"MIK" (space) message & send to 7575

ہنی مُون پیریڈ ختم ہوا!

جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے اُسی کی بنیاد پر پیش گوئی کی جاتی ہے کہ اب کیا ہوسکتا ہے اور کیا ہوگا۔ ہر دور میں اہلِ دانش کا یہی طریق رہا ہے۔ جو کچھ بھی معلوم ہو پاتا ہے اُسی کا تجزیہ کرکے اور سوچ کر بتایا جاتا ہے کہ اب دنیا کیا شکل اختیار کرے گی۔ ڈیڑھ دو سو سال پہلے تک کسی بھی معاملے میں بہت بڑی اور انقلاب بدوش تبدیلی کے بارے میں پورے یقین سے کچھ کہنا انتہائی دشوار ثابت تھا کیونکہ تبدیلی کا عمل خاصا سُست رفتار ہوتا تھا۔ ہر شعبے میں تحقیق و ترقی کا عمل چونکہ بہت سُست رفتار ہوا کرتا تھا ‘اِس لیے ذہنوں کے پردے پر ابھرنے والی آنے والے دور کی تصویر بھی اِتنی دُھندلی ہوا کرتی تھی کہ پہچانی نہیں جاتی تھی۔ پھر یہ ہوا کہ مختلف شعبوں میں علوم و فنون کی رفتار تیز ہوئی۔ اِس تیزی کی بنیاد پر اہلِ دانش و بصیرت کے لیے آنے والے دور کے حوالے سے قدرے مستحکم اور پُراعتماد انداز سے کچھ کہہ پانا آسان ہوا۔ بیسویں صدی کے اوائل میں علامہ اقبالؔ نے کہا تھا ؎ 
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں 
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی 
جس دور میں علامہ اقبالؔ نے یہ شعر کہا تھا تب مختلف شعبوں میں علوم و فنون کی رفتار ایسی نہیں تھی کہ عقل دنگ رہ جائے۔ بعد کے ادوار میں فکر و عمل کی رفتار اِتنی تیز ہوگئی کہ کسی کے لیے آنے والے دور کے حوالے سے کچھ بھی کہہ پانا انتہائی دشوار ثابت ہوتا گیا۔ اب ڈھائی تین عشروں سے معاملہ یہ ہے کہ بہت کچھ معلوم ہونے کی صورت میں بھی مستقبل کے حوالے سے پورے یقین سے کچھ کہنا دشوار سے دشوار تر ہوتا جارہا ہے۔ ایک دور تھا کہ پیش گوئی کے لیے معلومات بہت کم تھیں‘ اب بہت زیادہ ہیں۔ لوگ بہت کچھ اِتنی اچھی طرح سمجھ لیتے ہیں کہ اُن کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔ آنے والے دور کی تصویر پورے تیقن کے ساتھ پیش کرنا اُن کے لیے انتہائی دشوار ثابت ہوتا ہے۔ 
علامہ اقبالؔ کے وہم و گمان میں بھی جو کچھ نہ ہوگا وہ واقع ہوچکا ہے۔ ایک علامہ پر کیا موقوف ہے‘ اُس دور کے کسی بھی شخص کو اگر کچھ دیر کے لیے قدرت دوبارہ زندگی دے تو آج کی دنیا کو دیکھ کر اُس کا صرف ایک ردِعمل ہوگا ... چکراکر گر پڑے گا! کچھ بھی واقع یا رونما ہوتے دیکھ کر حیرت زدہ رہ جانے کا دور کب کا جاچکا ہے۔ 
دنیا کیا ہے اور کیا ہوجائے گی‘ یہ ہمارا دردِ سر نہیں۔ ہو بھی کیسے؟ جب دنیا کا چلن یہ ہے کہ ع
تجھ کو پرائی کیا پڑی‘ اپنی نبیڑ تُو! 
تو پھر ہمیں بھی کیوں دوسروں کی فکر لاحق ہو؟ اچھا ہے کہ ہم اپنا بھلا سوچیں اور اُسے کے لیے سرگرمِ عمل بھی ہوں۔ پاکستان تیزی سے تبدیلی کی طرف جارہا ہے۔ مگر خیر‘ اِس کا کریڈٹ تحریکِ انصاف کو نہیں دیا جاسکتا۔ معاملہ کچھ یوں ہے کہ عالمی سیاست و معیشت میں قیامت خیز تبدیلیوں کی ہوا چل پڑی ہے۔ ملک کیا‘ پورے پورے خطے تبدیلی کی زد میں ہیں۔ کل تک جن کے ہاتھوں میں دنیا کے معاملات طے کرنے کا اختیار تھا وہ اب کمزور پڑچکے ہیں۔ سٹیک ہولڈرز کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ ایسے میں کئی خطوں کے حوالے سے ترجیحات بھی تبدیل ہو رہی ہیں۔ دنیا کے معاملات منصوبہ سازوں کی محنت کے نتیجے میں تبدیل ہوتے ہیں مگر خیر‘ بہت کچھ ایسا بھی ہے جو اپنے آپ تبدیل ہو رہا ہے اور عالمی معاملات پر اچھا خاصا تصرف رکھنے والے بھی بظاہر کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ 
جب دنیا ہی بدل رہی ہے تو پاکستان کو تبدیل ہونے سے کیونکر روکا جاسکتا ہے؟ اور ملک میں سب سے زیادہ تبدیلی اگر کہیں واقع ہوتی دکھائی دے رہی ہے تو وہ کراچی ہے۔ ڈیڑھ عشرے کے دوران شہر کا بنیادی ڈھانچا یوں تبدیل کیا گیا کہ ع
پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی 
والی کیفیت پیدا ہوئی۔ شہر کو کم و بیش پانچ عشروں سے جس رنگ میں دیکھا گیا وہ اُڑ گیا۔ اور یہ دیکھ کر دیکھنے والوں کے ہوش اُڑ گئے۔ ایمان کی تو یہ ہے کہ ہوش اب تک ٹھکانے پر نہیں ہیں۔ ہوں بھی کیسے؟ سبھی کچھ بدلتا جارہا ہے اور تبدیلی کی رفتاری اِتنی ہے کہ اُس کا ساتھ دینے والوں کا سانس تھوڑی دور جاکر ہی پُھول جاتا ہے۔ اب محسوس کیا جارہا ہے کہ کراچی کو واضح طور پر ایک نیا ''لُک‘‘ دینے کی تیاری کی جارہی ہے۔ یہ سب‘ ظاہر ہے‘ کسی سبب اور غایت کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ بڑی طاقتوں کی ترجیحات بدل گئی ہیں۔ یہ بات اب عوام کی زبان پر آچکی ہے کہ مجموعی طور پر متحدہ عرب امارات اور بالخصوص دبئی saturation point پر پہنچ چکا ہے یعنی اُس میں مزید پنپنے کی گنجائش نہیں رہی اِس لیے بڑی طاقتوں کو اِس خطے میں کراچی اِس قابل دکھائی دیا ہے جسے حقیقی کاسموپولیٹن سٹی میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اور اب یہ عمل خاصے زور و شور سے شروع بھی کیا جاچکا ہے۔ 
بڑی طاقتوں کے درمیان کشمکش چلتی رہتی ہے۔ کبھی کے دن بڑے اور کبھی کی راتیں والی کیفیت ابھرتی اور ختم ہوتی رہتی ہے۔ اِس وقت بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ کل تک دنیا مغرب کے ہاتھ میں تھی۔ اب اُس کی گرفت کمزور پڑچکی ہے اور مشرق معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے کی بھرپور تیاری کر رہا ہے۔ ایسے میں جن چند ممالک میں بڑی تبدیلیاں متوقع ہیں اُن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ 
بیرونی سرمایہ کاری بڑھنے پر ترقی کا عمل تیز ہوگا تو ساتھ میں اور بہت کچھ بھی تبدیل ہوگا۔ کراچی سمیت ملک کے تمام بڑے شہروں میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ ہم جو تیاری کریں گے اُسی سے طے ہوگا کہ ہم اِن تبدیلیوں سے ہم کنار ہوں گے یا دوچار! کراچی میں بہت کچھ بہت تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ شہر کو نیا رنگ دینے کا عمل بہت سوں کو حیرت میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔ ایک زمانے سے افواہوں کا بازار گرم تھا۔ اب اُن افواہوں کے زمینی حقیقت میں تبدیل ہونے کا وقت آگیا ہے۔ تھوڑا سا غور کرنے پر بھی لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ جو کچھ ہو رہا ہے اُس کے نتیجے میں مزید کیا ہوگا۔ شہر میں بڑے پیمانے کی بیرونی سرمایہ کاری کا امکان خاصا توانا ہے۔ اِس کیلئے فضا سازگار بنادی گئی ہے۔ نام نہاد سٹیک ہولڈرز کو ''کٹ ٹو سائز‘‘ کردیا گیا ہے تاکہ وہ استحکام‘ ترقی اور خوشحالی کی راہ میں کوئی بڑی دیوار کھڑی نہ کرسکیں۔ کچھ بونے خود کو قد آور سمجھ بیٹھے تھے۔ اُنہیں اُن کی اوقات یاد دلادی گئی ہے۔ اِس نکتے پر خاص توجہ مرکوز رکھی گئی ہے کہ کوئی بھی نام نہاد ''سیاسی قوت‘‘ بھرپور معاشی و مالیاتی عمل کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے۔ 
شہرِ قائد کے مکینوں کا حقیقی امتحان یہ ہے کہ خود کو (چار پانچ سال بعد) آنے والے دور کے لیے تیار کریں۔ شہر کی معیشت اور معاشرت دونوں میں بڑی تبدیلیوں کے آثار ہیں۔ شہر مہنگا ہوتا جارہا یا کیا جارہا ہے۔ انفرادی معاشی کردار میں بھی وسعت آرہی ہے۔ کل تک شہر کا مجموعی معاشی مزاج یہ تھا کہ ایک کماتا تھا اور پورا کنبہ کھاتا تھا۔ وہ ہنی مُون پیریڈ تھا جو ختم ہوا۔ اب بیشتر گھرانوں میں ایک سے زائد افراد کام نہ کریں تو گزارا نہیں ہو پاتا۔ اُس دور کی آمد آمد ہے جب کام کا معیار بلند کرنے کے ساتھ ساتھ محنت کی مقدار بھی بڑھانی پڑے گی۔ ؎ 
وہ بادۂ شبانہ کی سرمستیاں کہاں؟ 
اُٹھیے بس اب کہ لذّتِ خوابِ سَحر گئی! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں