جنہیں سن سن کر ہمارے کان پک چکے ہیں ایسی باتیں تو خیر کئی ہیں ‘تاہم ایک جملہ اس معاملے میں شاہکار کا درجہ رکھتا ہے ... یہ کہ ''ملک نازک موڑ پر کھڑا ہے‘‘۔ یہ کم بخت نازک موڑ ہے کہ ختم ہوکر نہیں دے رہا، بلکہ ہر موڑ پر سامنے آ جاتا ہے۔ اور ملک بھی جیسے اَڑ گیا ہے، اِس موڑ سے آگے نہیں بڑھ رہا۔ وضاحتوں کے سلسلے ہیں کہ سکون کا سانس نہیں لے رہے اور سکون کا سانس لینے بھی نہیں دے رہے۔
ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے سو جھوٹ بولنا پڑتے ہیں۔ اِس وقت ہماری اندرونی کیفیت یہی ہے۔ جو کچھ ہم سے سرزد ہوا ہے وہ ایسا اور اتنا ہے کہ وضاحت پر وضاحت بھی کام نہیں آرہی۔ وزیر اعظم نے تین چار دن قبل فوج کو تحریکِ انصاف کے منشور سے ہم آہنگ ہی قرار نہیں دیا بلکہ یہ بھی کہا کہ فوج اِس منشور کے ساتھ کھڑی ہے۔ یہ بات سرکاری و ریاستی سطح پر پائے جانے والے حفظِ مراتب سے زیادہ تھی۔ بہت سی باتیں کسی بھی طور کہی نہیں جاسکتیں اور برداشت بھی نہیں کی جاسکتیں۔ یہ بھی ایک ایسی ہی بات تھی۔ اور اس پر انتہائی منظّم، حسّاس اور طاقتور ادارے کی حیثیت سے فوج کا ردعمل بروقت، جامع اور مدلّل تھا۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے میڈیا بریفنگ میں کہا ہے کہ حکومت کے ساتھ فوج نہیں، قوم ہوتی ہے یعنی حکومت کو ڈھنگ سے کام کرنے کے لیے جو اعتماد درکار ہوا کرتا ہے وہ قوم عطا کرتی ہے۔ ساتھ ہی میجر جنرل آصف غفور نے یہ بھی کہا کہ اب کسی اور کی جنگ نہیں لڑیں گے۔ بات یہاں ختم ہو جانی چاہیے تھی مگر وزیر اعظم نے واشنگٹن پوسٹ سے خصوصی انٹرویو میں کرائے کے قاتل کی حیثیت سے استعمال کرنے والی طاقت سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہم کرائے کی بندوق بن کر کسی کی جنگ نہیں لڑیں گے!
وزیر اعظم کی ذہانت، ایمان داری اور جاں فشانی اپنی جگہ مگر ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ لب کشائی کے وقت احتیاط برتنے کے قائل نہیں۔ بعض معمولی باتیں بھی سرکاری راز کا درجہ رکھتی ہیں جو کسی طور طشت از بام نہیں کی جانی چاہئیں۔ اور بعض باتیں ''اوپن سیکرٹ‘‘ کی طرح ہوتی ہیں یعنی بے کہے بیان ہوچکی ہوتی ہیں‘ اس لیے انہیں باضابطہ بیان کرنا مَرے پر سو دُرّے مارنے کے ذیل میں آتا ہے۔ قوم یہ سب کچھ نہیں سننا چاہتی۔ بہت کچھ ہے جو عوام کی سمجھ میں بھی آچکا ہے ‘مگر چونکہ اس وقت سب سے بڑا دردِ سر معیشت و معاشرت کو درست کرنے کا ہے‘ اس لیے سب چاہتے ہیں کہ حکومت اور تمام ریاستی ادارے مل کر کام کریں۔ باقی سب بعد کا معاملہ ہے۔ اقبالؔ کی زبان میں کہیے تو یہ گھڑی محشر کی ہے اور ہم سب عرصۂ محشر میں ہیں۔ فیصلہ کن لمحات ہمارے سامنے آتے رہے ہیں اور ہم اُن سے نظر چراتے رہے ہیں۔ کوئی بھی گھڑی ہمارے لیے اہم اُسی وقت ہوسکتی ہے جب ہم اُسے اہم گردانیں اور حقیقت پسند رویہ اختیار کریں۔ معیشت اور معاشرت دونوں کو نئی زندگی بخشنے کی گھڑی آگئی ہے۔ ایک زمانے سے پاکستان کی سرزمین پر معیشت ڈھنگ کی ہے نہ معاشرت ۔ دونوں کو ایک دوسرے کے خلاف تواتر سے استعمال کیا گیا ہے۔ ڈھائی تین عشروں کے تعامل نے عوام کے مزاج میں معیشت اور معاشرت کے حوالے سے تمام معاملات کو ایسا الجھا دیا ہے کہ اب کوئی بھی کچھ سمجھنے سے قاصر ہے۔ تمام معاملات ایک دوسرے میں یوں کُھب گئے ہیں کہ الگ ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ سیاست دانوں کی اداکاری اور ریاستی مشینری کے غیر انسان دوست رویے نے عوام کا بھرکس نکال دیا ہے۔ قومی مفادات ایک طرف رہ گئے ہیں اور تمام معاملات ذاتی مفادات کے گرد گھوم رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں تمام معاملات ملک و قوم کے اجتماعی مفاد کے خلاف جاتے ہوئے لگتے ہیں۔ سیاست دانوں نے اپنے ذاتی کاروبار بڑھانے رہنے کو ترجیح دی ہے اور ریاستی مشینری سے جُڑے ہوئے بڑوں نے صرف یہ طے کر رکھا ہے کہ انگلی تھوڑی سی ٹیڑھی کرکے گھی کے ریلے کا رخ اپنی طرف کرنے میں کچھ ہرج نہیں۔ ذاتی مفادات کے تحت کام کرنے کے چلن نے ملک کو ایک طرف ہٹادیا ہے۔ قوم سوچتی ہی رہتی ہے کہ اچھے دن کب آئیں گے اور تمام اچھے دن سیاست دان اور کارپردازانِ ریاست اپنے نام کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔
ہم اس وقت قسمت کے اندھے موڑ پر کھڑے ہیں۔ ایک مدت سے ملک کے منفرد اور انتہائی مفید و کارگر محلِ وقوع کا راگ الاپا جارہا ہے۔ مغرب نے ہم سے جو بھی فائدہ اٹھایا ہے وہ محلِ وقوع یعنی سٹریٹجک ویلیو کے حوالے سے تھا۔ اب ہم مغرب کے لیے زیادہ کارآمد نہیں رہے۔ عالمی سیاست و معیشت کا سینٹر آف گریویٹی تبدیل ہو رہا ہے تو چین اور روس مل کر پاکستان پر متوجہ ہیں۔ بڑی طاقتوں کے درمیان گِھرے ہوئے ہونے کا احساس یا تاثر اب ختم ہونا چاہیے۔ ہم کب تک اپنے بارے میں یہ سوچتے رہیں گے کہ رضیہ غنڈوں میں پھنس گئی ہے؟ تدبیر سے‘ بگڑی ہوئی تقدیر بنانے کا وقت آگیا ہے۔ اس حوالے سے سوچ بدلنے اور زیادہ سے زیادہ حقیقت پسند ہونے کی ضرورت ہے۔ قومی غیرت کا اولین تقاضا ہے کہ پہلے باطن کی درستی پر توجہ دی جائے۔ دنیا ظاہر کو دیکھ رہی ہے مگر ہمیں باطن پر زیادہ متوجہ رہنا ہے۔ اگر ہم باطن کو بدل کر روش تبدیل نہیں کریں گے تو ہم سے وہی کام لیے جاتے رہیں گے جو تاحال لیے جارہے ہیں۔ اپنی خامیاں دور ہوں گی تو آئندہ ''کرائے کے قاتل‘‘ کے طور پر استعمال کیے جانے کی راہ مسدود ہوگی۔
چین اور روس کے معاملے میں گھبرانے کی نہیں بلکہ اُن کے ساتھ مل کر چلنے کی ضرورت ہے۔ یورپ اب تک امریکا کا ''پوڈل‘‘ بن کر چلنے پر مجبور ہے۔ برطانیہ نے کھیل زیادہ خراب کیا ہے۔ جرمنی، فرانس اور دیگر یورپی قوتیں چاہتی ہیں کہ امریکا اُن کے فیصلوں پر اثر انداز ہونا چھوڑ دے یا پھر اپنی پالیسیاں تبدیل کرے تاکہ مختلف خطوں کا عدم استحکام ختم ہو۔ ہمیں یورپ سے سبق سیکھتے ہوئے اپنے رویوں کی اصلاح کرنی چاہیے۔ اب ہمیں بہت حد تک برابری کی سطح پر جاکر بات کرنی ہے اور برابری کی سطح ہی پر یعنی عزتِ نفس برقرار رکھتے ہوئے کام کرنا ہے۔
یہ سب کچھ ایسا آسان نہیں جیسا دکھائی دیتا ہے۔ بہت کچھ ہے جو انتہائی دشوار ہے اور اِسی مناسبت سے محنت طلب بھی ہے۔ یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ جب کام شروع کیا جاتا ہے تو ہو ہی جاتا ہے۔ اگر ٹارگٹ 300 رنز کا ہو تو ابتدا بہرحال صفر سے ہوتی ہے۔ رنز بنتے جاتے ہیں اور ہدف قریب آتا جاتا ہے۔ یہ بات عمران خان سے زیادہ کون جانتا ہوگا؟ ہم ایک بار پھر قسمت کے اندھے موڑ پر کھڑے ہیں۔ اِس موڑ پر ہمیں بہت احتیاط سے طے کرنا ہے کہ کس طرف جانا ہے کیونکہ آگے کچھ خاص دکھائی نہیں دے رہا۔ اور امکانات بہرحال موجود ہیں جن سے فائدہ اٹھانے کے بارے میں تو سوچا جانا ہی چاہیے۔ پھر کسی کھائی میں گرنے سے بچنے کے لیے لازم ہے کہ تمام حالات کا جائزہ لے کر، تجزیہ کرکے خالص معروضی سوچ اپنائی جائے اور خوب سوچ سمجھ کر پیش قدمی کی جائے۔