کم و بیش ڈیڑھ عشرے قبل ایک لہر سی اٹھی اور سب اُس میں بہنے لگے۔ یہ لہر تھی عالمگیریت کی۔ اہلِ مغرب اور بالخصوص بڑی طاقتوں نے یہ تصور عام کرنا شروع کیا کہ دنیا کو ایک لڑی میں پرونے کی ضرورت ہے۔ اس ضرورت کی غایت یہ بیان کی گئی کہ سب الگ الگ محنت کرتے ہیں تو کیوں نہ مل کریں‘ یعنی ٹیم ورک کا مظاہرہ کیا جائے ‘تاکہ پیداوار زیادہ ہو‘ محنت کے نتائج زیادہ بارآور ثابت ہوں۔
عالمگیریت کا تصور بہت پرکشش تھا ‘اس لیے دل نشیں بھی ٹھہرا۔ چھوٹی اور کمزور اقوام نے‘ اپنی سادہ لوحی کے ہاتھوں‘ سوچا کہ اب کچھ اچھے دن آئیں گے۔ ان اقوام کی قیادت کے ذہن میں شاید یہ تصور ابھرا تھا کہ عالمگیریت کے تحت جب تمام اقوام ایک لڑی میں پروئی جائیں گی‘ تو ٹیکنالوجی کے فوائد چھوٹی اقوام کو بھی حاصل ہوں گے اور وہ بھی بہتر زندگی بسر کرنے کے قابل ہوسکیں گی۔
یہ محض سراب تھا۔ چھوٹی اور کمزور اقوام کو مغرب کے پروپیگنڈے نے یقین دلادیا تھا کہ اب اُن کے پریشانی اور پس ماندگی کے دن پورے ہوئے اور بہتر طرزِ زندگی کی طرف بڑھنے کا مرحلہ آگیا ہے۔ عالمگیریت کے حوالے سے پروپیگنڈا کچھ ایسے دل کش انداز سے کیا گیا تھا کہ چھوٹی اقوام کا اس سراب کی نذر ہونا‘ حیرت انگیز نہ تھا۔
عالمگیریت کو یقینی بنانے کا تاثر دینے کے لیے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کا جال پھینکا گیا۔ اس جال میں بہت سے اقوام پھنس گئیں۔ یہ ادارہ بظاہر تجارت کو آزاد بنانے کی غرض سے قائم کیاگیا ‘مگر مقصودِ حقیقی یہ تھا کہ بڑی اقوام اپنے تجارتی مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کریں اور مل جل کر ایک ایسا نظام تیار کریں‘ جس میں تمام پس ماندہ اقوام پس ماندہ ہی رہیں‘ اُن کے پنپنے کی کوئی سبیل نہ نکلے۔
عالمگیریت کے نام پر جس ترقی اور خوش حالی کا خواب دکھایا گیا تھا ‘وہ اب تک محض خواب ہے اور اس خواب کے شرمندۂ تعبیر ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ نظر آئے بھی کیسے؟ اس خواب کو محض خواب رہنے دینے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ طاقتور ریاستیں چاہتی تھیں کہ ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ کے اس دور میں پس ماندہ دنیا کہیں کچھ سیکھ ساکھ کر آگے نہ آئے۔ مل جل کر کچھ سوچا گیا اور اس پر عمل بھی کیا گیا۔ اب یہ بات سبھی کی سمجھ میں آگئی ہے کہ دنیا جہاں تھی وہیں ہے اور طاقتور ممالک کی پروپیگنڈا مشینری دنیا کو کچھ کی کچھ دکھا رہی ہے۔
جی سیون‘ جی ایٹ‘ جی ٹوئنٹی اور اسی قبیل کی دیگر تنظیمیں دراصل دنیا کو ایک لڑی میں پرونے کے نام پر اپنے اپنے وسیع تر مفادات کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنانے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ بڑی طاقتوں نے یہ طے کر رکھا ہے کہ انتہائی پس ماندگی سے دوچار خطوں کو ابھرنے کا موقع نہیں دینا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے مستقل بنیاد پر سوچا جارہا ہے۔ ہتھکنڈے تیار کرکے آزمائے بھی جاتے ہیں۔ یہ عمل گھٹنے کے بجائے بڑھتا ہی جارہا ہے۔
امریکا اور چند یورپی ممالک نے اپنی طاقت میں تیزی سے رونما ہوتی ہوئی کمی کے پیش نظر ایسا بہت کچھ سوچا ہے ‘جس پر عمل کے ذریعے دنیا میں محض خرابیاں بڑھیں گی۔ سب سے بڑی مشکل مالیاتی نظام کی ہے۔ امریکی قیادت بھی اچھی طرح جانتی ہے کہ اب دنیا کو ڈالر کی بنیاد پر زیادہ دیر تک نہیں چلایا جاسکتا۔ عالمی مالیاتی نظام کے لیے کوئی ایسا بندوبست لازمی طور پر کرنا پڑے گا ‘جس میں سب کچھ ڈالر پر منحصر نہ ہو۔ ڈالر پر غیر معمولی انحصار پیچیدگی بڑھا رہا ہے۔ چین اور روس نے عالمی سیاست و معیشت کے حوالے سے پَر پھیلانے کا عمل تیز کردیا ہے۔ چین اقتصادی اور بالخصوص مالیاتی پہلو پر زیادہ زور دے رہا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ جنگ و جدل کے بغیر بہت کچھ کیا جائے اور اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تقویت اس طور بہم پہنچائی جائے کہ کسی اور کے لیے زیادہ الجھنیں پیدا نہ ہوں۔
روس کا معاملہ مختلف ہے۔ وہ عسکری طور پر مستحکم ہے اور اس حوالے سے اپنے آپ کو آزمانے سے گریز بھی نہیں کر رہا۔ مشرق وسطٰی اور مشرق بعید میں وہ اپنے عسکری عزائم کی رُو نمائی بھی کرچکا ہے‘ مگر خیر‘ ایسا نہیں ہے کہ روس کسی ملک پر لشکر کشی کے ذریعے اپنے مفادات کو محفوظ تر کرنے کے موڈ میں ہے۔ امریکا اب تک اس روش پر گامزن ہے ‘مگر روس بظاہر ایسا کچھ کرنے کے موڈ میں نہیں‘ وہ اُسی وقت متحرک ہوتا ہے جب امریکا اور یورپی طاقتیں اُس کے اپنے خطے میں کچھ تحرک دکھاتی ہیں۔
امریکا اور یورپ مل کر کوئی ایسا متبادل عالمی نظام تیار کرنا چاہتے ہیں‘ جس میں اُن کے لیے پنپنے کی گنجائش موجود رہے۔ چین اور روس مل کر جو بلاک تیار کر رہے ہیں‘ اُس کے مضبوط ہو جانے کی صورت میں امریکا کو غیر معمولی نقصان سے دوچار ہونا پڑے گا۔ یورپ کے لیے بھی مشکلات بڑھیں گی‘ مگر یورپ نے اپنے لیے تھوڑی بہت تیاری کر رکھی ہے۔ وہ کسی بھی بدلی ہوئی صورتِ حال کے تھوڑے بہت منفی اثرات بھی آسانی سے جھیل لے گا۔ مسئلہ امریکا کا ہے۔ وہ اپنی گھٹتی ہوئی طاقت کے باوجود طاقت کے زعم کو ختم نہیں کر پارہا۔ اکڑ وہی ہے۔ وہ اب بھی دھونس دھمکی کے ذریعے کام نکالنا چاہتا ہے۔ دنیا بدل گئی ہے‘ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اتنی بدل گئی ہے کہ پہچانی نہیں جاتی۔ ایسے میں وہی حکمتِ عملی کام کرے گی‘ جس میں دانش نمایاں ہوگی۔ عصری تقاضوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ امریکا ‘اگر اپنے ممکنہ نقصان کا گراف نیچے لانا چاہتا ہے‘ تو اُسے اپنی ہر حکمتِ عملی میں معقولیت کو راہ دینا ہوگی۔ معقولیت سے گریزاں رہتے ہوئے وہ اپنے لیے کچھ کرسکے گا۔
ترقی پذیر اور پس ماندہ خطوں کو اب اچھی طرح اندازہ ہوچکا ہے کہ عالمگیریت کے نام پر ایک جال بُنا گیا تھا ‘تاکہ اُنہیں پھنساکر رکھا جائے اور ایک ایسی دنیا تشکیل دی جائے ‘جس میں کمزوروں کے لیے کچھ زیادہ نہ ہو۔ یورپ نے وقت کی نزاکت کو زیادہ اور اچھی طرح سمجھ لیا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ عسکری مہم جوئی سے گریز کی راہ پر گامزن رہتے ہوئے کچھ ایسا کیا جائے کہ اپنے مفادات بھی محفوظ رہیں اور دنیا میں زیادہ بگاڑ بھی پیدا نہ ہو۔ چین کی طرح یورپ نے بھی سوفٹ پاور کا آپشن اختیار کیا ہے۔ وہ اپنے فائدے کا تو سوچتا ہے‘ مگر اس کے لیے کسی کو زیادہ نقصان پہنچانے کے موڈ میں نہیں‘ جس طور پاکستان میں میڈیا کا بلبلہ پھٹ رہا ہے‘ بالکل اُسی طور عالمگیریت کا بلبلہ بھی پھٹنے کی راہ پر گامزن ہے۔ آزاد تجارت کے نام پر کمزور اقوام کو مختلف پابندیوں میں جکڑنے کی امریکا اور اُس کے چند ہم خیال ممالک کی حکمتِ عملی اب طشت از بام ہوچکی ہے۔ ایسے میں ناگزیر ہے کہ ایک ایسا عالمی فورم تشکیل دیا جائے‘ جس میں معاملات حقیقت پسندی کے ساتھ طے کیے جائیں اور کمزوروں کو کمزور رکھنے کی سوچ ترک کی جائے۔
ٹیکنالوجی کا انقلاب برپا ہوچکا ہے۔ چھوٹی اقوام بھی اس حوالے سے آگے بڑھ رہی ہیں۔ ایسے میں ڈھائی تین سو سال پہلے کی سوچ پر عمل کرتے ہوئے کسی کو دبوچ کر رکھنا ممکن نہیں رہا‘ جو بڑی ریاست اپنے طاقت کے زعم میں ایسا کرنا چاہے گی ‘اُس کے لیے مشکلات بڑھیں گی۔ یورپ نے یہ بات سمجھ لی ہے۔ امریکا بھی جس قدر جلد سمجھ جائے اُتنا اچھا ہے۔ نئی‘ ابھرتی ہوئی دنیا اطوار بھی نئے چاہتی ہے۔ اب مکر و فریب کے ذریعے کمزوروں کو دبوچے رکھنے کی بجائے اُنہیں ساتھ ملاکر چلنے کی ضرورت ہے‘ تاکہ خون خرابے کا چلن ختم ہو اور حقیقی پُرامن بقائے باہمی کا خواب شرمندۂ تعبیر کیا جاسکے۔