"MIK" (space) message & send to 7575

’’گاہک‘‘ ہاتھ سے نہ جائے!

امریکا اور یورپ بہت پریشان ہیں۔ طاقت بھی اچھی خاصی ہے مگر پریشانی کا گراف اب طاقت سے بلند ہوگیا ہے‘ بلکہ خطرے کے نشان کو چُھو رہا ہے۔ ہر طاقتور کی زندگی میں ایک لمحہ آتا ہے جب اُسے بہت کچھ سوچنا اور طے کرنا پڑتا ہے۔ جب طاقت کا گراف نیچے آنے لگتا ہے تب بہت سے اللّے تللّے بوجھ لگنے لگتے ہیں۔ اِن سے دامن چھڑانا بھی لازم ہوتا ہے اور دامن آسانی سے چُھوٹتا بھی نہیں۔ سرِ دست امریکا و یورپ ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہیں۔ 
دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے اب تک امریکا اور یورپ نے عالمی سیاست و معیشت پر حکمرانی کی ہے۔ ہر بڑے اور فیصلہ کون نوعیت کے معاملے میں اِن کی مرضی کا سِکّہ چلتا رہا ہے۔ کئی خطوں کو اِنہوں نے اپنے مفادات کے لیے دباکر‘ دبوچ کر رکھا ہے۔ اور کئی خطے ایسے بھی ہیں جنہیں اِنہوں نے اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کی خاطر تاراج بھی کیا ہے۔ 
طاقتور کا ایک بنیادی وصف یہ بھی ہوتا ہے کہ جب طاقت کا سورج نصف النہار پر ہوتا ہے تب اِسے کچھ بھی نہیں سُوجھتا‘ کسی بھی عمل پر شرم محسوس کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ امریکا نے اپنی کسی بھی پالیسی پر کبھی شرم محسوس نہیں کی۔ ضمیر پر بوجھ کیا ہوتا ہے یہ امریکی پالیسی میکرز کو معلوم ہی نہیں۔ امریکی قیادت کی خرابیوں پر اگر امریکا میں کبھی شرم محسوس کی بھی ہے تو غیر جانب دار دانشوروں نے یا پھر اُن لوگوں نے جنہیں آج کل سول سوسائٹی کہا جاتا ہے۔ 
یورپ کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ یورپی معاشرے عالمی سیاست و معیشت کا حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی جداگانہ اور منفرد حیثیت بھی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ امریکا کی ہاں میں ہاں ملانے والے یورپی معاشروں کی تعداد گھٹتی جارہی ہے۔ برطانیہ اب تک امریکی قیادت کا ''پُوڈل‘‘ بنا ہوا ہے مگر تمام یورپی معاشروں کی ایسی حالت نہیں۔ جرمنی‘ فرانس‘ اٹلی اور دیگر یورپی ممالک باقی دنیا سے روابط کے حوالے سے اپنی سوچ رکھتے ہیں اور اِس سوچ کو وہ امریکی پالیسیوں کی پُونچھ بناکر نہیں رکھنا چاہتے۔ 
بیسویں صدی کے آخری دو عشروں کے دوران مختلف شعبوں میں غیر معمولی پیش رفت کی راہ ہموار ہوئی۔ مغرب اور باقی دنیا کے درمیان فطری علوم و فنون میں پیش رفت کے حوالے سے فرق گھٹنے لگا۔ جاپان‘ چین‘ روس‘ جنوبی کوریا اور آسٹریلیا وغیرہ نے ثابت کیا کہ وہ مختلف شعبوں میں ٹیکنالوجی کے حوالے سے تیزی اور بہتری دکھا سکتے ہیں۔ جاپان ٹیکنالوجی کے حوالے سے کبھی پس ماندہ نہیں رہا تاہم امریکا کے اشاروں پر دُم ہلاتے رہنے کے باعث عالمی سیاست و معیشت میں اُس کا کردار اب تک انتہائی محدود رہا ہے۔ جاپان کے ریاستی کردار کا عسکری پہلو صفر کے مساوی رہ گیا ہے۔ جاپان کے پالیسی میکرز صرف معیشت کو ذہن نشین رکھتے ہیں۔ کمزور ممالک کی داد رسی کے حوالے سے بھی اس کا کردار نہ ہونے کے برابر رہا ہے۔ 
روس کے لیے فطری علوم و فنون میں آگے بڑھنا کبھی بڑا مسئلہ نہیں رہا۔ سابق سپر پاور سوویت یونین کا سب سے بڑا جُز روس ہی تھا۔ چین نے تین چار عشروں کے دوران بھرپور لگن کے ساتھ کی جانے والی محنت کے ذریعے خود کو اُس مقام تک پہنچا دیا ہے جہاں سے عالمی سیاست و معیشت میں کلیدی کردار ادا کرے کی راہیں نکلتی ہیں۔ بڑی مارکیٹ کا فائدہ اٹھاکر‘ تعلیم کے اعلٰی معیار اور غیر معمولی محنت کو بروئے کار لاتے ہوئے نیز معاشرتی و اخلاقی بُرائیوں کو بہت حد تک قابو میں رکھ کر چین نے اپنے لیے خاصا وقیع عالمی کردار تخلیق کیا ہے۔ ایشیا و بحرالکاہل کا خطہ اُس کا اصل میدان ہے۔ اب روس نے بھی اُس کے لیے واضح نرم گوشے کا اظہار کرکے امریکا اور یورپ کے لیے معاملہ سنگین کردیا ہے۔ 
عالمی بینک‘ آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے پس ماندہ اور ترقی پذیر ممالک کے لیے ایسا جال بُنا گیا ہے جس میں ایک بار پھنسنے کے بعد نکلنا انتہائی دشوار ہوتا ہے۔ پاکستان بھی اُن ممالک میں سے ہے جن کی معیشت اِن عالمی مالیاتی اداروں کے بُنے ہوئے جال میں بُری طرح پھنسی ہوئی ہے۔ امریکا اور یورپ نے اِن مالیاتی اداروں کے ذریعے اپنی مرضی کے یعنی حاشیہ بردار حکمراں طبقے پیدا کیے ہیں۔ ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک میں ایک تضاد بہت نمایاں ہے ... یہ کہ پورا ملک کچھ سوچ رہا ہوتا ہے اور حکمراں طبقے کی سوچ کچھ ہوتی ہے۔ یہ طبقہ تمام معاملات پر اِس طور حاوی ہے کہ عوام کے پاس سرِ تسلیم خم کرنے کے سوا چارہ نہیں رہتا۔ یہ گروہ ایسی پالیسیاں ترتیب دیتا ہے جن سے ملک بند گلی میں پھنسا رہتا ہے۔ یہ تماشا کم و بیش 6 عشروں سے جاری ہے۔ متعدد ممالک کو اُن میں پائے جانے والے امریکا کے حاشیہ بردار طبقے ہی نے تباہی سے دوچار کیا ہے۔ 
چین اور روس کی شکل میں طاقت کے متبادل مرکز کے بے نقاب ہونے سے امریکا اور یورپ کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگی ہیں۔ ترکی‘ ایران اور چند دوسرے ممالک نے بھی مغرب کے خلاف جانے کا سوچ کر معاملات کو نئی شکل دی ہے۔ سعودی عرب اور دیگر عرب ریاستیں اب تک امریکا کے چُنگل میں ہیں مگر مغرب سے گریز کی سوچ تو بہرحال وہاں بھی پنپ ہی رہی ہے۔ چین نے ایشیا‘ بحرالکاہل اور افریقا پر توجہ مرکوز کی ہے۔ عملی دانش کا یہی تقاضا ہے۔ یورپ نے اپنا راستہ تبدیل کیا ہے اور باقی دنیا سے ہم آہنگ ہوکر چلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکی پالیسی میکرز نے نوشتۂ دیوار پڑھ تو لیا ہے مگر اُسے خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں۔ اِس کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اُنہیں اندازہ ہے کہ امریکا نے دنیا بھر میں کیا ستم ڈھائے ہیں۔ جب طاقتور کمزور پڑتا ہے تو سارے کمزور مل کر درگت بناتے ہیں۔ ایسی کسی بھی صورتِ حال سے دوچار ہونے کا خوف کمزور ہوتے ہوئے بدمعاش کو بھی بدمعاشی سے باز رہنے نہیں دیتا۔ اب امریکی قائدین کی بہت سی باتیں ایسی ہی بڑھک کا درجہ رکھتی ہیں۔ 
کمزور اور مقروض ممالک کا ایک بڑا مسئلہ فیصلے کی منزل میں اٹک جانے کا بھی ہے۔ پاکستان کا بھی یہی تو مسئلہ ہے۔ چین‘ روس اور دیگر ابھرتی ہوئی طاقتیں پاکستان اور ابھرنے کی سکت رکھنے والے ایسے ہی دوسرے ممالک پر سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہیں مگر مغرب اور بالخصوص امریکا اُنہیں ایسا کرنے نہیں دے رہا۔ پہلے تو چین سے ڈرایا گیا کہ وہ سرمایہ کاری کرکے قرضوں کے جال میں پھنسانا چاہتا ہے۔ جب یہ حربہ کارگر ثابت نہ ہوا تو اب براہِ راست دھمکانے کا آپشن اپنالیا گیا ہے۔ 
آئی ایم ایف کے در پر ایک بار پھر سجدہ ریز ہونے کا فیصلہ ہمارے لیے بہت حد تک مجبوری کا سودا ہے۔ مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق امریکا نے عالمی مالیاتی اداروں کے لیے شکنجہ کسنا شروع کیا ہے۔ جتنی رقم آئی ایم ایف ہمیں دے رہا ہے اُتنی رقم چین‘ روس‘ ترکی اور سعودی عرب مل کر آسانی سے دے سکتے ہیں اور وہ بھی کسی خطرناک شرط کے بغیر۔ مگر ہمیں مجبور کیا جارہا ہے کہ آئی ایم ایف سے قرضوں کا نیا پروگرام لیا جائے! مقصود صرف یہ ہے کہ پاکستانی معاشرہ‘ دیگر مقروض معاشروں کی طرح‘ مختلف حوالے سے پریشان اور بے حواس رہے۔ بجلی کے نرخ بڑھانے میں آئی ایم ایف کی دلچسپی اِس کا ایک بیّن ثبوت ہے۔ گاہک کو نئی دکان پر جانے سے روکا جارہا ہے۔ لالچ کا آپشن کامیاب نہیں ہوا تو اب دھمکی کا حربہ آزمایا گیا ہے جو بہت حد تک کامیاب رہا ہے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں