ہم اور الفاظ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ یہ تعلق ہے ہی کچھ اس نوعیت کا کہ توڑے سے توڑا نہ جائے اور اگر کسی بھی وجہ سے‘ وقتی طور پر ہی سہی‘ ٹوٹ جائے تو جوڑے بغیر بات نہ بنے۔ ہم الفاظ ہی کی مدد سے بولتے‘ سنتے اور سمجھتے ہیں۔ الفاظ نہ ہوں تو ہمارے لیے کچھ کہنا اور سمجھنا قدم قدم پر ایک بڑے امتحان میں تبدیل ہو جائے۔ خیر‘ الفاظ کے ہوتے ہوئے بھی امتحانی لمحات کو ٹالنا آسان نہیں۔ الفاظ کا انتخاب ہی بتاتا ہے کہ ہم کیا اور کیوں کہنا چاہتے ہیں۔ الفاظ ہی کی مدد سے ہم طے کرتے ہیں کہ کسی بھی معاملے کو کس حد تک پہنچانا یا لے جانا ہے۔ الفاظ ہی وہ راستہ ہیں جس پر چل کر ہمارے معاملات کسی منطقی منزل تک پہنچتے ہیں۔ اگر اس معاملے میں ذرا سی بھی اونچ نیچ ہو جائے تو ہمارے لیے اپنے کہے ہوئے الفاظ پر نظر ثانی لازم ٹھہرتی ہے۔ بالکل اِسی طور جب ہم کسی کی کوئی بات اپنے لیے شدید رنجش پیدا کرنے والی محسوس کرتے ہیں تب بھی فریقِ ثانی پر لازم ہو جاتا ہے کہ اُن الفاظ کی نوعیت اور مفہوم پر نئے سرے سے غور کرے اور ازالے کی راہ ڈھونڈے۔ الفاظ کا انتخاب ہی ہمیں ڈھنگ سے کچھ کہنے کی تحریک دیتا ہے اور دوسروں کو بھی‘ ہمارے الفاظ ہی سے کسی نہ کسی بات کی تحریک ملتی ہے۔ اگر الفاظ کا انتخاب محتاط نہ ہو تو بنتی بات بگڑ جاتی ہے‘ کسی کو ملنے والی اچھی خاصی تحریک راہِ عدم پر گامزن ہوکر محض اُکسانے کا ذریعہ رہ جاتی ہے۔
الفاظ کا غیر محتاط اور بے ربط انتخاب مشکلات کی تعداد اور شدت دونوں میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ ہم کسی سے کس طور مخاطب ہوں‘ ذاتی نوعیت کے کسی معاملے میں اپنا مؤقف کس طور بیان کریں کہ وہ واضح طور پر بیان ہو اور متعلقین کی سمجھ میں بھی آئے‘ کسی بھی موضوع پر اپنی رائے کس طور دیں کہ رائے دینے کا حق ادا ہو جائے ... یہ سب کچھ ہم سے غیر معمولی توجہ کا طالب ہوتا ہے۔ توجہ نہ دی جائے تو سیدھی سی بات بھی اتنی ٹیڑھی ہو جاتی ہے کہ لوگ سمجھ نہیں پاتے۔ نامناسب الفاظ ہماری مشکلات میں اس طور اضافہ کرتے ہیں کہ پھر معاملے کی درستی پر اچھا خاصا وقت ہی ضائع نہیں ہوتا‘ توانائی بھی ٹھکانے لگ جاتی ہے۔ اگر کوئی ہمارے ساتھ بیٹھا ہو اور ہم ‘اُس کے والد کو آتا ہوا دیکھیں تو اُسے بتائیں گے کہ آپ کے (یا تمہارے) والد آرہے ہیں۔ اب اگر یہی بات بے ڈھنگے انداز سے کہی جائے تو ہنگامہ برپا ہو جائے یعنی ''تمہارے والد آرہے ہیں‘‘ کے بجائے یہ کہہ دیا جائے کہ تیرا باپ آرہا ہے! ''والد‘‘ اور ''باپ‘‘ میں اصلاً کوئی فرق نہیں مگر بے محل استعمال کرنے سے ایسی خرابی پیدا ہوتی ہے‘ جس پر قابو پانے میں خاصا وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور تعلقات میں پیدا ہونے والی کشیدگی بہت سے معاملات کو بگاڑ دیتی ہے۔
آپس کی گفتگو میں الفاظ کا انتخاب تعلقات کی نوعیت کا تعین کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کی بہتری کا سامان بھی تو کرتا ہے۔ الفاظ کا انتخاب ہی گفتگو کا رخ بھی متعین کرتا ہے۔ ہم کمتر الفاظ سے اعلیٰ معیار کی گفتگو نہیں کرسکتے۔ اختلافِ رائے کی صورت میں اپنا مؤقف بیان کرنے کا طریق ہی طے کرتا ہے کہ ہم بگڑی بات کو بنانا چاہتے ہیں یا بنتی ہوئی بات کو بگاڑنے کے خواہش مند ہیں۔ اختلافِ رائے شدت اختیار کرلے تو بات بنانے کا سخت ترین مرحلہ الفاظ کا انتخاب ہے۔ اگر کبھی بحث کے دوران اختلافِ رائے کا گراف زیادہ بلند ہوجائے تو بات مناسب ترین الفاظ کے استعمال سے ختم کی جاتی ہے۔ ایک ایک لفظ تول کر بولنا پڑتا ہے۔ ایسے میں ''ٹھیک ہے جناب‘ جیسی آپ کی مرضی‘‘ کے بجائے ''ابے جا‘ بڑا آیا‘‘ کہا جائے تو معاملہ کہیں سے کہیں جا نکلے گا!
تقریر کے دوران جب مقرر جوش و خروش کی لہروں میں بہنے لگتا ہے تب کسی بھی مرحلے میں منہ سے کچھ بھی نکل جاتا ہے۔ اگر موضوع اور موقع کی نزاکت سے تھوڑا بہت بھی ربط بن رہا ہو تو ٹھیک ورنہ پوری تقریر کے تاثر پر پانی پھر جاتا ہے۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ سیاق و سباق سے ہٹ کر استعمال کیا جانے والا کوئی ایک لفظ قیامتِ صغرٰی بپا کر ڈالتا ہے۔ منتخب ایوان میں پرجوش انداز سے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اگر کوئی سیاست دان مخالفین کو لتاڑنے کے عمل میں الفاظ کا انتخاب غیر محتاط انداز سے کریںتو ماحول خاصا مکدّر ہو جاتا ہے۔ کسی بڑی شخصیت سے نفرت کے اظہار کی مد میں اگر محض ایک نامناسب لفظ بھی خرچ کردیا جائے تو سَودا مہنگا پڑ جاتا ہے۔ سیاسی تقریروں میں اکثر یہ تماشا ہوتا ہے۔ خطابت کے جوش میں مخالفین کو انتہائی نامناسب الفاظ سے نشانہ بنانے کا عمل پورے سیاسی ماحول کو کشیدہ کردیتا ہے۔
الفاظ بنیادی طور پر یا اصلاً صرف اس لیے ہوتے ہیں کہ اُنہیں پُل بناکر فاصلے طے کرنا آسان بنایا جائے۔ الفاظ ہی کی مدد سے ہم بگڑے ہوئے معاملات کو بناتے ہیں۔ ہمیں درپیش بیشتر معاملات دھاروں کے مانند ہوتے ہیں جن کے ہوتے ہوئے دریا عبور کرنا ہمارے لیے آسانی سے ممکن نہیں ہوتا۔ لازم ہے کہ اِن دھاروں پر پُل ہوں تاکہ ہم دوسری طرف آسانی سے جاسکیں۔ یہ پُل الفاظ کی شکل میں ہوتے ہیں۔ ہماری جذباتیت اِن پُلوں کو یا تو مسمار کردیتی ہے یا پھر استعمال کیے جانے کے قابل نہیں چھوڑتی۔ سنجیدگی کا دامن چھوڑ کر‘ نتائج کی پروا کیے بغیر کچھ بھی بول دینا ہمارے لیے بیشتر معاملات میں انتہائی ہلاکت خیز ثابت ہوتا ہے۔ ہلاکت خیز اِس مفہوم میں کہ ایسی حالت میں بہت سے معاملات حادثاتی موت مرتے ہیں!
الفاظ کو اگر پُل کی حیثیت سے بروئے کار نہ لایا جائے تو وہ سیلِ رواں کی صورت ہمارے بیشتر معاملات کو بہا لے جاتے ہیں۔ جس نے بھی الفاظ کی حرمت کو نہ جانا اور اُن کے انتخاب کے معاملے میں احتیاط پسندی کی راہ پر گامزن نہ ہوا وہ ریلے میں بہہ گیا۔ ایسی بیسیوں مثالیں ہمیں اپنے ماحول میں بھی مل جائیں گی۔ اچانک ابھر کر سامنے آنے والی کسی بھی صورتحال میں ہمیں انتہائی محتاط ہوکر بولنا پڑتا ہے۔ یہی دانائی کا اصل امتحان ہے۔ دانائی کو زحمت دیئے بغیر کچھ بھی بے دھڑک بول دینے سے الفاظ پُل والا کردار بھول کر سیلاب والا کردار ادا کر بیٹھتے ہیں۔ اور اس کے بعد‘ ظاہر ہے‘ صرف پچھتاوے کا آپشن رہ جاتا ہے۔
جس نے بھی الفاظ کی حرمت کو نہ جانا انتخاب کے معاملے میں احتیاط پسندی کی راہ پر گامزن نہ ہوا وہ ریلے میں بہہ گیا۔ ایسی بیسیوں مثالیں ہمیں اپنے ماحول میں بھی مل جائیں گی۔ اچانک ابھر کر سامنے آنے والی کسی بھی صورتحال میں ہمیں محتاط ہوکر بولنا پڑتا ہے۔ یہی دانائی کا اصل امتحان ہے۔ دانائی کو زحمت دیئے بغیر کچھ بھی بے دھڑک بول دینے سے الفاظ پُل والا کردار بھول کر سیلاب والا کردار ادا کر بیٹھتے ہیں۔