سیلف ہیلپ کی کتابوں میں آپ نے پڑھا ہوگا کہ فیصلہ وہ ہے‘ جو بروقت کیا جائے۔ جو وقت پر نہ کیا جائے‘ وہ فیصلہ ہی نہیں ہوتا۔ ویسے تو خیر زندگی کے ہر معاملے ہی میں ٹائمنگ اہم ہوا کرتی ہے‘ مگر لین دین‘ تجارت اور بالخصوص املاک کی خرید و فروخت میں ٹائمنگ کا خاص خیال رکھنا ناگزیر ہوا کرتا ہے۔
یہ بات ہے ‘احمد آباد کی۔ عام طور پر لوگ بھارتی ریاست گجرات کے اس شہر کو ریاستی دارالحکومت سمجھتے ہیں۔ گجرات کا دارالحکومت گاندھی نگر ہے‘ جو احمد آباد سے متصل ہے۔ احمد آباد البتہ گجرات کا سب سے بڑا شہر ہے۔ احمد آباد کئی اعتبار سے عجیب شہر ہے۔ پانچ سو سال قبل مقامی بادشاہ احمد شاہ کا بسایا ہوا یہ شہر ہندو مسلم آبادی کے حوالے سے خاصا منفرد ہے۔ شہر کے بیشتر علاقوں کی کیفیت یہ ہے کہ کہیں مسلمان ہندوؤں کے درمیان رہتے ہیں اور کہیں ہندوؤں کی بڑی تعداد مسلم اکثریت کے درمیان زندگی بسر کرتی ہے۔ احمد آباد میں مسلمان مجموعی طور پر بہت اچھی پوزیشن میں رہے ہیں۔ شہر کے بیشتر علاقوں میں آج بھی مسلمان واضح اکثریت میں ہیں۔ نئے اور پرانے احمد آباد کو دریائے سابرمتی الگ کرتا ہے۔ یہی وہ دریا ہے‘ جس کے کنارے موہن داس کرم چند گاندھی کا مشہور زمانہ آشرم واقع ہے۔ شہر کے قدیم علاقوں میں تین چار سو سال پرانی مساجد اور دیگر عمارتیں اب موجود ہیں۔ شہر کے متعدد علاقوں میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے ڈھائی تین سو سال پرانے مکانات بھی موجود ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شہر میں مسلم اور ہندو علاقوں میں آبادی کا تناسب تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ کبھی کوئی علاقہ اوپر آ جاتا ہے اور کبھی کوئی۔ شہر میں ایسے علاقوں کی کمی نہیں ‘جہاں سے ہندو یا مسلمان نقل مکانی پر مائل ہوئے تو آبادی کا تناسب خطرناک حد تک بگڑ گیا۔ ایسا بھی ہوتا رہا ہے کہ کسی علاقے سے ہندو نکل گئے اور مسلمانوں نے مکانات خرید لیے تو بچے کھچے ہندوؤں کو برائے نام قیمت پر مکانات فروخت کرنا پڑے اور دوسری طرف بعض علاقوں میں مسلمانوں کو بھی ایسی ہی مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔
فیصلہ وہ ہے‘ جو بروقت ہو۔ احمد آباد میں پانچ عشروں کے دوران کئی علاقوں میں ہندوؤں یا مسلمانوں کی اکثریت داؤ پر لگی ہے۔ وقت پر فیصلہ نہ کرنے والے اس معاملے میں شدید خسارے سے دوچار رہتے ہیں۔
نصیر میاں شیخ کا بھی کچھ ایسا ہی کیس ہے۔ شہر کے اندرونی علاقے میں والد کے مکان میں پینتالیس سال گزارنے کے بعد انہوں نے شہر سے باہر والد ہی کے مکان میں رہنے کا سوچا۔ نوجوانی میں اُنہوں نے ٹرک کی ڈرائیونگ سیکھی اور پھر سیکھتے سیکھتے مکینک بھی ہوگئے۔ جب مکینک ہوئے‘ تو ایک ہندو سیٹھ نے شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ایک گودام میں خالی پڑی ہوئی جگہ کو گیراج کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت دے دی اور ساتھ ہی ساتھ اپنے سات آٹھ ٹرک بھی معمول کی مرمت کے لیے ان کے حوالے کردیئے۔ یہ تو لاٹری نکلنے والا معاملہ ہوگیا۔ نصیر میاں شیخ نے ایک پارٹنر اور اپنے دو بھائیوں کی مدد سے گیراج چلایا اور خوب چلایا۔ کم و بیش ڈیڑھ عشرے کے دوران اُن کی آمدن کا گراف عام آدمی سے کم از کم آٹھ تا دس گنا رہا۔ اس دوران اُن کا معیارِ زندگی خاصا بلند رہا۔ اچھا کھاتے اور اچھے سے اچھا پہنتے رہے اور صرف اُن پر کچھ موقوف نہ تھا‘ پورے گھر ہی کی موجیں ہوگئیں۔
وقت گزرتا گیا اور نصیر میاں شیخ و اہلِ خانہ وہی غلطی کرتے گئے ‘جو عام طورپر ایسے ماحول میں لوگ کیا کرتے ہیں۔ جب بھی کوئی گھرانہ بالکل عمومی سطح سے بلند ہوکر خوش حالی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے‘ تب لمحہ موجود کا اسیر ہو جاتا ہے اور مستقبل کو تابناک بنانے کی طرف اس کا دھیان ہی نہیں جاتا اور جب پھر جب ایسا کرنے کا خیال آتا ہے ‘تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔
نصیر میاں شیخ اور اُن کے گھرانے کے معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ نصیر میاں نے 1976ء میں ہندو سیٹھ کے گودام سے نکل کر پڑوس کا پلاٹ خریدا اور اُس پر موٹر ورک شاپ قائم کی۔ یہ ورک شاپ انتہائی کامیاب رہی۔ پارٹنر اور دو بھائیوں کے ساتھ مل کر نصیر میاں شیخ نے بڑے پیمانے پر دولت کمائی۔ ان کی آمدن کا گراف بلند ہوتا گیا۔ دکھ کی بات یہ تھی کہ محنت کی کمائی کو بہتر مستقبل کے لیے موزوں ترین طریقے سے خرچ کرنے کے بارے میں نہیں سوچا گیا۔ دولت اُدھر سے آئی اور اِدھر سے گئی۔ یہ سلسلہ کم و بیش سات آٹھ سال چلا۔ اس کے بعد آمدن کا گراف گرنے لگا۔ یہ تبدیلی اس لیے آئی کہ شہر ہیوی ٹریفک پر پابندی لگائی گئی۔ ٹرکس اور دیگر بڑی گاڑیوں کی مرمت کے کارخانے شہر سے باہر ہائی وے پر منتقل ہونے لگے۔
نصیر میاں شیخ کی ورک شاپ شہر کے اندر‘ قبرستان کے سامنے کی پٹی میں تھی۔ ورک شاپ کی پشت پر شہر کا سب سے بڑا مندر تھا۔ تب بھی سوامی نارائن مندر کے اکاؤنٹس میں اربوں روپے تھے اور مندر کے گنبد اور میناروں پر کروڑوں روپے کا سونا منڈھا ہوا تھا۔ مندر کی انتظامیہ نے طے کیا کہ پیچھے کے تمام پلاٹس خرید کر مندر کو توسیع دی جائے۔ کئی بنگلے خریدے گئے۔ اس کے بعد وہاں موجود ورک شاپس کی باری آئی۔ یہ 1998ء سے 2000ء کی درمیانی مدت کی بات ہے۔ تب مندر کی طرف سے 40 لاکھ روپے تک کی آفر آئی‘ پھر یہ آفر بڑھتے بڑھتے 50 لاکھ سے زائد ہوگئی۔ اُس زمانے میں نصیر میاں شیخ جس سوسائٹی میں والد کے مکان میں رہتے تھے ‘اُس کی قیمت کم و بیش 6 لاکھ روپے تھی؛ اگر وہ ورک شاپ کی زمین کا اُس دور میں سودا کرتے تو 50 لاکھ کا نصف پارٹنر کو دینے کے بعد باقی نصف اُنہیں ملتا ‘یعنی 25 لاکھ روپے ہاتھ میں آتے۔ ان 25 لاکھ روپوں کی مدد سے وہ اپنی سوسائٹی میں کم و بیش 4 مکان خرید سکتے تھے!
سودا وقت پر نہ ہوا‘ پھر یوں ہوا کہ جہاں ورک شاپ تھی‘ وہاں شہری انتظامیہ نے ایک بڑے پُل کی تعمیر کا اعلان کیا۔ اس سے زمین کی قیمت گرنے لگی۔ علاقے سے مسلمان بھی نکلتے جارہے تھے۔ اس کے نتیجے میں زمین کی قیمت مزید گری۔ مندر کی انتظامیہ بھی پیچھے ہٹ کر تماشا دیکھنے لگی اور پھر گرتے گرتے قیمت اتنی گری کہ جو ورک شاپ 1998ء میں کم و بیش 52 لاکھ میں فروخت ہو رہی تھی‘ وہ (13 سال بعد) 2011ء میں صرف 23 لاکھ روپے میں فروخت ہوئی!
پارٹنر کو نصف دینے کے بعد نصیر میاں شیخ کے ہاتھ میں کم و بیش 11 لاکھ روپے آئے۔ تب تک اُس مکان کی قیمت کم و بیش 20 لاکھ روپے ہوچکی تھی! بروقت فیصلے کی صورت میں نصیر میاں شیخ اپنی سوسائٹی میں کم و بیش 4 مکان خریدنے کی پوزیشن میں ہوتے۔ جب ورک شاپ کی زمین کا سودا ہوا تب نصیر میاں شیخ کے ہاتھ میں محض اتنی رقم آئی کہ وہ اپنی سوسائٹی میں نصف مکان خرید سکتے تھے!
یہ ایک انفرادی نوعیت کی کہانی آپ کو باور کراسکتی ہے کہ زندگی ہم سے بروقت فیصلوں کا تقاضا کرتی ہے‘ جو وقت کی نزاکت ‘یعنی ٹائمنگ کو سمجھتے ہیں‘ وہ کوئی بھی فیصلہ سوچے سمجھے بغیر‘ تمام متعلقہ معاملات کو ذہن نشین رکھے بغیر نہیں کرتے۔ آپ نے بارہا سُنا اور پڑھا ہوگا ؎
سدا عیش دوراں دِکھاتا نہیں
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
ایک تو ہوتا ہے وقت کے گزر جانے کا عمومی ماتم اور ایک ہوتا ہے ٹائمنگ کے مطابق فیصلہ یا عمل نہ کرنے کا خصوصی دکھ۔ وقت کے معاملے میں زندگی ہمیں سانپ سیڑھی والے کھیل میں الجھائے رکھتی ہے‘ جہاں آپ کی توجہ ہٹی اور دھڑام سے نیچے آرہے!