دنیا میں ہر طرف کام ہی کام دکھائی دے رہا ہے۔ عمل کے بازار کی گرمی اور گرما گرمی ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ ہر شخص کچھ نہ کچھ کر رہا ہے۔ کیوں نہ کرے کہ کام ہی زندگی ہے‘ کام ہی سے انسان کا وجود معنویت کا حامل ٹھہرتا ہے۔ اگر کام نہ ہو تو پورا وجود ہی بے معنی سا ہوکر رہ جائے۔ ہم‘ آپ ... سبھی ہوش سنبھالنے کی عمر سے کام دیکھتے ہی نہیں‘ کرتے بھی آئے ہیں۔ اور اب واضح طور پر یہ محسوس ہوتا ہے کہ کام ہی کے دم سے انسان کے لیے زندگی کا کوئی واضح مفہوم طے ہوتا ہے۔ اگر کام نہ کیا جائے یا کسی کے لیے کام کا ثابت نہ ہوا جائے‘ تو زندگی بے معنی سے ہوکر رہ جائے‘ جینے میں کچھ مزا نہ رہے۔
ہم سب کچھ نہ کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ اور کرتے بھی ہیں۔ کام کرنے کی خواہش یا لگن محض پلیٹ فارم ہے۔ پلیٹ فارم پر کھڑے رہنے کو سفر نہیں کہا جاسکتا۔ سوال صرف کام کرنے کی خواہش اور لگن کا نہیں‘ مہارت اور سکت کا بھی تو ہے۔ ہم اگر بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں تو یہ خواہش قابلِ تحسین ہے ‘مگر مسئلہ یہ ہے کہ دنیا محض خواہش کا احترام نہیں کرتی ‘بلکہ عملی سطح پر بھی بہت کچھ دیکھنا چاہتی ہے؛ اگر کوئی کچھ کرنا چاہتا ہے‘ تو اُسے کرکے دکھانا بھی پڑتا ہے۔ تب ہی اُسے حقیقی احترام کے لائق گردانا جاتا ہے۔ نیت کا نیک ہونا قابلِ تحسین ہے ‘مگر محض نیک نیتی سے کسی کا پیٹ نہیں بھرتا۔ خیال سے عمل تک اچھا خاصا فاصلہ ہوتا ہے۔ یہ فاصلہ طے کیے بغیر کچھ حاصل نہیں ہوتا‘ کسی کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ حقیقت کی دنیا میں تو یہی ہوتا ہے۔ خواب و خیال کا عالم اگر کچھ اور پیش کرتا ہے‘ تو کرتا رہے۔
ہم کام کیوں کرتے ہیں؟ اس سوال پر غور کرنا بہت ضروری ہے۔ اس کائنات میں کچھ بھی اور کوئی بھی کسی مقصد اور جواز کے بغیر نہیں۔ ہر انسان کو اللہ نے کسی نہ کسی مقصد کے تحت تخلیق فرمایا ہے۔ ہر چیز کسی نہ کسی حوالے سے ضروری گردانتے ہوئے معرضِ وجود میں لائی گئی ہے۔ جن چیزوں کو ہم بظاہر بے مصرف سمجھتے ہیں ‘اُن کا بھی کوئی نہ کوئی مصرف ضرور ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ مصرف ہماری نظر سے اوجھل ہو۔
ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں ‘اس کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہوتا ہے‘ یعنی ہم کوئی بھی کام شروع کرتے وقت مقصد ضرور طے کرتے ہیں؛ اگر ایسا نہ کیا جائے‘ تو کوئی بھی کام مطلوب نتائج نہیں دیتا‘ مقصد کے حصول میں ناکام رہتا ہے۔ کسی بھی کام کو زیادہ سے زیادہ بارآور اور مفید بنانے کے لیے مقصد طے کرنا یوں لازم ہے کہ میدانِ عمل میں قدم رکھنے کے بعد یہ نہ سوچنا پڑے کہ اب کیا کرنا ہے اور تب کیا کرنا ہے۔
کسی بھی کام کا مقصد خواہ کچھ ہو‘ ایک مقصد تو فطری طور پر طے شدہ ہے ... یہ کہ ہمیں دوسروں کے لیے زیادہ سے زیادہ کارآمد‘ بارآور اور مفید ثابت ہونا ہے۔ اپنے دل سے پوچھیے تو جواب ملے گا جب بھی ہم کسی سے کوئی کام کہتے ہیں ‘تو دراصل ہمیں زیادہ سے زیادہ مدد درکار ہوتی ہے۔ ہم اپنے معاملات میں زیادہ سے زیادہ آسانی چاہتے ہیں۔ یہ آسانی اُسی وقت میسر ہو پاتی ہے‘ جب دوسروں کے ہاتھوں انجام کو پہنچنے والے کام میں ہمارے لیے بہت کچھ ہو۔ انسان معاشرتی حیوان ہے‘ یعنی زندگی مل جل کر ہی ڈھنگ سے بسر کی جاسکتی ہے۔ ہم بہت سے کام نہیں کر پاتے۔ یہ کام ہمارے لیے دوسروں کے ہاتھوں انجام پاتے ہیں۔ اسی طور دوسروں کو بھی مدد درکار ہوتی ہے۔ کچھ کام ہم بھی دوسروں کے لیے کرتے ہیں۔ زندگی کا کارواں ‘اسی انداز سے رواں رہتا ہے۔
جس کسی کو بھی انتہائی معیاری زندگی بسر کرنے سے غرض ہے‘ اُسے یاد رکھنا چاہیے کہ ہمیں قدم قدم پر ایک دوسرے کی مدد کرنی ہے۔ معاونت کے بغیر ہم اپنے لیے کچھ کر پاتے ہیں‘ نہ دوسروں کے لیے۔ زندگی بھر کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑتا ہے اور کرنا ہی چاہیے۔ تو پھر کیوں نہ ایسا ہو کہ ہم کسی بھی کام کو بے دِلی سے انجام تک پہنچانے کی بجائے اس خیال کے تحت کریں کہ اُس سے دوسروں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے؟ اگر ہمارے عمل میں خلوص بھی شامل ہو تو کیا کہنے۔ خلوص ہی کی بنیاد پر یہ طے ہوتا ہے کہ ہم دوسروں کے لیے کس حد تک منفعت بخش ثابت ہونے پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم سب زندگی بھر کچھ نہ کچھ کرکے اپنے لیے معاش کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ عمل بالعموم خاصی بے دِلی سے انجام تک پہنچایا جاتا ہے۔ مزا تو جب ہے کہ ہم اپنی معاشی سرگرمیوں سے بھی لطف کشید کریں۔ اگر ایسا ہو تو ہم سے دوسروں کو زیادہ فائدہ پہنچ پائے‘ کیونکہ ایسی حالت میں کام کرنے کی لگن توانا رہتی ہے اور نیت بھی یہ ہوتی ہے کہ لوگوں کو ہم سے زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے۔
ترقی یافتہ دنیا نے یہ تصور دیا ہے کہ اگر کام دوسروں کو زیادہ فائدہ پہنچانے کی نیت سے کیا جائے‘ تو دوسرے بھی خوش ہوتے ہیں اور کام کرنے والے بھی اپنی کارکردگی سے خوب محظوظ ہوتے ہیں۔ معاشی سرگرمیوں میں غیر معمولی دلچسپی لینے والوں ہی کو اندازہ ہو پاتا ہے کہ زندگی کا یہ پہلو کس قدر پُرلطف ہے۔ جب ہم کسی معاوضے کے لیے کام کرتے وقت اس سوچ کے ساتھ مصروفِ کار ہوتے ہیں کہ متعلقین کو ہم سے فیض پہنچے تو دل کو عجیب سی خوشی محسوس ہوتی ہے اور کام میں دلچسپی بڑھتی ہے۔ ہمیں مختلف سطحوں پر ایک دوسرے کے کام آنا ہوتا ہے؛ اگر خالص لین دین کے نقطۂ نظر سے‘ یعنی کوری تاجرانہ ذہنیت کے ساتھ کام کیا جائے‘ تو معاملہ اعداد و شمار اور حساب کتاب کی منزل میں پھنس کر رہ جاتا ہے۔ ایسے میں دل کو طمانیت ملتی ہے ‘نہ ضمیر ہی مطمئن ہو پاتا ہے۔
ہم زندگی بھر معاشی اور معاشرتی سرگرمیوں کو الگ الگ خانوں میں رکھتے ہیں۔ سوچنے کا یہ انداز چند ایک سہولتیں پیدا کرتا ہے‘ مگر بہت سی پریشانیوں کا باعث بھی بنتا ہے۔ ہر معاملے کو خالص لین دین کے نقطۂ نظر سے نہیں دیکھا جاسکتا۔ بہت سی معاشی سرگرمیاں اِس نوعیت کی ہوتی ہیں کہ اُنہیں بحسن و خوبی انجام تک پہنچانے کے لیے سینے میں دھڑکتے‘ تڑپتے دل کا پایا جانا لازم ہوتا ہے‘ مثلاً: ڈاکٹرز بھی اپنی اور اہلِ خانہ کی گزر بسر کے لیے کام کرتے ہیں‘ مگر اُن کا کام صرف پیسے کے لیے نہیں ہوتا اور نہ ہی ہونا چاہیے۔ کسی بھی ڈاکٹر کو جو کچھ ملتا ہے ‘اُسے اُس سے کہیں زیادہ دینا چاہیے۔ اُس کی کارکردگی میں اخلاص کا پایا جانا ناگزیر ہے۔
اشیائے خور و نوش فروخت کرنے والے کو بھی یہ احساس ہونا چاہیے کہ اُس کی دیانت لوگوں کو بیماریوں سے محفوظ رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اشیائے خور و نوش فروخت کرنے والا اگر ایماندار ہو اور دوسروں کی مدد کرنے کا ارادہ رکھتا ہو‘ تو اُس کی ذات سے پہنچنے والا فائدہ مثالی نوعیت کا ہوتا ہے۔ معاونت کی ذہنیت ایسی ہی ہوا کرتی ہے۔