دنیا بھر میں واضح طور پر اگر دکھائی دیتا ہے‘ تو صرف عمل۔ ہم عمل کی دنیا میں جی رہے ہیں۔ دل چاہے کہ نہ چاہے‘ ہر انسان کو کسی نہ کسی حد تک باعمل ہونا پڑتا ہے۔ عمل کے بغیر ہم کسی کے لیے کام کے ہیں نہ کوئی ہمارے لیے۔ اس ''عمل سَرا‘‘ کوئی چیز اگر دیکھی اور گِنی جاتی ہے‘ تو صرف عمل ہے۔ کبھی آپ نے اس حقیقت پر غور کیا ہے کہ اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ باعمل ثابت کرنے اور زندگی سے خاطر خواہ فوائد حاصل کرنے کے لیے لوگ کچھ بھی کر گزرتے ہیں۔
عمل کا معاملہ ہے بہت عجیب۔ دن رات باتیں بنانے والے بھی کچھ نہ کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ عمل سے یکسر گریز کرنے والوں کو بھی اندازہ ہے کہ اگر کچھ نہ کیا تو بہت پیچھے رہ جانا یقینی ہے‘ تو پھر سوال یہ ہے کہ آخر کیوں لوگ عمل سے گریزاں رہتے ہیں۔
ایک زمانے سے دنیا بھر کے ماہرین اس امر کے لیے کوشاں ہیں کہ لوگوں کو کام کرنے کی تحریک دی جائے۔ اس حوالے سمعی و بصری مواد کی کمی نہیں۔ آج دنیا بھر میں لوگ عمل کے لیے تحریک چاہتے ہیں۔ اس مقصد کا حصول یقینی بنانے کے لیے وہ بہت کچھ پڑھتے ہیں‘ سنتے ہیں‘ سیمینارز میں شریک ہوتے ہیں‘ کورسز کا حصہ بنتے ہیں‘ تربیتی سیشنز میں حصہ لیتے ہیں۔ اس کے باوجود کام کرنے کی حقیقی تحریک کم ہی لوگوں کو مل پاتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟
بات کچھ یوں ہے کہ دنیا بھر میں لوگ کام کرنے کے حوالے سے اتنا کچھ پڑھتے اور سُنتے ہیں کہ الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ بہتر زندگی یقینی بنانے کے لیے عمل پر زور دیا جاتا ہے۔ عمل کو یقینی بنانے کے لیے ایسا لٹریچر تیار کیا جاتا ہے‘ جو پڑھنے والوں کے دل و دماغ میں ہلچل مچادے‘ مگر یہ ہلچل کم ہی ذہنوں میں مچتی ہے۔ لوگ بہت کچھ پڑھتے ہیں اور لطف بھی کشید کرتے ہیں مگر پھر جھاگ بیٹھ جاتا ہے۔ بہت کوشش کرنے پر بھی لوگ اپنے اندر کام کرنے کی بھرپور لگن پیدا کرنے میں عمومی سطح پر ناکام رہتے ہیں اور اس کا بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ عمل کو فیصلہ کن عنصر یا عامل کی حیثیت سے قبول کرنے میں تامّل اور تساہل کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔
آپ جس ماحول میں کام کرتے ہیں‘ اُس میں بہت سے لوگ عمل کے حوالے سے خاصے پیچھے ہوں گے۔ پورے ماحول کا ذرا سنجیدگی اور گہرائی سے جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ کام کرنے کی حقیقی اور مطلوب لگن مجموعی طور پر صفر کی سطح پر ہے۔ آپ کے ادارے نے بھی بھرپور کوشش کی ہوگی کہ لوگ زیادہ سے زیادہ متحرک ہوں‘ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں‘ کچھ کرکے دکھائیں۔ بہت کوشش کرنے پر بھی کچھ نہیں ہو پاتا‘ کیوں؟ کیا اس لیے کہ لوگ کچھ کرنا ہی نہیں چاہتے؟ یا کوئی اور سبب ہے؟
بات یہ ہے کہ کام کرنے کی لگن کا گراف نیچے ہونے کے اسباب تلاش کرتے وقت یہ حقیقت نظر انداز کردی جاتی ہے کہ آج کی دنیا میں انسان کے لیے بہت سے ایسے مسائل موجود ہیں ‘جن کا کل تک تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ میڈیا ہی کو لیجیے۔ دنیا بھر میں میڈیا کے ذریعے لوگوں کو اِس بُری طرح کنٹرول کیا جارہا ہے کہ دیکھ کر یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ افسوس ہو بھی تو کتنا ہو! اور اب سوشل میڈیا نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے۔ کہنے کو تو اب ہر فرد کو یہ آزادی میسر ہوئی ہے کہ جو کچھ بھی جی میں آئے لکھ دیا جائے اور عام بھی کردیا جائے۔ تصاویر اور آڈیو‘ ویڈیو کلپس بھی اپ لوڈ کرنے میں دیر نہیں لگائی جاتی‘ مگر مشکل یہ ہے کہ دوسروں کو متاثر کرنے والے خود بھی تو متاثر ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا ذہنوں کو گرفت میں لیے رہتے ہیں ‘جس کے نتیجے میں محض تعلقات ہی ‘بلکہ تعلقاتِ کار بھی متاثر ہوتے ہیں۔ مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا میں جو کچھ بھی آتا ہے‘ وہ سمجھنے اور سوچنے کی صلاحیت پر بُری طرح اثر انداز ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں کام کرنے کا جذبہ بھی سرد و گرم مراحل سے گزرتے گزرتے بالآخر سرد پڑتا جاتا ہے۔ ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ بہت سے لوگ بھرپور اور باعمل زندگی بسر کرنے کے معاملے میں اگر پیچھے رہ بھی جاتے ہیں تو اس میں اُن کا کچھ زیادہ قصور نہیں ہوتا۔ بہت کچھ ہے ‘جو اُن کے اختیار میں نہیں۔ معاشی ہی نہیں‘ معاشرتی حالات بھی اُن کے لیے پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔
آج کے انسان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ دل و دماغ پر سے فضول باتوں اور لایعنی معاملات کی گرد ہٹاکر اُنہیں عمل کی طرف مائل کرنا ہے۔ اس کام کے لیے ایک بھرپور تحریک چلائی جارہی ہے۔ یہ تحریک ہے تحریک دینے کی۔ انسان کو عمل کی تحریک دینے سے تعلق رکھنے والے ہر موضوع پر بازار میں سیکڑوں‘بلکہ ہزاروں کتابیں دستیاب ہیں۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر میں سیمینار ہو رہے ہیں‘ تربیتی سیشنز منعقد کیے جارہے ہیں‘جنہیں بولنے کا ہنر آتا ہے‘ وہ بول کر لوگوں کو جگانے کی کوشش کر رہے ہیں اور جو قلم چلانے کے ماہر ہیں‘ وہ تحریر کے نشتر سے بے عملی کے ناسور کو دل و ذہن سے نکال پھینکنا چاہتے ہیں‘پھر بھی خاطر خواہ نتائج پیدا نہیں ہو پارہے۔
لوگ کام کرنے کی تحریک چاہتے ہیں۔ اُنہیں اندازہ ہے کہ کام نہ کرنے سے‘ متحرک نہ ہونے سے کتنے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور کس کس طرح سے زندگی کو ناکامی کے گڑھے کی طرف دھکیلنے والی صورتِ حال پیدا ہوتی ہے۔ سوال پھر وہی ہے کہ لوگ یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی عمل کی طرف کیوں نہیں آتے اور بالعموم کام سے یا تو گریز کیوں کرتے ہیں یا پھر متحرک ہونے میں مطلوب حد تک سنجیدگی کا مظاہرہ کیوں نہیں کرتے؟
کسی کو عمل کی طرف مائل اور متحرک کرنے میں بالعموم ناکامی کیوں ہوتی ہے؟ ایسا کیوں ہے؟ اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ایک سوال کے بالکل درست جواب سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں اور اپنی اصلاح کی طرف بھی مائل ہوسکتے ہیں۔
آج دنیا بھر میں ایسی فلمیں بنائی جارہی ہیں ‘جن میں زندگی کا معیار بلند کرنے پر خاص زور دیا جاتا ہے۔ انسان کو اصلاح پر مائل کرنے اور کام کی تحریک دینے والی فلمیں ہالی وڈ میں بھی بنائی جارہی ہیں اور بالی وڈ میں بھی۔ کئی فلموں نے معاشرے کے اصل چہرے کو بے نقاب‘ خرابیوں کو طشت از بام کرکے لوگوں کو سوچنے پر مجبور کیا ہے۔ ایک عشرے سے بھی زائد مدت کے دوران بالی وڈ کی کئی فلموں میں نئی نسل کو عمل کی طرف مائل کرنے کا مرکزی خیال اپنایا گیا ہے۔ ''او مائی گاڈ‘‘، ''پپلی لائیو‘‘، ''تھری ایڈیٹس‘‘ اور ''دنگل‘‘ اس حوالے سے نمایاں ہیں۔ اسی نوع کی فلمیں دیکھ کر نئی نسل بہت کچھ سیکھتی ہے۔ اُس میں سمجھنے اور سوچنے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ کام کرنے کی لگن بھی پیدا ہوتی ہے اور اگر یہ اوصاف پہلے سے ہوں تو غیر معمولی تقویت پاتے ہیں۔
عمل کی حقیقی اور مطلوب لگن مشکل سے اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ ہم برسوں‘ بلکہ عشروں میں پنپ کر عفریت کی شکل اختیار کرنے والے مسائل کو پلک جھپکتے میں حل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ عجلت پسندی قدم قدم پر حوصلہ شکنی کا باعث بنتی ہے۔ فکر و عمل میں توازن پیدا کیے بغیر راتوں رات بہت کچھ کرنے کی کوشش بالآخر بے عملی کے موڑ پر چھوڑ جاتی ہے اور لوگ سوچتے ہی رہ جاتے ہیں ؎
جو زندگی کو ایک نئے رُخ پہ ڈال دے
وہ عزم‘ وہ تڑپ‘ وہ ارادہ کہاں سے لائیں؟