عمل کی دنیا بہت کچھ مانگتی ہے‘ جسے کچھ پانا ہو اُسے بہت کچھ کرنا ہی پڑتا ہے۔ دنیا میں جتنی بھی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں وہ انسانوں ہی کی محنت کا نتیجہ ہیں‘ مگر اس حقیقت سے بھی کون انکار کرسکتا ہے کہ انسان ہی قیامت خیز تن آسانی کا دلدادہ بھی واقع ہوا ہے! سہل پسندی اور سہل انگاری اُس کے خمیر میں رچی بسی ہوئی ہے۔ ہاتھ پیر ہلائے بغیر بہت کچھ پانے کی تمنّا دلوں میں انگڑائیاں لیتی رہتی ہے۔
کسی بھی شعبے میں کامیابی کا حصول جامع منصوبہ بندی اور پھر اُس کے مطابق عمل کا متقاضی ہے۔ کامیابی کوئی راستے میں پڑی ہوئی چیز نہیں کہ رُکے‘ جُھکے اور اُٹھاکر آگے بڑھ گئے۔ پہلے مہارت کے حصول کے لیے وقت لگانا پڑتا ہے اور پھر مہارت کو بروئے کار لانے‘ یعنی محنت کرنے پر عمر صرف کرنا ہوتی ہے۔ ایک زمانے تک ان تھک محنت کو شعار بنانے کے بعد کچھ حاصل ہو پاتا ہے اور پھر اُسے برقرار رکھنے پر مزید‘ یعنی الگ سے محنت کرنا پڑتی ہے‘ یعنی یہ زندگی بھر کا معاملہ ہے۔
انسان تن آسانی کا خواہش مند و خُوگر ہے۔ ہر معاملے میں آسانی تلاش کرنا اُس کی عادت ہی نہیں‘ مزاج و فطرت ہے۔ یہی سبب ہے کہ زیادہ ہاتھ پیر ہلائے بغیر بہت کچھ پانے کی خواہش دل میں انگڑائیاں لیتی رہتی ہے اور انسان اس خواہش کا غلام بن کر عمل کی دنیا سے دور بھاگتا رہتا ہے۔
عمل سے دوری کو درست ثابت کرنے اور اپنی تن آسانی کا معقول جواز پیدا کرنا بھی انسان کیلئے ایک بڑا مشغلہ رہا ہے۔ ''عجیب الفطرتی‘‘ ملاحظہ ہو کہ حرام طریقے اختیار کرنے پر جس قدر محنت کی جاتی ہے‘ اُس سے کہیں کم محنت کے ذریعے حلال طریقے سے رزق حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ایسا ہی معاملہ محنت کا بھی ہے۔ وقت ہو تب بھی لوگ محنت کرنے سے یوں کتراتے ہیں گویا محنت کرنے کی صورت میں پابندِ سلاسل کیے جانے کا اندیشہ ہو! طرفہ تماشا یہ ہے کہ جتنی محنت واقعی محنت کرنے پر لگتی ہے‘ اُس سے کہیں زیادہ محنت اِسی محنت سے بچنے کے جواز تلاش کرنے پر کی جاتی ہے!
باعمل ہونے اور محنت کرنے سے بچنے کے لیے انسان سو جتن کرتا ہے۔ میدانِ عمل میں قدم رکھنے سے بچنا اُس کے لیے قدم قدم پر ''مشن‘‘ کا درجہ رکھتا ہے۔ وہ بات بات پر محنت سے کتراتا اور بھاگتا ہے۔ محنت کرنے والوں کو دیکھ کر بھی کچھ نہیں سیکھا جاتا۔ جو اپنی زندگی کو بامقصد اور ثمر بار بنانے کیلئے دن رات ایک کردیتے ہیں‘ اُنہیں بالآخر کچھ نہ کچھ حاصل ہو رہتا ہے۔ قدرت کا یہی اصول ہے۔ دل خراش حقیقت یہ ہے انسانوں کی اکثریت کو قدرت کا یہ اصول پسند نہیں۔ یہی سبب ہے کہ محنت سے قدم قدم پر جان چھڑانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ محنت سے بچنے کے لیے ایسا کیا کیا جائے کہ کوئی معترض نہ ہو‘ استفسار نہ کرے‘ تنقید و تضحیک سے باز رہے؟ مظلومیت کا لبادہ حاضر ہے۔ یہ لبادہ اوڑھیے اور دنیا کی نگاہوں سے اوجھل ہو جائیے۔ جب انسان محنت سے بچنا چاہتا ہے ‘تو اس امر کا اہتمام کرتا ہے کہ کوئی محنت سے بچنے کا طعنہ نہ دے۔ ایسا اُسی وقت ممکن ہے جب ہر معاملے میں مظلومیت کا ڈھونگ رچایا جائے‘ لوگوں کو باور کرایا جائے کہ زمانے کا ہر ظلم سہنے کے بعد اب اتنی سکت رہی نہیں کہ کچھ کیا جائے‘ زندگی کو بامعنی و بامقصد بنانے پر توجہ دی جائے۔
انسان اپنے ماحول پر نظر ڈال کر اس امر کا جائزہ لیتا رہتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ آسانی کہاں کہاں میسر ہوسکتی ہے۔ ماحول آسانیاں بھی دیتا ہے‘ مگر قدم قدم پر صرف آسانیاں یقینی نہیں بنائی جاسکتیں۔ عمل کے بازار میں کچھ سستا ہے تو کچھ مہنگا۔ خریداری وہی کرسکتا ہے‘ جس کے پاس عمل پسندی کی کرنسی ہو۔ زندگی کا ہر معاملہ قدم قدم پر عمل پسند رویے کا تقاضا کرتا ہے۔ وہی پاتے ہیں جو کچھ کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور محض یقین رکھنا کافی نہیں۔ سوال عمل کا ہے۔ محض کہہ دینے یا دعوے کرنے سے عمل کا حق ادا نہیں ہو جاتا۔ عملی زندگی وہ ہوتی ہے جس میں انسان ضرورت کے مطابق‘ عمل کرے اور محنت کرنے سے ذرا بھی جی نہ چرائے۔
محنت سے جی چرانے والے ہر معاشرے میں ہوتے ہیں۔ بعض معاشروں میں ایسے افراد کی تعداد تشویشناک حد تک زیادہ ہے۔ پاکستانی معاشرہ بھی سرِدست اِسی مسئلے سے دوچار ہے۔ بات بات پر مظلومیت کا راگ الاپنا فطرتِ ثانی میں تبدیل ہوچکا ہے۔ یہ چلن عام کیوں نہ ہو کہ اِس میں کچھ خاص محنت لگتی ہے ‘نہ لاگت ہی کا مسئلہ کھڑا ہوتا ہے۔ جب بھی کسی کو ضرورت محسوس ہو ایک خاص طرح کا شکست خوردہ سا لہجہ اختیار کرے‘ مِنمِناتی ہوئی آواز میں اپنی بات کہے اور جہاں تک ممکن ہو اپنے اندازِ گفتگو اور طرزِ عمل سے شدید انفعال کا اظہار کرے اور پھر دیکھے کہ ہمدردی کے ڈونگرے کس طور برستے ہیں۔
مظلومیت کی نفسیات یہ ہے کہ سب کی نظر میں شکست خوردہ رہیے۔ اس سے آسان حربہ کیا ہوسکتا ہے؟ جنہیں کچھ بھی کرنے سے غرض نہ ہو‘ وہ ہمدردیاں بٹورنے پر یقین رکھتے ہیں۔ ہمدردیاں بٹورنے کے عمل میں ملتا بھی بہت کچھ ہے اور کرنا بھی کچھ نہیں پڑتا۔ ہاں‘ عزتِ نفس ضرور داؤ پر لگ جاتی ہے۔ خیر‘ کچھ لوگ یہ طے کرلیتے ہیں کہ عزت کا کیا ہے‘ وہ تو آنی جانی چیز ہے‘ مگر ہاں‘ بندے کو ''ثابت قدم‘‘ رہنا چاہیے!
مظلومیت کی نفسیات در حقیقت عمل کے جاں گُسل مرحلے سے گزرنے سے بچنے کا مقبول ترین طریقہ ہے۔ کون نہیں جانتا کہ زندگی کو قابلِ رشک بنانا کسی بھی اعتبار سے کوئی آسان کام نہیں۔ ایسا کرنے میں عمریں کھپ جاتی ہیںاور اس طور جینے کا مزا بھی کچھ اور ہے کہ کوئی ایک بڑا ہدف متعین کیجیے اور اس کے حصول کیلئے پوری تندہی سے مصروفِ عمل ہو جائیے۔ یہ کام چونکہ محنت طلب ہے اس لیے کم ہی لوگ اِس وادیٔ پُرخار میں قدم رکھتے ہیں۔ اور بقول فرحت شہزاد زندگی شکایت ہی کرتی رہ جاتی ہے ؎
یہ کیا کہ چند ہی قدموں پہ تھک کے بیٹھ گئے
تمہیں تو ساتھ مِرا دُور تک نبھانا تھا
مظلومیت کو اپنی نفسی ساخت کا حصہ بناکر زندگی بسر کرنے والے در حقیقت زندگی کو برباد کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ معاملہ ''سلو پوئزن‘‘ کا سا ہوتا ہے‘ یعنی بہت تاخیر سے معلوم ہو پاتا ہے کہ اچھی خاصی خرابی واقع ہوچکی ہے اور جب خرابی کے تدارک کی فکر لاحق ہوتی ہے‘ تب تک پُلوں کے نیچے سے خاصا پانی بہہ چکا ہوتا ہے۔ ایسے میں کوئی مظلومیت کا لبادہ اتار کر ازالے کی خاطر عمل کا جامہ پہننا بھی چاہے ‘تو زندگی اپنی چال چلتی ہے اور بالعموم ایسا ہونے نہیں دیتی۔ مظلومیت کی نفسیات بالآخر انسان کے تمام اعلیٰ اوصاف کو نچوڑ کر پھینک دیتی ہے اور اس کے بعد وہ اپنی ہی چالوں میں گِھرتا چلا جاتا ہے۔ ع
لو‘ آپ اپنے دام میں صیّاد آ گیا
زندگی کا اصل حُسن در حقیقت حُسنِ عمل میں ہے‘ مظلومیت کا راگ الاپنے میں نہیں۔ ہمدردیاں بٹورکر زندگی کو گزارا نہیں‘ بلکہ صرف ضائع کیا جاسکتا ہے۔ انسان اس گڑھے سے جس قدر جلد نکل آئے‘ اُتنا ہی اچھا۔