"MIK" (space) message & send to 7575

ہم نے تو دِل جلاکے سرِعام رکھ دیا

جب تک سانس کی ڈوری ٹوٹتی نہیں‘ باقی دنیا سے تعلق بھی ختم نہیں ہوتا۔ جہاں تعلق ہوگا ‘وہاں محض تعلق نہیں‘ بلکہ اور بھی بہت کچھ ہوگا۔ دنیا کا نظام اسی طور چل رہا ہے۔ کچھ کھٹا‘ کچھ میٹھا۔ دنیا میں قیام کے دوران پیار سے سہلانے والے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں اور شرارت سے چٹکیاں بھرنے والے بھی۔ سبھی کچھ ایک جیسا چلتا رہے تو ایسی یکسانیت ہو کہ سانس لینا دُوبھر ہو جائے۔ 
بھری دنیا میں کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں‘ جس کی زندگی صرف سرد ہی سرد یا گرم ہی گرم ہو۔ زندگی سرد و گرم سے عبارت ہے۔ یہ تنوع ہی زندگی کا اصل حُسن ہے اور اِسی میں جینے کا حقیقی لطف مضمر ہے۔ مشکلات کے پہلو بہ پہلو آسانیاں بھی ہوتی ہیں اور آسانیوں کے جِلو میں مشکلات بھی چلتی رہتی ہیں۔ کوئی‘ اگر دنیا‘ بلکہ کائنات کے اس عمومی کُلیے کے خلاف جانا چاہے ‘تو منہ کی کھاتا ہے۔ 
ہم میں سے بہت سوں کی‘ بلکہ بیشتر کی زندگی آسانیاں تلاش کرتے گزر جاتی ہے۔ یہی اصل مشکل ہے۔ اگر قدم قدم پر صرف آسانیاں ہوں تو زندگی کا سارا حُسن اور لطف غارت ہو رہے‘ جس نے یہ راز جانا‘ وہ کامیاب ہوا۔ اصغرؔ گونڈوی نے خوب کہا ہے ؎ 
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے 
اگر آسانیاں ہوں‘ زندگی دشوار ہو جائے 
کیا آسانیوں کی خواہش کرنا غلط ہے یا جرم ہے؟ ہرگز نہیں‘مگر ہر معاملے میں صرف آسانی ڈھونڈنا غلط ہے‘ کیونکہ بعض معاملات فطری طور چند مشکل مراحل کے حامل ہوتے ہیں اور جب تک ان مراحل سے گزرا نہ جائے‘ تب تک معاملات الجھے ہی رہتے ہیں۔ آسانی تلاش کرنے یا اپنے لیے آسان راہ نکالنے کے نام پر لوگ بالعموم شارٹ کٹ تلاش کرتے ہیں۔ یہ روش غلط ہے۔ کسی بھی کام میں آسانی تلاش کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جو مراحل لازم ہیں‘ اُنہیں حذف کردیا جائے ‘بلکہ ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہر ناگزیر مرحلے سے گزرتے ہوئے ‘بھرپور لطف محسوس ہو‘ اسی طور معاشی سرگرمی راحت بخش عمل میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ شارٹ کٹ تلاش کرنے کی عادت معاملات کے ناگزیر مراحل کو حذف کرنے پر اُکساتی ہے اور یوں ہمیں وہ نتائج نہیں ملتے‘ جن کی ہم امید کر رہے ہوتے ہیں۔ 
خواہشات کی کوئی حد نہیں اور تنوع بھی اُتنا ہی ہے‘ اسی لیے تو غالبؔ نے کہا ہے۔ع 
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے 
ایک طرف خواہشیں بے حساب ہیں اور دوسری طرف ہماری سکت ہے کہ ایک خاص حد تک پہنچ کر دم توڑنے لگتی ہے اور پھر دم توڑ بھی دیتی ہے۔ جب جب ایسا ہوتا ہے تب تب معاملات ہم سے برداشت نہیں ہو پاتے اور ہم قدم قدم پر حسرت و یاس کی تصویر بن جاتے ہیں۔ یہ روش زندگی کیلئے زہر کے سوا کچھ نہیں۔ بات بات پر رنجیدہ‘ بے حواس اور مایوس ہو جانا ہماری تھوڑی بہت سکت کے شیشے کو بھی چکناچور کردیتی ہے۔ 
انسان کے بنیادی المیوں میں سرِ فہرست شاید یہ ہے کہ وہ ہر ناکامی کو زندگی کی سب سے بڑی ناکامی سمجھ بیٹھتا ہے۔ ہر بات اس لیے نہیں ہوتی کہ اُس پر رنجیدہ ہوا جائے‘ دکھ محسوس کیا جائے‘ دل جلایا جائے۔ راستے میں بکھرے ہوئے کانٹے الجھن پیدا کرتے ہیں اور ہمیں اُن سے بچتے ہوئے چلنا پڑتا ہے۔ کانٹوں سے بچنا ہی چاہیے‘ مگر یہ کیا کہ انسان کانٹوں سے بچنے کی کوشش کرے‘ اُس کوشش میں کامیاب بھی ہو اور پھر اچھا خاصا وقت اور توانائی کانٹوں کے حوالے سے رنجیدہ رہنے اور گِلے شِکوے کرنے پر بھی ضائع کرے! اگر معاملہ یہ ہوتو سمجھ لینا چاہیے کہ کانٹے ختم نہیں ہوئے‘ اُنہوں نے صرف مقام بدلا ہے‘ یعنی راستے سے اُٹھ کر اب دماغ میں گُھس گئے ہیں! 
آج ہمارے ماحول میں عمومی گفتگو کا اچھا خاصا حصہ قدم قدم پر پیش آنے والی مشکلات کا دکھڑا رونے پر صرف ہو رہا ہے۔ معاشرہ من حیث المجموع شکایتی مزاج کے پنجرے میں قید ہوکر رہ گیا ہے۔ بہت سے بڑے معاملات واقعی اس قابل ہوتے ہیں کہ اُن کے ہاتھوں پیدا ہونے والی رکاوٹوں اور دشواریوں پر دکھ محسوس کیا جائے‘ اُن کا رونا رویا جائے۔ اور یہ سب کچھ بھی اِس مقصد کے تحت ہو کہ کوئی راہ نکل آئے۔ محض رونے سے کچھ نہیں ہوتا۔ ؎ 
حل کرنے سے حل ہوتے ہیں پیچیدہ مسائل 
ورنہ تو کوئی کام بھی آساں نہیں ہوتا 
آج ہم یہ طے کر بیٹھے ہیں کہ کسی بھی مسئلے کا معقول اور قابلِ عمل حل تلاش کرنے سے زیادہ توانائی اُس مسئلے کا تجزیہ کرتے رہنے اور اُس کے نام پر آنسو بہانے پر صرف کرنی ہے۔ اِس روش پر گامزن رہنے کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ جہاں چند افراد مل بیٹھتے ہیں‘ باتوں ہی باتوں میں بات ذاتی پریشانیوں اور الجھنوں تک جاپہنچتی ہے اور پھر صرف گِلوں‘ شِکووں کا دریا بہنے لگتا ہے۔ ہر آدمی اپنی پریشانی اور ناکامی کا جواز بیان کرنے لگتا ہے۔ مظلوم بننے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے تاکہ یہ تاثر پیدا کرنا آسان ہو کہ جو کچھ بھی ہوا ہے اُس میں اپنا کم اور زمانے کا قصور زیادہ ہے۔ گھریلو محفل ہو یا ہوٹل پر پایا جانے والا جمگھٹ‘ ہر جگہ معاملہ رونے پیٹنے سے شروع ہوکر رونے پیٹنے پر ختم ہوتا ہے۔ اپنی پریشانیوں اور غموں کا قصہ ایسی روانی سے بیان کیا جاتا ہے کہ ازمنۂ قدیم کے داستان گو دیکھیں تو اپنی نام نہاد مہارت پر شرمندہ ہوں! ہر شخص چاہتا ہے کہ اپنے ہر غم کو کھل کر بیان کرے تاکہ ایک دُنیا ''مستفید‘‘ ہو! ؎ 
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی 
ہم نے تو دِل جلاکے سرِعام رکھ دیا 
ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ غم اُسے ملے ہیں اور روئے ارض پر اُس سے زیادہ ستم رسیدہ کوئی نہیں۔ اس روش پر گامزن رہنے سے اور کچھ ہو نہ ہو‘ اپنی ہر ناکامی کا جائز و ناجائز جواز تلاش کرنا ضرور ممکن اور آسان ہو جاتا ہے۔ اور اِس کے بعد اِنسان اپنے افکار و اعمال پر نوحہ کُناں رہنے تک محدود ہو جاتا ہے‘ عمل کی طرف مائل نہیں ہو پاتا۔ 
اپنے اعمال کے غیر مطلوب نتائج کا جواز پیش کرتے رہنے کی عادت انسان کو ذوق و شوقِ عمل سے دور لے جاتی ہے۔ پھر یہ ہوتا ہے کہ انسان کو اِسی عمل میں لطف محسوس ہونے لگتا ہے۔ آج ہم اپنے معاشرے کے پسندیدہ ترین مشاغل کی فہرست مرتب کریں تو حالات کا رونا رونے کے چلن کو ٹاپ فائیو میں ضرور جگہ ملے گی! 
جو کچھ ہوچکا ہے وہ کیسا ہی رنج فزا سہی‘ اپنی اصل کے اعتبار سے اِسی قابل ہے کہ نظر انداز اور فراموش کردیا جائے۔ کسی نے خوب کہا ہے ؎ 
گزر گیا جو زمانہ اُسے بُھلا ہی دو 
جو نقش بن نہیں سکتا اُسے مِٹا ہی دو! 
گزرے ہوئے اعمال کی اصلاح سعیٔ لاحاصل ہے۔ جس طور پانی پر اُبھرنے والا نقش برائے نام بھی پائیدار نہیں ہوتا بالکل اُسی طور گزرے ہوئے زمانے کی اصلاح کا تصور بھی دیوانے کے خواب سے زیادہ کچھ نہیں۔ بات بات پر دل جلاکر سرِعام رکھنے سے کہیں بہتر یہ ہے کہ اپنے باطن کو جگمگانے کا اہتمام کیا جائے تاکہ مسائل کے حل کی راہ سُوجھے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں