کسی بھی زبان کی شاعری پڑھ لیجیے‘ دل کے بارے میں سو طرح کے خیالات و نظریات ملیں گے۔ شعراء دل کے حوالے سے ہر بات حرفِ آخر کے سے انداز سے کہتے ہیں گویا قلم توڑ کر رکھ دیا ہے‘ مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہیں رہی اور اگر اُردو شاعری کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ پوری کائنات میں صرف ایک unfinished agenda ہے اور وہ ہے دِل! بات کہیں سے بھی چلی ہو‘ دِل تک ضرور آتی ہے اور اِس مقام سے آگے نہیں بڑھتی۔ پوری محفل بھلے ہی اونگھ رہی ہو‘ بات دل کی آجائے تو سبھی چونک اُٹھتے ہیں۔ بہزادؔ لکھنوی نے خوب کہا ہے ؎
ہونٹوں پہ آ تو جائے ہنسی کیا مجال ہے؟
دل کا معاملہ ہے‘ کوئی دل لگی نہیں
کسی کو اس بات کا شِکوہ ہے کہ دِل کی بات کوئی نہیں سنتا۔ اس کے جواب میں کوئی کہتا ہے کہ کوئی دِل کی کہاں تک سُنے اور سَر دُھنتا پھرے! دِل کے حوالے سے کبھی معاملہ ابتداء ہی میں دم توڑ دیتا ہے تو کبھی انتہا ہی انتہا دکھائی دیتی ہے‘ ابتداء کا کچھ پتا نہیں چلتا۔ داغؔ کہتے ہیں ؎
دِل گیا‘ تم نے لیا‘ ہم کیا کریں
جانے والی چیز کا غم کیا کریں
یعنی حضرتِ داغؔ نے طے کردیا کہ دِل جانے والی چیز ہے۔ جانے والی چیز چلی جائے تو غم کاہے کا۔ مگر ایک مصیبت ہے۔ یہ جانے والی چیز چونکہ اپنے اندر بہت کچھ رکھتی ہے اِس لیے جب یہ جاتی ہے تو بہت کچھ چلا جاتا ہے اور ہم ڈھونڈتے ہی رہ جائے ہیں۔ بہت کچھ ہے جو از خود نوٹس کے تحت دِل میں سماتا جاتا ہے اور ہم سمجھ نہیں پاتے کہ کیا کریں۔ کسی نے خوب کہا ہے ؎
خوفِ خدا رہے کہ خیالِ بُتاں رہے
کس طرح ایک دل میں غمِ دو جہاں رہے
آکسیجن نہ ملے تو انسان مر جاتا ہے۔ یہی معاملہ دل کا بھی ہے۔ دِل دھڑکنا چھوڑ دے تو زندگی دامن چُھڑاکر چل دیتی ہے۔ یہ تو ہوا طبعی یا طِبّی اُصول کا بیان۔ شعراء کچھ اور کہتے ہیں۔ اُن کا ''نظریہ‘‘ یہ ہے کہ دِل نہ رہے تب بھی انسان رہتا ہے‘ زندگی رہتی ہے۔ سیمابؔ اکبر آبادی کہتے ہیں ؎
دُعا دل سے جو نکلے کارگر ہو ... یہاں دل ہی نہیں‘ دِل سے دُعا کیا!
ہمارے شعراء دِل کے معاملے میں دو طرفہ ٹریفک پر یقین رکھتے ہیں۔ ایک طرف تو دل کے آ جانے کا خوب رونا رویا جاتا ہے اور دوسری طرف دل کے جانے کا ماتم کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ احمد ندیمؔ قاسمی کا شعر ہے ؎
دل گیا تھا تو یہ آنکھیں بھی کوئی لے جاتا
میں فقط ایک ہی تصویر کہاں تک دیکھوں!
اب دِل کی بات چل نکلی ہے تو معاملہ ناگپور تک پہنچانا ہی پڑے گا جہاں ایک نوجوان نے دِل کے معاملے میں کچھ ایسا کیا ہے کہ دنیا انگشت بہ دنداں رہ گئی ہے۔ ناگپور کے پولیس کمشنر نے ایک تقریب میں بتایا کہ شہر کے ایک پولیس اسٹیشن میں ایک نوجوان نے‘ ناگپور کی مناسبت سے‘ اپنا دِل چُرالیے جانے کی خاصی زہریلی شکایت درج کرائی ہے! باضابطہ‘ یعنی تحریری شکایت میں اُس نے دِل چُرائے جانے کی اطلاع دیتے ہوئے پولیس سے مطالبہ کیا ہے کہ متعلقہ لڑکی کو طلب کرکے اُس سے دِل واپس دلایا جائے!
اپنی حماقت پر ہنگامہ برپا کرنے والے ناگپور کے دِل پھینک نوجوان سے متعلق یہ خبر پڑھ کر ہمیں پاکستانی فلم انڈسٹری کے ''جگت بھیّا‘‘ یعنی علی بھائی یعنی محمد علی یاد آگئے جنہوں نے 1970ء کے عشرے کے اوائل میں ریلیز ہونے والی شبابؔ کیرانوی کی فلم ''انصاف اور قانون‘‘ کے کلائمیکس میں کورٹ روم ڈرامے کے لمحۂ عروج میں جج صاحب سے اپنی جوانی لوٹانے کا مطالبہ کیا تھا!
پولیس اسٹیشن میں تعینات اہلکار تو دنگ رہ گئے۔ ایس ایچ او نے اعلیٰ افسران سے رابطہ کرکے ''ممکنہ کارروائی‘‘ کیلئے اُن سے رائے طلب کی تو اُنہوں نے ہدایت کی کہ نوجوان کو بہلا پُھسلاکر رخصت کردیا جائے۔ اعلیٰ افسران‘ ظاہر ہے‘ جہاں دیدہ تھے۔ انہیں اندازہ تھا کہ دِل کے معاملے میں بات کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہے۔ انہیں شاید اس بات کا خوف لاحق ہوا کہ اگر ایک آدھ کیس میں بھی شکایت کنندہ کو دِل واپس دِلا دیا گیا تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے‘ یعنی پولیس اسٹیشنز کے باہر دِل چُرائے جانے سے متعلق شکایات درج کرانے والوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ جائیں گے! ع
روئیے کس کس کو اور کس کس کا ماتم کیجیے
خیر گزری کہ شکایت کی روشنی میں ناگپور پولیس نے متعلقہ لڑکی کو طلب نہیں کیا ورنہ لڑکے کا دِل تو گیا تھا سو گیا تھا‘ رہی سہی عزت بھی ٹھکانے لگ جاتی۔ ایسا ہی ایک قصہ مشہور ہے۔ ایک لڑکی سے تعلق ختم ہوجانے پر جب لڑکے نے کہا: میری تصویر لوٹادو تو اُس نے لڑکے کو گھر بلایا‘ ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور ایک بڑے لفافے سے تصویروں کا ڈھیر نکال کر لڑکے کے سامنے رکھ کر بولی ''لو‘ اس میں سے اپنی تصویر نکالو اور چلتے پھرتے نظر آؤ!‘‘
ہمارے خیال میں کسی لڑکی سے دِل واپس مانگنا بہت ہی بے ڈھنگی اور ناشائستہ بات ہے۔ لڑکیوں کو اور بھی بہت سے کام ہوتے ہیں اور وہ نازک اندام بھی ہوتی ہیں۔ اگر وہ نچھاور کیا جانے والا دِل سنبھالنے کی پابند کردی گئیں تو چل چکا دِل کا دھندا! اور پھر یہ نکتہ بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ جس کا دِل ہے جب وہی (مرد) محتاط نہیں تو کسی لڑکی سے یہ توقع کیوں رکھی جائے کہ وہ دِل سنبھال کر رکھے اور لَوٹانے کی پابند بھی ہو! ناگپور کے دِل پھینک لڑکے کو پولیس سے رابطہ کرکے دِل کی واپسی کا مطالبہ کرنے کی بجائے اس بات پر بھگوان کا شکر ادا کرنا چاہیے تھا کہ حقوقِ نسواں کے تحفظ کی علم بردار تنظمیں لٹھ لے کر اُس کے پیچھے نہیں پڑ گئیں۔ اگر وہ میدان میں آگئیں تو اِدھر اُدھر پھینکی جانے والی چیز واپس دِلانے کے مطالبے کو حقوقِ نسواں پر ڈاکے سے تعبیر کرکے ایسا دھماچوکڑی مچائیں گی کہ یہ نوجوان دِل کے ساتھ ساتھ جگر‘ گردوں اور پیھپھڑوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گا!
حماقت کی انتہا یہ ہے کہ پہلے تو دِل کو سنبھال کر رکھا نہیں جاتا‘ اُسے کسی بھی کھیت میں چَرنے کے لیے بے لگام چھوڑ دیا جاتا ہے اور جب دِل سوچے سمجھے بغیر ضرورت اور گنجائش سے زیادہ گھاس چَر لیتا ہے تب اُس کا ہاضمہ بگڑتا ہے اور رونا پیٹنا شروع ہوتا ہے‘یعنی جب چڑیاں کھیت چُگ لیتی ہیں تب پچھتاوے کا بازار گرم ہوتا ہے۔ اگر لُوٹے یا چُرائے ہوئے دِل کو لوٹانے کی پابندی تک بات جا پہنچی تو دِل کا پورا دھندا ہی چوپٹ ہوکر رہ جائے گا۔
ہے نا عجیب بات کہ لوگ دِل جیسی چیز کو سنبھال کر نہیں رکھتے ''دِل پھینک‘‘ کی ''ٹیگ‘‘ کمانے کے لیے کسی کو بھی دے بیٹھتے ہیں اور پھر رو پیٹ کر واپس بھی لینا چاہتے ہیں۔ گیا ہوا دِل خود بخود یا اپنے طور پر تو مشکل ہی سے ہاتھ آتا ہے۔ بیشتر کیسز میں تو ''بھیّا‘‘ کی طرح کورٹ روم میں چیخ پُکار ہی کرنی پڑتی ہے۔ دِل سنبھال کر رکھنے کی چیز ہے‘ جگہ جگہ پھینکنے پھرنے‘ نچھاور کرنے کی نہیں۔ ایسا کیجیے گا تو پھر ہاتھ ہی ملتے رہیے گا کیونکہ ع
اس طرح ہی ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں