ذہنوں میں اتنے سَودے سمائے ہوئے ہیں کہ کبھی کبھی تو یہ طے کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کسے کس پر ترجیح دی جائے۔ ایک سَودا ایسا ہے کہ ذہنوں میں محض سمایا نہیں ہے بلکہ انہیں کھاگیا ہے۔ یہ سَودا ہے منفعت تلاش کرنے کا۔ ہر معاملے میں صرف اور صرف منفعت پسندی باقی رہ گئی ہے۔ لوگ عمومی سطح پر کسی بھی معاملے اور موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ ہر معاملے سے کسی نہ کسی طور اپنا فائدہ کشید کرلیا جائے۔ اس کوشش میں اگر اپنی ساکھ یا کردار بھی داؤ پر لگتا ہو تو ایسا کرنے سے گریز نہیں کیا جاتا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم میں بہت کچھ پروان چڑھا ہے۔ دنیا کا دھندا اِسی طور چلتا رہا ہے۔ بہت کچھ آتا ہے اور جو کچھ پہلے سے ہوتا ہے اُسے چلتا کرتا ہے۔ خیالات اور رجحانات کا بھی یہی معاملہ ہے۔ چند عشروں کے دوران ہم میں جہاں اور بہت سی منفی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں وہیں ایک بڑی منفی تبدیلی ہر معاملے کو صرف نفع اورنقصان کے زاویے سے دیکھنے کی بھی ہے۔ زندگی کو صرف معاشی پہلو تک محدود رکھنے کی ذہنیت پروان چڑھ چکی ہے۔ گویا سبھی کچھ خالص کاروباری ذہنیت کی نذر ہوکر رہ گیا ہے۔ کسی بھی اور معاملے سے کہیں ہٹ کر اور بڑھ کر ہمیں صرف یہ فکر لاحق رہتی ہے کہ کیا ملے گا اور کیا نہیں ملے گا۔ اگر کچھ مل رہا ہو تو ہم دلچسپی لیتے ہیں‘ بصورتِ دیگر برائے نام دلچسپی لینے سے بھی گریز کیا جاتا ہے۔
کیا یہ لازم ہے کہ ہر معاملے کو خالص مفاد پرستانہ نقطۂ نظر سے پرکھنے کی کوشش کی جائے؟ کیا ایسا کرنا ہماری زندگی کو ہر اعتبار سے توانا رکھنے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے؟ آج ہمارے ماحول میں ایسا بہت کچھ ہے جس کے ہاتھوں زندگی گہنا گئی ہے۔ معاملات یوں الجھ گئے ہیں کہ کسی کو کچھ سمجھانے کی کوشش کیجیے تو ایسا ردعمل ظاہر کرتا ہے کہ کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ لوگ چند سانچوں میں بند ہوکر رہ گئے ہیں۔ انہوں نے اپنے فکر و عمل کے چند پنجرے منتخب کیے ہیں اور اب ان سے نکلنے کو تیار نہیں۔ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ لگی بندھی زندگی کسی کام کی نہیں ہوتی مگر پھر بھی وہ اپنی طرزِ فکر و عمل کو حقیقت پسندانہ بنانے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دیتے اور صرف جیے جانے پر یقین رکھتے ہیں۔ کوئی بھی کچھ دیر ٹھہر کر ٹھنڈے دماغ سے سوچنے کو تیار نہیں۔ بہت سے معاملات غیر معمولی توجہ چاہتے ہیں یعنی اُن پر سوچنا لازم ہوتا ہے مگر لوگ سوچتے نہیں۔
ایسا کیوں ہے؟ تقریباً مکمل تیقن سے کہا جاسکتا ہے کہ ایسا محض اس لیے ہے کہ عمومی سطح پر جینے میں کچھ خاص محنت نہیں کرنا پڑتی۔ خود کو دھارے کے رحم و کرم پر چھوڑنے میں ''عافیت‘‘ ہے کیونکہ ایسی حالت میں خود کرنا ہی نہیں پڑتا۔ سکون سے بہتے چلے جائیے۔ یہ اور بات کہ ایسے میں سٹیئرنگ آپ کے ہاتھ میں نہیں ہوتا۔ وقت ہاتھ سے نکلا جارہا ہے۔ گزرتے وقت سے بھرپور استفادہ کیا جانا چاہیے‘ مگر اس معاملے میں جائز و ناجائز کا فرق نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ آخر اقدار بھی تو کچھ وزن رکھتی ہیں۔ ہمیں کون سی چیز نفع پہنچائے گی اور کسی سے نقصان پہنچے گا یہ جاننا لازم ہے۔ ہمیں اچھی طرح اندازہ ہونا چاہیے کہ ہمارے لیے کون کون سی چیزیں کام کی ہیں‘ مگر ہر معاملے کو اس پرکھ کی نذر کیا جاسکتا۔ زندگی کے دامن میں ایسا بہت کچھ ہے جو ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم خالص کاروباری ذہنیت سے بلند ہوکر دیکھیں اور سوچیں۔ کیا ہم کبھی سوچنے پر مائل نہ ہوں گے؟ کیا ہمیں کبھی یہ خیال نہ آئے گا کہ زندگی سُود و زیاں سے ہٹ کر بھی کچھ ہے؟
زندگی کے دامن میں خدا جانے کیا کیا ہے مگر ہم نے اپنے آپ کو صرف معاشی پہلو تک محدود کرلیا ہے۔ چند عشروں کے دوران رونما ہونے والی معاشرتی تبدیلیوں نے ہمیں نفسی اور حِسّی سطح پر شدید نقصان پہنچایا ہے۔ ہر انسان کی زندگی میں ایسے بہت سے معاملات ہوتے ہیں جن میں معاشیات کو دخیل نہیں ہونے دیا جاتا ‘مگر ہم ہیں کہ اس ناقابل تردید حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ زندگی ہم سے یہ چاہتی ہے کہ ہم خالص منفعت پسند ذہنیت کو ہر معاملے سے نتھی نہ کریں۔ زندگی کا ہر پہلو محض مفادات کے گرد نہیں گھومتا۔ مگر ہم وقت، حالات اور کائنات کے تمام تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے زندگی کو صرف نفع و نقصان کی عینک لگاکر دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں۔
اکیسویں صدی اپنے ساتھ بہت کچھ لے کر آئی ہے اور گزری ہوئی صدی اپنے ساتھ ایسا بہت کچھ لے گئی ہے جو اب صرف حافظے میں رہ گیا ہے۔ نئی صدی میں ہمارے لیے سب کچھ نیا ہے۔ دنیا بھر میں نئے سیاسی، معاشی اور معاشرتی رجحانات تیزی سے ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ جو کچھ کل تک دبا دبا تھا وہ اب ابھر کر ہمارے سامنے ہی نہیں آگیا بلکہ ہم پر مسلط بھی ہوگیا ہے۔ سمجھنے اور سوچنے کی صلاحیت کچھ کی کچھ ہوگئی ہے۔ اب ہر انسان کے لیے لازم ہوگیا ہے کہ فکری محاذ پر خود کو بدلے۔
ہر دور کا انسان تھوڑا یا بہت مادّہ پرست رہا ہے۔ زیادہ سے زیادہ آسائشوں کا حصول کون نہیں چاہتا؟ کس کے دل میں غیر معمولی خوش حالی کی خواہش نہیں پنپتی؟ اکیسویں صدی میں بھی خواہش محض موجود نہیں بلکہ پہلے سے زیادہ توانا ہوگئی ہے۔ یہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں‘ اگر منطقی حدود میں ہو۔ آگے بڑھنا تقریباً ہر انسان کی فطری خواہش ہوتی ہے‘ اور اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وہ عمل نواز رویہ بھی اپناتا ہے۔ معاملات اُس وقت بگڑتے ہیں جب وہ اپنے پورے وجود کو صرف مادّہ پرستی کی نذر کرنے پر تُل جاتا ہے۔ خالص کاروباری ذہنیت زندگی کو ایک طرف جُھکا دیتی ہے۔ ایسی حالت میں بہت سے پُرلطف معاملات زندگی کے دائرے سے محض نکل نہیں جاتے بلکہ بہت دور چلے جاتے ہیں۔ اور پھر ہم اُن خوشیوں کو ڈھونڈنے کی کوشش میں محض ٹامک ٹوئیاں مارتے رہ جاتے ہیں جو ہمیں جان و دل سے مطلوب و مقصود ہوتی ہیں۔
آج کا انسان بہت سی الجھنوں سے دوچار ہے۔ یہ طے کرنا بہت مشکل ہے کہ سب سے بڑی الجھن کون سی ہے۔ ہاں، پورے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ خالص کاروباری ذہنیت کے پنجرے میں پھنس جانا ہماری دو تین سب سے بڑی الجھنوں میں سے ہے۔ اِس ایک الجھن پر قابو پانا ہمارے بہت سے مسائل کا یقینی حل ہے۔ زندگی کا حُسن اِس امر میں پوشیدہ ہے کہ اخلاقی اور تہذیبی اقدار کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ ہر معاملے کو خالص مادّہ پرستانہ نقطۂ نظر سے نہ دیکھا جائے، لین دین کے زاویے سے نہ پرکھا جائے۔ کئی کام ایسے ہیں جو بے لوث رہتے ہوئے یعنی مکمل اِخلاص کے ساتھ کیے جانے چاہئیں۔ ہر معاملے کی اصل خوب صورتی اِسی صورت بڑھتی اور اجاگر ہوتی ہے۔