"MIK" (space) message & send to 7575

… دیدۂ دل وا کرے کوئی

دیکھنے میں اور واقعی دیکھنے میں بہت فرق ہے۔ اس فرق کو واضح طور پر بیان کرنے کے لیے ہم ''بصارت‘‘ اور ''بصیرت‘‘ کا استعمال کرتے ہیں۔ دیکھنے کی جو صلاحیت آنکھوں میں پائی جاتی ہے ‘وہ بصارت کہلاتی ہے۔ یہی صلاحیت دل میں ہو‘ باطن میں ہو تو بصیرت قرار پاتی ہے۔ علامہ نے کہا تھا ؎ 
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی 
ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وَا کرے کوئی 
دیکھنا اہم ہے‘ مگر صرف دیکھنا کچھ زیادہ کام کا نہیں‘ جو کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے وہ اگرچہ ہمارے لیے بہت اہم ہے ‘مگر اس سے زیادہ اہم وہ ہے‘ جو آنکھوں کے سامنے بھی نہیں اور ابھی معرضِ وجود میں بھی نہیں آیا۔ اُسے دیکھنا اور سمجھنا اہمیت رکھتا ہے۔ اسی کو تو دیکھنا کہتے ہیں۔ 
دل کی آنکھ کھلی ہوئی ہو اور دیکھنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہو تو سمجھیے بیڑا پار ہوا‘ جو کچھ دکھائی دے رہا ہے‘ یعنی آنکھوں پر ظاہر ہے ‘اُس کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے دل کی آنکھ کا محض ہونا کافی نہیں بلکہ کھلا ہونا بھی لازم ہے۔ یہ خاصیت پیدا ہوئی تو بات بنی۔ جو زندگی کو کسی خاص مقصد یا ہدف کی امین سمجھتے ہیں وہ دیدۂ دل وَا کرنے کے بارے میں بھی سوچتے ہیں‘ تیاری کرتے ہیں۔ 
جو کچھ ہم دیکھتے ہیں اُس کے بارے میں سوچنا بھی لازم ہے۔ سوچنے ہی سے اشیاء کی حقیقت کا اندازہ ہوتا ہے اور یوں فکر و عمل میں پختگی پیدا ہوتی ہے۔ یہ پختگی زندگی کو زندگی بناتی ہے۔ شان الحق حقیؔ نے کہا ہے ؎ 
دل کی توفیق سے ملتا ہے سراغِ منزل 
آنکھ تو صرف نظاروں ہی میں کھو جاتی ہے! 
ظاہر کی آنکھ سے تماشا نہ کرنے کی نصیحت یا ہدایت اِسی لیے تو کی گئی ہے۔ ظاہر کی آنکھ تو وہی دکھائے گی‘ جو ظاہر ہے‘ جو کچھ چھپا ہوا ہے‘ وہ دیدۂ دل کے وَا کرنے سے عیاں ہوتا ہے۔ ہم جس دنیا کا حصہ ہیں ‘اُس میں جو کچھ ظاہر ہے ‘وہی سب کچھ نہیں ہے۔ بہت کچھ ہے ‘جو ہم سے پوشیدہ ہے۔ یہ جو کچھ چھپا ہوا ہے‘ اس کا دیکھ پانا ہی ہماری اصل کامیابی ہے اور بالخصوص ایسی حالت میں کہ وہ ابھی پوری طرح واقع بھی نہ ہوا ہو۔ 
فلسفی کا کام کیا ہے؟ زندگی کے بنیادی مسائل پر غور کرنا‘ اُن کی تشریح و تجزی کرنا‘ تاکہ ہر چیز سمجھ میں آئے‘ مگر معاملہ یہیں تک نہیں رکنا چاہیے۔ فلسفی کا بنیادی کام اُس کے بارے میں بھی بتانا ہے‘ جو ابھی سامنے نہیں آیا یا واقع ہی نہیں ہوا۔ فلسفی کا لغوی مفہوم ہے ؛علم سے محبت کرنے والا۔ فلسفی کا یہ مفہوم کافی نہیں۔ ہندی میں فلسفی کے لیے ''تتّو گیانی‘‘ کے ساتھ ساتھ ''دارشَنِک‘‘ کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے۔ تتّو گیانی وہ ہے‘ جو معاملات کو اچھی طرح سمجھنے کے بعد اُن کا تجزیہ کرے تاکہ دوسرے بھی سمجھ سکیں۔ دارشَنِک (صاحبِ بصیرت) وہ ہے جو معاملات کو سمجھ کر آنے والے زمانے کا (دل کی آنکھ سے) ''درشن‘‘ کرے اور بتائے کہ دیکھو‘ دنیا ایسی ہے اور اب ایسی ہونی چاہیے۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب دل کی آنکھ سے معاملات کو دیکھنے اور پرکھنے کی توفیق نصیب ہوئی ہو‘ کیونکہ ظاہر کی آنکھ تو تماشوں ہی میں کھو جاتی ہے۔ 
اصل دیکھنا یہ ہے کہ انسان شے کی حقیقت کو دیکھے۔ جب حقیقت پر نظر پڑتی ہے‘ تو معاملات کی اصل سمجھ میں آنے لگتی ہے۔ ایسے میں فکر و نظر کے زاویے اور عمل کے انداز بدل جاتے ہیں‘اسی حقیقت کی طرف علامہ نے یوں اشارا کیا ہے ؎ 
اے اہلِ نظر! ذوقِ نظر خوب ہے لیکن 
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا! 
شے کی حقیقت کو دیکھنے والی نظر کو پیدا کرنے اور پروان چڑھانے کی ضرورت ہے‘ جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ اس امر کا متقاضی ہے کہ اُسے سمجھا جائے۔ یہ تفہیم ناگزیر ہے‘ کیونکہ اس تفہیم ہی سے آنے والے زمانوں کا معقول حد تک درست اندازہ لگانے اور اس حوالے سے خود کو تیار کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اشیاء و معاملات کی حقیقت کے بارے میں سوچنا اور اُنہیں سمجھنا انفرادی سطح پر بھی بہت اہم ہے‘ مگر اس سے کہیں بڑھ کر یہ معاملہ اجتماعی سطح پر اہم ہے۔ خالص علمی سطح پر بھی جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ جو کچھ ہے اُسے سمجھنا اور آنے والے زمانوں کا اندازہ لگانا اجتماعی زندگی کے لیے ناگزیر ہے۔ اب تو ''مستقبلیات‘‘ کے زیر عنوان بہت سے معاملات کا باضابطہ مطالعہ کیا جاتا ہے۔ یہ مطالعہ انسان کو بالغ نظر بناتا ہے۔ ہاں‘ یہ بصیرت پیدا کرنے کی طرف پہلی منزل ہے‘ اسی راستے پر چلتے ہوئے جب بہت سے دوسرے متعلقہ معاملات پر غور کیا جاتا ہے‘ تب معاملات کو سمجھنے میں غیر معمولی اور اطمینان بخش حد تک مدد ملتی ہے۔ 
ہم جس دنیا کا حصہ ہیں اُس میں عمومی رجحان یہ ہے کہ میلے کی رونق دیکھی جائے اور دل بہلایا جائے اور اسی پر اکتفا کیا جائے۔ یہ میلہ کیا ہے‘ کیوں ہے‘ کب سے ہے‘ کب تک رہے گا‘ جب یہ میلہ نہیں رہے گا تب کیا ہوگا ... ان تمام امور پر سوچنا ممنوع ہے۔ معاشرے کی ساخت کہتی ہے ‘ظاہر کی آنکھ سے تماشا کرنا کافی ہے‘ دیدۂ دل وَا کرنے کی کوشش سے گریز کیا جائے۔ اشیاء کی حقیقت کو سیکھنے اور سمجھنے والی نظر کا پیدا کرنا اور پروان چڑھانا مطلوب و محبوب نہیں۔ ہر آن یہی جاری ہونے والا ''ناشُنیدہ‘‘ فرمان یہ ہے کہ جو کچھ دکھائی دے رہا ہے ‘وہی کافی ہے‘ اُسی پر اکتفا کیا جائے۔ کسی بھی ایسے انسان کو زیادہ پسند نہیں کیا جاتا‘ جو عمومی سطح سے ذرا بھی بلند ہونے کی کوشش کرے‘ یعنی یہ کہ ''صاحبِ بصارت‘‘ ہونا کافی ہے‘ بھول کر بھی ''صاحبِ بصیرت‘‘ بننے کی کوشش نہ کی جائے‘ جس نے یہ ''فرمان‘‘ نظر انداز کیا وہ نامطلوب ٹھہرا۔ 
تاریخ بتاتی ہے کہ ہر دور میں اُنہیں معتوب ٹھہرایا گیا‘ مصلوب کیا گیا‘ جنہوں نے آنے والے زمانوں کو دیکھنے کی کوشش کی‘ دنیا کو یہ بتانا چاہا کہ جو کچھ دکھائی دے رہا ہے وہ کافی نہیں‘ بلکہ اور بھی بہت کچھ ہے ‘جسے دیکھنا اور سمجھنا ناگزیر ہے۔ اکیسویں صدی کے بہت سے تقاضوں میں سرِفہرست یہ ہے کہ آپ ظاہر کی آنکھ کے دیکھے پر اکتفا نہ کریں‘ دیدۂ دل وَا کرکے اور بہت کچھ دیکھنے کا بھی اہتمام کریں۔ زمانہ ہر آن بدل رہا ہے۔ یہ تبدیلی محض لمحہ موجود تک محدود نہیں‘ بلکہ ''چین ری ایکشن‘‘ کے اصول کی بنیاد پر بہت کچھ تبدیل ہوتا جاتا ہے‘ جو کچھ تبدیل ہو رہا ہے‘ وہ سب کا سب ہم پر ظاہر نہیں۔ ہمیں مطالعے‘ مشاہدے اور گفتگو کی بنیاد پر بہت کچھ سمجھنا ہے ‘تاکہ وہ سب کچھ سمجھ میں آسکے جو ہے‘ مگر دکھائی نہیں دے رہا۔ 
زمانہ اُن کا ہے ‘جو بالغ نظر ہیں اور محض بصارت کی منزل میں ٹھہرے ہوئے نہیں ‘بلکہ بصیرت تک پہنچنے کے بھی متمنّی ہیں۔ بصارت کو سب کچھ نہ سمجھنے والے ہی بصیرت سے ہم کنار ہوکر زندگی کی کشتی کو مطلوب کنارے تک پہنچانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ 
باطن کی آنکھ سے دیکھنے والے حیرت سے دوچار رہتے ہیں۔ علامہ ہی کے بقول ؎ 
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں 
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی 
مگر خیر‘ یہ حیرت ہی تو زندگی کا اصل حُسن ہے۔ حُسن کی یہ شکل غارت ہوئی‘ تو میلہ بے رونق سمجھیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں