"MIK" (space) message & send to 7575

تعلیم کا ہدف

ہم تعلیم کے مرحلے سے کیوں گزرتے ہیں؟ یہ سوال جتنا اہم ہے ‘اُتنا ہی نظر انداز کردہ بھی ہے۔ ہم زندگی بھر خدا جانے کن کن مسائل سے الجھتے رہتے ہیں ‘مگر کبھی اُن مسائل کے مؤثر اور پائیدار حل کو یقینی بنانے سے متعلق پڑھنے اور سیکھنے پر متوجہ نہیں ہوتے۔ کسی بھی شعبے کے حوالے سے علم کا حصول اور اس حوالے سے تربیت ہمیں مسائل کا حل تلاش کرنے اور اُن کے مطابق باعمل ہونے کی تحریک دیتی ہے؛اگر ہم یہ طے کرلیں کہ کچھ نہیں سیکھنا ہے تو پھر ہم کچھ بھی نہیں سیکھتے اور یوں بھی سوال صرف سیکھنے کا ہے‘ نہ سیکھنے کا آپشن تو ہم میں ''بلٹ اِن‘‘ ہے۔ 
تعلیم کے حوالے سے دو بڑے مغالطے عام ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہم سکول‘ کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر جو کچھ بھی سیکھتے ہیں ‘وہ ملازمت کے حصول یا کیریئر کے لیے ہے اور دوسرے یہ کہ جو کچھ تعلیمی اداروں میں سکھایا جاتا ہے‘ وہ ڈھنگ سے زندگی بسر کرنے کیلئے انتہائی کافی ہے۔ 
تعلیم کا بنیادی مقصد عام سے انسان کو ہر اعتبار سے مفید انسان بنانا ہے۔ کوئی بھی تعلیمی ادارہ انسان کو محض نوکری کیلئے نہیں‘ بلکہ ڈھنگ سے زندگی بسر کرنے کے قابل بناتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ باضابطہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد حاصل ہونے والی اسناد ملازمت کے حصول اور کیریئر کو پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں‘ مگر یہ سمجھ لینا انتہائے حماقت کے ذیل میں آئے گا کہ باضابطہ تعلیم صرف ذریعۂ معاش کی تلاش آسان بنانے کیلئے ہوتی ہے۔ 
ہم تعلیمی اداروں میں جو کچھ سیکھتے ہیں‘ وہ زندگی کو زیادہ بامعنی اور بامقصد بنانے کیلئے ہوتا ہے۔ باضابطہ تعلیم ہمیں بیشتر معاملات میں نظم و ضبط اور اصولوں کا پابند بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے اور یوں ہم میں بھرپور زندگی بسر کرنے کیلئے درکار اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ 
گزشتہ دنوں خاصی مدت کے بعد بھائی ارشاد سے ملاقات ہوئی۔ ہم نے‘ حسبِ مزاج‘ اُن سے کہا کہ آپ کا گھر تو خاصا پُراَسرار ہے۔ وہ چونکے تو ہم نے یاد دلایا کہ اُن کے والد کا نام اَسرار ہے! بھائی ارشاد ‘ماربل؛یعنی سنگِ مرمر کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ وہ صنعت کار بھی ہیں اور برآمدی تاجر بھی۔ صنعت کار وہ یوں ہیں کہ بالائی علاقوں سے سنگِ مرمر منگواکر اُن سے مختلف آئٹم تیار کرواتے ہیں اور پھر یہ آئٹم برآمد کرکے برآمدی تاجر کے درجے پر بھی فائز ہیں۔ صد شکر کہ اللہ نے ہاتھ پکڑ رکھا ہے ‘اس لیے مشکلات کا زمانہ پیچھے رہ گیا ہے‘ یعنی اب خاصی متموّل زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کبھی کبھی یونہی بیٹھے بیٹھے خیال آتا ہے کہ اگر کبھی ہم حالات سے بہت تنگ آگئے تو (اپنا) سَر پھوڑنے کے لیے بھائی ارشاد سے مہنگے ترین ماربل کا ٹکڑا مانگیں گے۔ زندگی سنگ و خِشت کی سی گزری ہے‘ تو کیا ہوا‘ موت تو فرسٹ کلاس اور شاہانہ دکھائی دینی چاہیے! 
تعلیم کی بات چلی تو ہم نے بھائی ارشاد سے پوچھا کہ بچے کیا پڑھ رہے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ بیٹی ڈینٹیسٹ بننے کے مرحلے میں ہے اور بیٹا تعلیم کے عمومی مرحلے سے گزر رہا ہے۔ ہم نے اُن کے گوش گزار کیا کہ تعلیم کسی نہ کسی مقصد کے تحت ہوتی ہے اور اسی طور کی جانی چاہیے۔ (واضح رہے کہ قواعد انشاء کے اعتبار سے تعلیم دی نہیں‘ کی جاتی ہے!) اور یہ کہ تعلیم کا بنیادی مقصد معاش کے مسئلے کو حل کرنے سے کہیں بڑھ کر زندگی کے مسئلے کو حل کرنا ہے‘ جس کے پاس علم ہوتا ہے وہ بچوں میں اعتماد پیدا کرتا ہے‘ اُنہیں سَر اٹھاکر جینے کے قابل بناتا ہے۔ ڈھنگ سے حصولِ علم یقینی بنانے کے بعد بچے جب عملی زندگی کے میدان میں قدم رکھتے ہیں تو بالعموم مار نہیں کھاتے۔ ساتھ ہی یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ ڈھنگ سے اور کافی علم حاصل کرنیوالے وقت کے درست موڑ پر درست فیصلے کرنے کا وصف اپنے اندر پیدا کرنے میں کامیاب رہتے ہیں اور یہ وصف زندگی کو درست سمت میں گامزن رکھنے میں انتہائی کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ 
بھائی ارشاد سے جب تعلیم پر بات چلی ‘تو ہم نے اس نکتے پر زور دیا کہ اب آپ کو یہ ضرور طے کرنا چاہیے کہ آپ کے بچے پڑھیں تو کیوں پڑھیں۔ اُن کے استفسار پر ہم نے سلسلۂ کلام آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اب آپ مالی اعتبار سے انتہائی مستحکم حیثیت کے حامل ہیں۔ سکول اور کالج کے زمانے میں بیشتر کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ سند کی مدد سے بہتر ذریعۂ معاش یقینی بنائیں۔ بھائی ارشاد کے بچے اس مرحلے سے گزر چکے ہیں یا یوں کہیے کہ اُنہیں اس مرحلے سے فی الحال گزرنا ہی نہیں۔ اُن کے بچوں کو اب کمانے کے لیے نہیں ‘بلکہ برسوں کی محنت سے کمائی ہوئی مالی حیثیت کو برقرار رکھنے یا مزید پروان چڑھانے کے لیے پڑھنا ہے! یعنی یہ نکتہ ان بچوں کے ذہن نشین رہنا چاہیے کہ جو کچھ والد اور اُن کے والد نے کرلیا ہے ‘اُسے بہر طور برقرار رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہے۔ اب بھائی ارشاد کے بچوں کی پیشہ ورانہ تعلیم بھی ‘اسی نکتے کے تحت کی جانی چاہیے کہ اُن میں کاروباری نقطۂ نظر سے حقیقی اور دیرپا نوعیت کی بصیرت پیدا ہو۔ 
ہمارے معاشرتی ڈھانچے میں اب تک عوام کسی خاص شعبے یا سمت میں علم کا حصول اور پھر اُس کے مطابق تربیت یقینی بنانے کے حوالے سے خاطر خواہ حد تک سنجیدہ نہیں ہو پائے ہیں۔ بچہ سکول میں کیا پڑھتا ہے‘ کالج کی سطح پر وہ کس سمت جارہا ہوتا ہے اور یونیورسٹی میں جن امور پر دھیان دیتا ہے ... یہ تمام امور عام آدمی کے لیے ذرا بھی اہمیت نہیں رکھتے۔ وہ کسی بھی تعلیمی ادارے میں بچوں کو داخلہ دلانے کے بعد وہ بے نیاز سا ہو جاتا ہے۔ جب والدین متوجہ نہیں ہوتے تو اساتذہ کا بھی کچھ ایسا ہی رویہ ہو جاتا ہے۔ وہ کسی پر خاص توجہ نہیں دیتے۔ وہ بظاہر سوچے سمجھے بغیر پڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ ؎ 
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی 
ہم نے تو دل جلاکے سرِعام رکھ دیا! 
تعلیم کا معاملہ ''از خود‘‘ والا نہیں۔ پڑھانے والے کو بھی کسی نکتے پر توجہ مرکوز کرنا پڑتی ہے اور پڑھنے والوں کو تو خیر کوئی نہ کوئی واضح ہدف متعین کرنا ہی چاہیے۔ وہ اِس منزل سے گزرنے ہی پر تو پڑھانے والے سے ڈھنگ کے سوال کرکے اپنی تشفّی کرسکے گا۔ بھائی ارشاد اچھی طرح جانتے ہیں کہ سنگِ مرمر کے بے ہنگم ٹکڑے سے خوبصورت گلدان کس طور کشید کیا جاتا ہے۔ بس‘ یہی کام تعلیم کا ہے۔ وہ بھی انسان کے اندر چُھپے ہوئے گلدان کو باہر لاتی ہے۔ 
جس طور بھائی ارشاد کو اپنی اولاد کی مؤثر تعلیم کیلئے کوئی بلند تر ہدف مقرر کرنا چاہیے‘ اُسی طور ہم سب پر بھی لازم ہے کہ بچوں کو مثالی زندگی کیلئے تیار کریں۔ پہلے کسی کی بے مثال کامیابی کو مثال بناکر آگے بڑھنا ہوتا ہے اور پھر اتنی محنت کرنا ہوتی ہے کہ انسان خود مثال بن جائے۔ تعلیم کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ انسان کا پورا وجود تقویت پائے۔ محض دو وقت کی روٹی کمانے کے قابل ہو پانا تعلیم کے کھاتے میں ڈالا جانے والا بہت چھوٹا ٹاسک ہے۔ تعلیم زندگی کے ہر شعبے کے لیے ہوتی ہے‘ تاکہ ظاہر و باطن کی بھرپور ہم آہنگی کے ساتھ پوری شخصیت استحکام کی منزل تک پہنچے۔ ہمیں آنے والی نسل کو یہ نکتہ ذہن نشین کرانا ہے کہ کسی بھی تعلیمی ادارے سے صرف سند کا حصول زندگی کا بنیادی مقصد و محور نہیں‘ بلکہ شخصیت کی تشکیل و تہذیب مقصود ہے۔ روح کی حقیقی طمانیت تو اِسی طور ممکن ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں