔
نیو زی لینڈ کی کمپنی میں کام کے چار دنوں کا ہفتہ متعارف کرائے جانے کا مرزا نے سخت نوٹس لیا اور رولنگ نما ریمارکس میں کہا ''اس کمپنی میں سیاہ و سفید کے مالک شاید جانتے ہی نہیں کہ کام لینے کا درست ترین طریقہ یہ ہے کہ کام لیا ہی نہ جائے۔ معاملہ ملازمین پر چھوڑ دیا جائے۔ وہ جتنا چاہیں اُتنا کام خوشی خوشی کریں اور باقی سب کچھ معاشرے اور اللہ پر چھوڑ دیں۔‘‘
ہم نے دست بستہ عرض کیا کہ اس طور تو پورے سسٹم کا بھٹّہ بیٹھ جائے گا۔ جب لوگ کام کریں گے ہی نہیں تو کام ہوگا کیسے۔ یہ بات مرزا کو انتہائی بُری لگی ‘کیونکہ اسے اُنہوں نے پاکستان کی سرکاری مشینری پر تمہت سمجھا! ہمارے اعتراض کو ''کنڈم‘‘ کرنے کی خاطر پورے جوش و خروش سے بِھنّاتے اور ہنہناتے ہوئے بولے ''ارے اللہ کے بندے! کیا ہم سرکاری مشینری کا حصہ نہیں تھے؟ تم نے ہمیں کبھی کام کرتے اور کام کے بوجھ سے ہلکان ہوتے دیکھا؟ نہیں نا؟ مگر کام تو چلتا ہی رہا۔ اور اب بھی چل رہا ہے۔ کام کرنے کا ڈھنگ بدل گیا ہے؟ نہیں نا؟ تو پھر نیو زی لینڈ کی کمپنی نے کیسے فرض کرلیا کہ ہفتے میں چار دن تو ملازمین کو زحمتِ کار دینا ہی پڑے گی؟ دنیا ہم سے کچھ سیکھنا ہی نہیں چاہتی۔ ہم کام کیے بغیر جی رہے ہیں اور کام چل رہا ہے‘ پھر بھی کوئی اس حقیقت کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔ کام کے ماحول میں راحت کا سامان کرنے کے حوالے سے دنیا بھر میں تحقیق کا بازار گرم ہے۔ ہم تو حیران ہیں کہ یہ واقعی تحقیق ہے یا مال بٹورنے اور خود کو مصروف رکھنے کا بہانہ! دنیا ہفتے میں دو دن آرام کرتی ہے اور باقی پانچ دن کام کے بوجھ سے باؤلی ہوئی جاتی ہے۔ اِدھر ہم ہیں کہ ہفتہ بھر کام سے بھاگتے ہیں اور زندگی کا دریا رواں ہے‘ رک تو نہیں گیا۔ اب اِتنی سامنے کی بات سے بھی دنیا کچھ نہ سیکھے تو قصور دنیا کا ہے‘ ہمارا نہیں۔‘‘
مرزا جب بھی کام اور آرام کے تعلق پر نکتہ سنج و نکتہ چیں ہوتے ہیں تو ہمارے پاس صرف ایک آپشن بچ رہتا ہے ... یہ کہ (اپنے) ہونٹوں پر چپ کی مہر لگالی جائے! ایک باضابطہ اور تسلیم شدہ سرکاری ملازم کی حیثیت سے مرزا جب آرام کے فوائد گِنواتے ہیں‘ تب: ع
وہ کہیں اور سُنا کرے کوئی
والی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ آرام سے متعلق اُن کا ''نظریہ‘‘ اور ''فلسفہ‘‘ سُن کر ہم سمیت بہت سوں کا بالآخر یہ حال ہوتا ہے کہ: ع
... چراغوں میں روشنی نہ رہی!