کل بات ہوئی تھی سوال کی۔ سوچنا انسان کی فطرت ہے اور اس کے اظہار کا سب سے بڑا ذریعہ ہے سوال۔ جو سوال کرتا ہے‘ وہی تو ثابت کرتا ہے کہ اُس کا ذہن کام کر رہا ہے۔ تاریخ کے ہر دور میں سوال کرنے والوں کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا ہے۔ سوال وہی انسان کرتا ہے‘ جو کسی بھی معاملے میں کوئی ایسی ویسی بُو سونگھتا ہے۔ جنہیں اپنی دکان چلتی رکھنی ہو‘ وہ سوال کرنے والوں کو بالکل پسند نہیں کرتے۔ عمومی سطح پر معاملات کو جُوں کا تُوں رکھنے پر زیادہ محنت کی جاتی ہے۔ ایک سانچا بناکر زندگی کو اُس میں ڈھالنے کی کوشش کی جاتی ہے‘ جو اس سانچے کے خلاف جائے‘ اُسے راہ سے ہٹانے یا پھر غیر مؤثر کرنے کی کوشش کو اولین ترجیح دی جاتی ہے۔
ہر دور میں کم و بیش ہر معاشرے کے طاقتور اور حکمراں طبقے نے یہی چاہا ہے کہ سوچنے والوں کی تعداد کم سے کم رہے‘ جن کے ہاتھ میں معاشرے یا ریاست کا سیاہ و سفید ہو وہ مل کر ایک ایسا نظام تیار کرتے ہیں‘ جس میں سوچنے کی صلاحیت سے عاری انسان تیار کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ طے کرلیا جاتا ہے کہ جو کچھ سُنادیا جائے‘ وہ سُکون اور احترام سے سُن لیا جائے اور اُس پر بلا چُوں چرا عمل کیا جائے۔ ہر معاشرے کا حکمراں طبقہ چاہتا ہے کہ مجموعی طور پر بھیڑ چال رہے اور بھیڑوں کے لیے چال وہی ہوتی ہے ‘جو یہ طبقہ طے کردیتا ہے۔
انسان کو ایک خاص سانچے میں ڈھالنے والا سب سے بڑا عامل ہے‘ تعلیمی نظام۔ تدریس کا طریق بھی اس حوالے سے بہت اہم ہے‘ مگر اس سے کہیں زیادہ اہم ہے‘ وہ مواد جو نصاب کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ معاشرے کے بڑے مل کر طے کرتے ہیں کہ کیسے انسان تیار کرنے ہیں اور پھر اس مقصد کے تحت ہی نصابی مواد کی ترتیب و تدوین ہوتی ہے۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ نصابی مواد میں ایسا کچھ نہ ہو جو عام آدمی کو فکر کی راہ پر گامزن ہونے کی تحریک دے۔ کسی بھی معاشرے میں زندگی بسر کرنے کے سو طریقے اور انداز ہوسکتے ہیں‘ مگر یہ تمام طریقے اور انداز طے کیے جاتے ہیں۔ طے وہ کرتے ہیں ‘جو اپنے مجموعی مفاد کو ہر حال میں محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔ انہیں معاشرے کے مجموعی مفاد سے کہیں بڑھ کر اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے۔
جن معاشروں میں بظاہر اچھی خاصی شخصی آزادی ہے اور ''لبرل ازم‘‘ کا غلغلہ ہے‘ اُن میں بھی سوچ کو آزادی سے پنپنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ ہر معاشرے میں سوچ کو متاثر اور کنٹرول کرنے کے اپنے اپنے طریقے ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ معاشروں میں چونکہ اکثریت پڑھے لکھوں کی ہوتی ہے اور باقی دنیا کے مقابلے میں زیادہ اور بہتر انداز سے سوچ سکتے ہیں‘ اس لیے اُن کی سوچ کو ایک خاص سانچے میں ڈھالنے کے الگ طریقے ہیں۔ امریکا اور یورپ جیسے ترقی یافتہ اور شخصی آزادی کے علم بردار خطوں میں میں انفرادی سوچ کو ایک خاص سانچے میں ڈھال کر محدود کرنے سے گریز نہیں کیا جاتا۔ کوشش یہ کی جاتی ہے کہ بہ ظاہر نام نہاد آزادی بھی میسر ہو اور انسان بہ باطن غلامی و اسیری سے بھی نہ بچے۔ یہ سب کچھ بہت اعلٰی سطح پر سوچا جاتا ہے۔ ذہن ِ رسا رکھنے والوں کو قابو میں رکھنے کے لیے انتہائی غیر معمولی ذہن ِ رسا درکار ہوا کرتا ہے۔
یہ تو ہوا ترقی یافتہ معاشروں کا حال۔ وہاں انسان بہ ظاہر آزاد ہے اور کچھ بھی سوچ سکتا ہے‘ مگر اُسے آزاد نہیں چھوڑ دیا گیا۔ مختلف طریقوں سے اُس کی سوچ کو کنٹرول کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ ریاستی پالیسیاں بھی اس نوعیت کی ہوتی ہیں کہ کسی کا ذہن ایک خاص حد سے آگے نہیں جاسکتا۔ ایسے میں سوچا جاسکتا ہے کہ پاکستان جیسے پس ماندہ معاشروں کا حال کیا ہوگا‘ جہاں سوچنے کا عمل اب تک باضابطہ شروع بھی نہیں ہوا!
ہمارے ہاں سوچ کو محدود کرنے کا عمل ابتداء ہی سے جاری ہے۔ تعلیمی نظام ہے ہی اس نوعیت کا کہ بچوں کو سکھایا نہیں‘ رٹایا جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ بی اے اور ایم اے کی سطح تک پہنچنے والوں میں بھی سمجھنے اور سوچنے کی صلاحیت برائے نام ہوتی ہے۔ سکول سے کالج اور پھر یونیورسٹی کی سطح تک وہ صرف رٹّے لگاکر امتحانات میں کامیابی حاصل کرتے رہتے ہیںاور جب عملی زندگی کا آغاز کرتے ہیں تو اُن میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا‘ جس کی بنیاد پر اُن کی زندگی میں کسی بڑی اور بنیادی تبدیلی کی توقع کی جاسکے۔ پاکستان میں نصابی مواد بھی اس نوعیت کا ہے کہ طلباء کا ذہن ایک خاص حد سے آگے نہیں جا پاتا۔ سب کچھ لگا بندھا ہے۔ بچوں کو ایک خاص فکری (یعنی فکر سے عاری) سانچے میں ڈھالا جاتا ہے‘ تاکہ وہ ماحول سے ہم آہنگ رہنے تک محدود رہیں۔ سوچنے والے ذہن تیار کرنے سے حتی الامکان گریز کیا جاتا ہے۔ مقصود صرف یہ ہے کہ سوچنے کے عمل کی حوصلہ افزائی نہ ہو۔ کہنے کو میڈیا کا غلغلہ ہے۔ دعویٰ یہ کیا جارہا ہے کہ عام آدمی میں شعور پروان چڑھایا جارہا ہے‘ مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ سارا زور اس بات پر ہے کہ ذہن میں گِرہیں پڑی رہیں‘ کوئی بھی معاملہ کُھل کر سامنے نہ آئے اور ذہن سوچنے پر مائل نہ ہو۔
ترقی یافتہ معاشروں میں بھی سوچنے کے رجحان کو ایک خاص حد تک پنپنے دیا جاتا ہے اور بھرپور کوشش کی جاتی ہے کہ سوچ اُس دائرے سے نہ نکلے۔ اس کے نتیجے میں لوگ سوچتے ضرور ہیں ‘مگر خاصے بے ثمر انداز سے‘ مگر خیر‘ لوگ ذاتی و اجتماعی مفادات کے حوالے سے خاصی ٹھوس فکر کے حامل بھی ہوتے ہیں۔ پاکستان جیسے معاشروں کا؛ البتہ بہت ہی گیا گزرا حال ہے۔ تفہیم کی وسعت کو تفکر کا نام دے کر دل بہلالیا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ بالعموم فکری اعتبار سے محدود رہنے کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ ''کمالِ فن‘‘ یہ ہے کہ لوگ سوچنے کی صلاحیت سے عاری ہوتے ہوئے بھی اس خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ سوچنے کے لیے اُنہیں اچھا خاصا میدان ملا ہوا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس خوش فہمی کا دائرہ وسعت اختیار کرتا جاتا ہے۔ لوگ میڈیا کے ذریعے ذہنوں میں انڈیلے جانے والے ''نکاتِ عالیہ‘‘ میں الجھے رہنے کو تفکر کے مراحل سمجھ کر دل بہلالیا کرتے ہیں!
پاکستان کو آگے بڑھنے کے لیے سوچنے والوں کی ضرورت ہے۔ معاشرہ بھیڑ چال کی نذر ہوچکا ہے۔ ایسے میں وہی لوگ کچھ کرسکتے ہیں‘ جو سوچنے کی صلاحیت کے حامل ہی نہ ہوں‘ بلکہ اس صلاحیت کو بروئے کار لانے کے بارے میں سوچتے بھی ہوں۔ خاصی محدود فکر کے ساتھ جینے کی صورت میں ہم پنجرے کے پرندوں کے سے ہو جاتے ہیں۔ ایسے پرندوں کو آزادی مل بھی جائے‘ تو اُڑنے میں الجھن محسوس کرتے ہیں۔ پاکستان کو ایسے جوان درکار ہیں جو سوچنے کے معاملے میں پنجرے کے پرندے نہ ہوں ‘بلکہ آزاد فضاؤں کے شاہین ہوں۔
معاشرہ‘ ماحول آپ کو محدود کرنا چاہتا ہے۔ سوچنے کی صلاحیت چھین کر آپ کو روبوٹ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس حوالے سے مین سٹریم اور سوشل میڈیا کو خاصی سفاکانہ ذہانت سے بروئے کار لایا جارہا ہے۔ حکمران طبقہ معاملات کو جُوں کا تُوں رکھنا چاہتا ہے۔ اُسے اقتدار پر گرفت مضبوط رکھنی ہے۔ سوچنے والے ذہن حکمراں طبقے کے لیے زہر ہوتے ہیں۔ ہمارے لیے لازم ہوچکا ہے کہ اپنے آپ کو سُنی ہوئی باتوں پر عمل کرنے والے روبوٹ کی بجائے سمجھنے اور سوچنے کی صلاحیت رکھنے والے انسان کی حیثیت سے پروان چڑھائیں؛ اگر کچھ اور نہ سہی‘ اتنا مقصد بھی حاصل ہوجائے ‘تو اس زندگی کو گھاٹے کا سَودا نہ سمجھا جائے۔