کامیاب زندگی کے بارے میں پڑھیے اور سُنیے تو کئی باتیں ایسی ملیں گی جنہیں لازم قرار دیا جاتا ہے۔ علم کے حصول اور پوری دلچسپی سے کام کرنے کی لگن کے علاوہ وقت کی پابندی اور دیگر بہت سے محاسن کو بنیادی اوصاف تصور کیا جاتا ہے۔ ایک اور بنیادی اور انتہائی مطلوب وصف یہ بھی ہے کہ انسان جیسا ہے ویسا ہی دکھائی دے۔ ذرا گھماکر کہیے تو یہ کہ انسان جیسا بہ ظاہر ہو ویسا ہی بہ باطن بھی ہو۔
ظاہر اور باطن کا ایک ہونا زندگی کو متوازن رکھنے کا ایک بنیادی وصف ہے۔ لوگ ہمیں بہت سی باتوں سے پرکھ رہے ہوتے ہیں۔ ہم میں ایسے بہت سے اوصاف تلاش کیے جاتے ہیں جو خود اُن تلاش کرنے والوں میں بھی نہیں پائے جاتے! اگر وہ خوبیاں پائی جائیں تو آپ قابلِ قبول ٹھہرتے ہیں۔ ظاہر اور باطن کے ایک ہونے کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ ہم زندگی بھر مخالف سمتوں میں سفر کرتے رہتے ہیں۔ اپنے ہی وجود اور شخصیت کو منقسم کرنے والی طرزِ زندگی اپناکر ہم دوسروں کے لیے کم اور اپنے لیے زیادہ مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ یہ کسی طور ممکن نہیں کہ کوئی تسلیم شدہ خرابی یا خامی آپ میں پائی جائے اور آپ اُس کے منفی اثرات سے محفوظ رہیں۔ ''تسلیم شدہ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ دنیا ہی نہیں بلکہ آپ بھی اُس خرابی کو خرابی ہی تسلیم کرتے ہوں۔ ہم میں سے ہر ایک میں بہت سے امور کے حوالے سے دو رنگی پائی جاتی ہے۔ ہم بہت سے معاملات کو بالکل بے بنیاد مانتے ہوئے بھی اپنی زندگی سے نہیں نکالتے۔ بہت سی چیزیں واضح طور پر مُضر ہونے کے باوجود ہماری شخصیت کا حصہ بنی رہتی ہیں۔ ہم بہت سی خراب عادتوں کو حرزِ جاں بنائے رہتے ہیں۔ یہی حال بہت سی اشیا کا ہے۔ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ تمباکو نوشی سے صحت کا بیڑا غرق ہوتا ہے۔ سگریٹ کی ڈبیا پر وزارتِ صحت کا انتباہ بھی درج ہوتا ہے مگر پھر لوگ سگریٹ پھونک کر پھیپھڑوں کا بیڑا غرق کرتے رہتے ہیں۔ یہ فکر و عمل کے تضاد کی ایک انتہائی نمایاں علامت ہے۔
معاشرے میں جو کچھ بالکل عام ہے اُس میں ظاہر و باطن کا فرق بھی نمایاں ہے۔ لوگ دوسروں کو متاثر کرنے کے لیے اپنی اصل شخصیت کو چھپاکر ایک ایسی شخصیت کو منظر عام پر لاتے ہیں جو دوسروں کی مرضی اور پسند کی ہو۔ اس نقلی چہرے کو دیکھ کر لوگ وقتی طور پر خوش ہو جاتے ہیں۔ بس‘ اس وقتی خوشی ہی کی مدد سے تھوڑا بہت فائدہ بھی بٹور لیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ ایک خاص وقت تک کے لیے ہوتا ہے۔ نقلی چہرہ زیادہ دیر ٹِکتا نہیں۔ کوئی بھی ملمّع زیادہ دیر سلامت نہیں رہتا۔ ذرا زور کی رگڑ لگنے کی دیر ہوتی ہے۔ زور کی رگڑ لگنے سے ملمّع اُترنے لگتا ہے اور انسان کا اصل چہرہ ظاہر ہونے لگتا ہے۔ ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ انسان ظاہر اور باطن کی دنیا میں اتنا فرق کیوں پیدا کرتا ہے۔ جیسا وہ ہے ویسا ظاہر کیوں نہیں کرتا؟ اس میں کیا قباحت ہے؟ اگر خود کو اچھا دکھانا ہے تو اصلیت کو اچھا بنانے میں کیا حرج ہے؟ ظاہر کو خوبصورت دکھانے پر بہت زیادہ محنت کرنے کے بجائے باطن کو خوبصورت بنانے پر محنت کرنے سے گریز کیوں کیا جاتا ہے؟ یہ سوچ کی ساخت کا معاملہ ہے۔ بہت سوں کے ذہن میں یہ تصور خاصی چھوٹی عمر سے راسخ ہوچکا ہوتا ہے کہ دنیا اصلیت کو تسلیم اور قبول نہیں کرتی۔ یعنی یہ کہ جیسے ہیں ویسے دکھائی نہ دیں بلکہ کچھ اور نظر آئیں تاکہ لوگ متاثر ہوں۔ اس تصور کی کوئی بنیاد نہیں مگر المیہ یہ ہے کہ یہ ہماری عمومی فکری ساخت میں خاصی گہری جڑیں رکھتا ہے۔ فکری ساخت کی جڑوں میں پیوست ہو جانے والے اس تصور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے پہلے مرحلے میں متعلقہ امور کے ماہر سے مشاورت لازم ہے اور دوسرے مرحلے میں خود کو نئی‘ مثبت اور ٹھوس سوچ کے لیے تیار کرنا ہے۔
سوچ کو بدلنا بچوں کا کھیل نہیں اور یہ کام راتوں رات یا بہت تیزی سے نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی آپ سے ایک آدھ ملاقات ہی میں کہہ دے کہ ہم تو بس آپ کے ہوگئے‘ اب جان و دل سے آپ کے ہیں! ؎
پل میں کیسے کسی کے ہوجائیں؟
یہ تو اِک عمر کی ریاضت ہے!
اگر آپ کسی کے ہونا چاہتے ہیں تو ایک عمر کی ریاضت درکار ہوا کرتی ہے۔ محض کہہ دینے سے کوئی کسی کا نہیں ہو جاتا۔ یہی معاملہ سوچ کی تبدیلی کا بھی ہے۔ چند ایک معاملات پر تھورا سا غور کرلینے کو سوچنا یا سوچنے کے ڈھنگ کا تبدیل کرنا نہیں کہتے۔ ہماری فکری ساخت میں بہت سی کمزوریاں‘ خامیاں اور خرابیاں پائی جاتی ہیں۔ اِن سب کو دور کیے بغیر ہم اپنی مرضی کی راہ پر نہیں چل سکتے اور دنیا کو بھی ہم سے وہ نہیں مل سکتا جو ملنا چاہیے۔
غالبؔ نے کہا تھا ع
وفاداری بہ شرطِ اُستواری اصلِ ایماں ہے
غالبؔ وفاداری پر ٹِکے رہے۔ دنیا بہت آگے بڑھ گئی ہے۔ لوگ وفاداری کو ایک طرف ہٹاتے ہوئے اداکاری تک پہنچ گئے ہیں! آج کی دنیا میں ہر معاملہ اداکاری کی نذر ہوکر رہ گیا ہے۔ لوگ بات بات پر اداکاری کرتے ہیں اور اداکاری کی داد دیتے بھی نظر آتے ہیں۔ مثل مشہور ہے کہ پانی اپنی پنسال میں آجاتا ہے یعنی پرنالے اپنے اپنے مقامات ہی پر بہتے رہتے ہیں۔ کسی بھی بڑی تبدیلی کے لیے بہت کچھ بدلنا پڑتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ سوچ کو نئے سانچے میں ڈھالنا پڑتا ہے۔ یہ بہت دور کی منزل ہے اور راہ بھی کٹھن ہے۔ لوگ اِتنی زحمت اٹھانے پر اداکاری کو ترجیح دیتے ہیں۔ یعنی زندگی بھر بیک وقت اپنے آپ کو اور دوسروں کو دھوکا دیتے رہیے۔ یہ بھی محض خوش فہمی اور خام خیالی ہے۔ ہم دوسروں کو دھوکا دینے کے نام پر اپنے آپ کو چَھلتے رہتے ہیں۔ وقت اور دنیا دونوں ہی بہت ظالم ہیں۔ جتنی منافقت ہم دکھاتے ہیں اُتنی ہی دنیا بھی دکھاتی ہے یعنی دھوکے کے جواب میں دھوکا ہی ملتا ہے۔ دوسری طرف وقت‘ ہماری غلط سوچ کے ہاتھوں‘ غیر مفید انداز سے گزر رہا ہوتا ہے۔ وقت کا کام گزر جانا ہے۔ جب یہ گزر جاتا ہے یعنی پُلوں کے نیچے سے اچھا خاصا پانی بہہ چُکتا ہے تب ہمیں ہوش آتا ہے۔ اور تب کیفیت کچھ یوں ہوتی ہے ؎
کُھلی جو آنکھ تو وہ تھا‘ نہ وہ زمانہ تھا
دہکتی آگ تھی‘ تنہائی تھی‘ فسانہ تھا!
یہ ہے انسان‘ دنیا اور وقت کی حقیقت۔ ہم انوکھے ہیں نہ کوئی اور۔ اپنی اصل میں سب ایک سے ہیں۔ اور اگر انوکھے پن پر اِصرار ہے تو جان لیجیے کہ پھر سب ہی انوکھے ہیں۔ پھر یہ اداکاری کیوں؟ کچھ کا کچھ دکھائی دینے کا ناٹک کس لیے؟ زندگی ہم سے قدم قدم پر ہم آہنگی اور یک رنگی کا تقاضا کرتی ہے۔ حتمی تجزیے میں تو ظاہر و باطن کی یکسانیت ہی کام کی نکلتی ہے۔ لوگوں کو اداکاری پسند آتی ہے مگر ایک خاص وقت اور مقام تک۔ اِس کے بعد تو صرف اصلیت ہی شمار کے قابل رہ جاتی ہے۔ ظاہر کو باطن کے مطابق بنانے یعنی باطن کو جوں کا توں ظاہر کرنے سے انسان کا اچھا خاصا بوجھ کم ہو جاتا ہے۔ اداکاری کو نبھانے پر جتنا وقت صرف کرنا پڑتا ہے اُس سے کہیں کم وقت ظاہر و باطن کو یکساں و یک رنگ کرنے پر صرف ہوتا ہے۔ مگر یہ بات کم ہی لوگ سمجھ‘ قبول اور ہضم کر پاتے ہیں۔ یقین نہیں آتا تو اپنے ماحول پر نظر دوڑائیے۔ بیشتر کی زندگی اداکاری کو نبھانے میں کھپتی نظر آئے گی!