"MIK" (space) message & send to 7575

باتوں کے چراغ چل رہے ہیں

ایسا نہیں ہے کہ دنیا میں صرف مشکلات ہی مشکلات ہیں۔ مسائل اور پیچیدگیاں اپنی جگہ‘ مگر بہت سے معاملات میں قدرت نے ہمیں آسانیوں سے بھی نوازا ہے۔ آسانیاں خیر سے اور بھی بہت سے معاملات میں پائی جاتی ہیں‘ مگر باتوں کے حوالے سے جو آسانی ہمیں میسر ہے ‘اُس کا کوئی جواب نہیں۔ باتیں بنانا اس قدر عام ہنر ہے کہ کوئی بھی‘ کسی بھی صورتِ حال میں اس فن کا ماہر ہوسکتا ہے اور مارکیٹ میں ''ماہرین‘‘ کی بھی ایسی ورائٹی دستیاب ہے کہ دیکھ دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ 
خدا جانے آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفرؔ ایسی کون سی محفل میں پھنس گئے تھے ‘جس کے حوالے سے اُنہیں کہنا پڑا تھا : ع 
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی 
یہاں حال یہ ہے کہ باتوں کی پٹاری کھلتی ہے‘ تو بند ہونے کا نام نہیں لیتی۔ باتیں پھیلانا ہر دور کا محبوب ترین مشغلہ رہا ہے اور کیوں نہ ہو؟ کچھ خاص کرنا نہیں پڑتا اور بات اس طور بنتی ہے کہ دنیا دیکھتی رہ جاتی ہے۔ ابن انشائؔ کہتے ہیں ؎ 
یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں 
تم انشائؔ جی کا نام نہ لو‘ کیا انشائؔ جی سودائی ہیں؟ 
باتیں بنانے کے مشغلے اور ہنر کی بلندی کچھ ہمارے دور ہی پر موقوف نہیں۔ یہ مشغلہ اُس دور میں بھی عام تھا‘ جب ہندوستان میں انگریزوں نے اقتدار پر قابض ہوکر مسلمانوں کو پستیوں میں دھکیل دیا تھا۔ وہ وقت رُو بہ عمل ہونے کا تھا‘ مگر مسلمانانِ ہند روبہ زوال رہنے پر ''قانع‘‘ تھے اور باتوں کی بُھول بُھلیّوں میں گم ہوکر ہر تلخ حقیقت کو بھول جانا چاہتے تھے۔ اُس دور میں اکبرؔ الٰہ آبادی نے خوب کہا تھا: ع 
ہماری باتیں ہی باتیں ہیں‘ سیّد کام کرتا ہے! 
باتیں بنانے کی خوبی بہت سے بگڑے کام بنادیتی ہے۔ کون سی باتیں بنانی ہیں ‘یہ انسان کو خود طے کرنا ہوتا ہے۔ باتوں باتوں میں کسی کو راہ پر لگا لینے سے متعلق داغؔ دہلوی کہتے ہیں ؎ 
راہ پر اُن کو لگا لائے تو ہیں باتوں میں 
اور کُھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں 
باتیں بنانے کا ہنر اس لیے لگتا ہے کہ اس ایک ہنر اور مشغلے میں زندگی کا اچھا خاصا مزا پوشیدہ ہے۔ یہ مزا ہمیں کس حد تک درکار ہونا ‘چاہیے یہ الگ بحث کا موضوع ہے۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ دن رات باتوں میں مصروف رہنے کے ہاتھوں عمل کی منزل سے بہت دور رہ جاتے ہیں۔ 
ذہن پر مرتب ہونے والے دباؤ کو دور یا ختم کرنے کی غرض سے جو کچھ کیا جاتا ہے‘ اُس میں باتوں کا کلیدی کردار ہے۔ باتوں کے شوقین جب مل بیٹھتے ہیں تو ''جہاں چار یار مل جائیں وہیں رات ہو گلزار‘‘ والا سماں پیدا ہو جاتا ہے۔ بتیانے کا مزا کچھ اور ہی ہے‘ کیونکہ اس کے لیے جیب ڈھیلی کرنی پڑتی ہے نہ محنت ہی کو بروئے کار لانا پڑتا ہے۔ بس مل بیٹھنا ہے اور باتوں کے مزے لوٹنے ہیں۔ ایسی آسانی کسی اور کام میں کہاں؟ 
گھر ہو یا دفتر‘ گپ شپ سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔ چائے کا دور چلتا ہے ‘تو باتوں کا دور بھی چل پڑتا ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے: ع 
بات چل نکلی ہے‘ اب دیکھیں کہاں تک پہنچے 
والی کیفیت پیدا ہو ہی جاتی ہے۔ باتوں کا معاملہ تو یہ ہے کہ چراغ سے چراغ جلتا ہے۔ ''چین سموکرز‘‘ کے بارے میں تو آپ نے سُنا ہی ہوگا کہ سگریٹ سلگانے کے لیے ماچس کو زحمت دیتے ہیں نہ لائٹر کو۔ ختم ہوتے ہوئے سگریٹ سے نیا سگریٹ سلگایا جاتا ہے ۔ یہی معاملہ باتوں کا بھی ہے۔ پوری ہوتی ہوئی بات نئی بات کو جنم دیتی ہے۔ سلسلہ ٹوٹنے کا نام نہیں لیتا۔ رات گزرتی جاتی ہے‘ بلکہ آنکھوں میں ختم ہو جاتی ہے‘ مگر باتیں ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ 
مزا تو اور بہت سے معاملات کا بھی ہے ‘مگر جو مزا باتوں میں پایا جاتا ہے ‘وہ اپنی مثال آپ ہے۔ یہ مزا آپ کسی اور چیز یا بات میں پا نہیں سکتے۔ یہ تو ہوا آسانی کا ذکر۔ اب آئیے مشکلات کی طرف۔ باتوں میں جو لطف ہے‘ وہ اپنی جگہ‘ مگر باتوں ہی کے ہاتھوں انسان سو طرح کی مشکلات بھی تو جھیلتا ہے۔ ایسا تب ہوتا ہے کہ جب انسان سیدھی سی‘ پُرلطف بات کو بھی کسی کے خلاف استعمال کرنے کی دھن میں نکتہ سرائی سے ہرزہ سرائی کی طرف بڑھتا ہے۔ باتوں سے مزا لینے کے عادی رفتہ رفتہ غیبت کے عادی ہوتے جاتے ہیں۔ یہ عادت کسی بھی معاملے کو کسی جواز کے بغیر خرابی کی طرف لے جاتی ہے۔ 
گھر ہو یا دفتر‘ دکان ہو یا فیکٹری ... ہر مقام پر حد سے بڑھی ہوئی اور بے سمت باتیں خرابیاں پیدا کرتی ہیں۔ بتیانے کا شوق انسان کو باتوں کی لہروں میں یوں بہاتا ہے کہ پھر اُس کا اپنے آپ پر کوئی اختیار نہیں رہتا۔ باتوں کا پتیلا ایک بار زبان کے چولھے پر چڑھ جائے‘ تو پھر اُس میں خدا جانے کیا کیا پکتا رہتا ہے۔ 
آج ہمارے ماحول میں آکسیجن کم اور باتیں زیادہ ہیں۔ ہر طرف گپ شپ کا بازار گرم ہے۔ باتوں ہی کو عمل کا درجہ دے کر اطمینان کی چادر اوڑھ لی گئی ہے۔ 
مقاماتِ کار اب گپ شپ کے اڈوں میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں۔ عام تصور یہ ہے کہ جی بھر کے باتیں کرلی جائیں ‘تاکہ دل پر سے ہر بوجھ اتر جائے۔ کام کا کیا ہے‘ وہ تو ہو ہی جاتا ہے اور ہو ہی جائے گا۔ تو جناب! اس طور کام چل رہا ہے۔ باتیں بھی ہو رہی ہیں اور ساتھ ساتھ‘منہ کا ذائقہ بدلنے کی خاطر‘ تھوڑا بہت کام بھی کرلیا جاتا ہے۔ 
ایک دور تھا کہ لوگ ''کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے‘‘ کے اصول کی بنیاد پر بات کرتے تھے‘یعنی شور شرابے کو راہ دیئے بغیر کہنے والی بات کہہ بھی دی جاتی تھی اور سمجھنے والے سمجھ بھی جاتے تھے۔ اب وہ نزاکتیں کہاں؟ آج ہم‘ خیر سے‘ حلق پھاڑ کر بات کرنے کے زمانے میں جی رہے ہیں۔ یہ تصور ذہنوں میں راسخ ہوچکا ہے کہ جب تک چیخنے کا سا انداز اختیار نہیں کیا جائے گا‘ تب تک بات نہیں ہو پائے گی‘ ما فی الضمیر بیان نہیں ہو پائے گا۔ 
باتیں‘ اگر صرف باتوں کی حد تک رہیں تو پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ قصہ یہ ہے کہ باتوں کا کینوس جب وسعت اختیار کرتا ہے ‘تب گاڑی پکی سڑک سے پھسل کر کچے میں لڑھکتی چلی جاتی ہے۔ اس کے بعد سفر کی نوعیت کیا رہ جاتی ہے‘ اس کا اندازہ لگانا کچھ دشوار نہیں۔ مزا تلاش کرتے رہنے اور اس کا دائرہ وسیع کرنے کے شوق میں لوگ بھرپور جوش و خروش کے ساتھ باتوں کی ڈگر پر بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ 
ہمارے دوست خرم سہیل نے اپنے انٹرویوز کو کتابی شکل میں شائع کیا تو اس مجموعے کو ''باتوں کی پیالی میں ٹھنڈی چائے‘‘ کا عنوان دیا۔ اب ہماری سمجھ میں آتا ہے کہ باتوں کے اثرات کتنے اور کیسے ہوتے ہیں۔ جب باتوں کی پیالی ہاتھ میں ہو تو چائے کے پاس ٹھنڈی ہو رہنے کے سوا آپشن نہیں بچتا۔ آج کم و بیش پورا معاشرہ اس کیفیت کا نمونہ بنا ہوا ہے۔ باتوں کی پیالی میں عمل کی چائے ٹھنڈی ٹھار ہوگئی ہے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں