گاڑی کے پچھلے پہیے اگر گڑھے میں تو ہوں کتنی ہی ریس دیجیے‘ گاڑی ٹس سے مس نہیں ہوگی۔ انجن کام کر رہا ہے‘ پہیے بھی کام کر رہے ہیں‘ مگر گاڑی چلنے کا نام نہیں لے گی۔ یہی حال سوچنے کا بھی ہے؛ اگر فکری ساخت گِھسی ہوئی ہو‘ نئی بات سوچنے پر توجہ ہی نہ دیجیے تو کوئی بھی تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔ سوچنے پر توجہ نہ دیجیے تو سوچ کا معیار بلند نہیں ہوتا۔
اس دنیا میں جو کچھ دکھائی دے رہا ہے سب سوچ کا نتیجہ ہے۔ اور یہی نتیجہ مزید سوچ کا سبب بھی بن رہا ہے یعنی ہمیں کچھ نہ کچھ نیا کرنے کی تحریک بھی دے رہا ہے۔ زندگی ہم سے قدم قدم پر زیادہ سے زیادہ اور بہتر سوچنے کا تقاضا کرتی ہے۔ اگر ہم اس تقاضے کو نظر انداز کریں تو بہت کچھ ادھورا رہ جاتا ہے۔
انتہائی حیرت انگیز اور مضحکہ خیز حد تک المناک بات یہ ہے کہ سوچنے کی اہمیت کو جانتے اور سمجھتے ہوئے بھی لوگ اس طرف نہیں آتے۔ عمومی سطح پر ہم جو کچھ دیکھ‘ سمجھ اور بول رہے ہوتے ہیں وہ سوچ کا نتیجہ نہیں ہوتے۔ یہ تو ادراک کی عمومی سطح ہے۔ کسی بھی معاملے میں ہم فوری طور پر جو کچھ بول رہے ہوتے ہیں وہ محض ردعمل ہوتا ہے۔ کسی بھی معاملے میں عمومی سے ردعمل کو کسی بھی اعتبار سے سوچ کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔
سوچنے کا عمل تھوڑا سا پیچیدہ اور بلند ہے۔ ماحول میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اُسے دیکھ کر ہم جو کچھ سمجھ پاتے ہیں اُس کی بنیاد پر کچھ دیر کے لیے ٹھہر کر ذہن کو حرکت دینے کی صورت میں ہماری سوچ پنپتی ہے۔ جو کچھ ہوچکا ہے‘ اُس کے ادراک کی بنیاد پر جو کچھ ہونے والا ہے اُس کا اندازہ لگانا اور اُس پر اثر انداز ہونا سوچ کے دائرے میں آتا ہے۔
صورتِ حال کی مناسبت سے کچھ بھی کہہ دینا یعنی اپنا ردعمل ظاہر کردینا کسی بھی درجے میں شعوری عمل نہیں۔ یہ سب کچھ ہنگامی بنیاد پر ہوتا ہے۔ سوچنا خالص شعوری عمل ہے‘ یعنی انسان کچھ دیکھتا اور سمجھتا ہے اور اُس سے متعلق کچھ پڑھتا ہے تب غور و خوض کی صورت میں اپنے ذہن میں کسی نئے خیال کے پنپنے کی راہ ہموار کرتا ہے۔ اس عمل کو بڑھایا جائے یعنی تواتر کے ساتھ جاری رکھا جائے تو انسان بہت کچھ نیا سوچتا ہے اور آنے والے دنوں کا بہت اچھا خاکہ ذہن کے پردے پر تیار کر پاتا ہے۔
غیر جانب دار ہوکر اور خالص مفاد پرست نقطۂ نظر سے بھی سوچیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ سوچنا ہمارے لیے ناگزیر ہے۔ سوچنے کی صلاحیت کو پروان چڑھائے بغیر ہم بہتر زندگی کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ کوئی بھی نیا ہنر ہم اُسی وقت سیکھ پاتے ہیں جب کسی بھی حوالے سے ہمارے ذہن میں نئی سوچ اُبھرتی اور پنپتی ہے‘ پھر کیا سبب ہے کہ لوگ سوچنے کی طرف نہیں آتے؟
معاملہ ''کمفرٹ زون‘‘ کا ہے۔ لوگ سب سے بڑھ کر ترجیح اپنے آرام اور سکون کو دیتے ہیں۔ ایک خاص ڈھب کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی صورت میں زیادہ سوچنا نہیں پڑتا اور یوں زندگی آسان سے آسان تر ہوتی جاتی ہے۔ گویا توجہ آسانی پر ہے‘ معیار کو بلند کرنے پر نہیں۔ ہر انسان پریشانی اور مشقت سے ممکنہ حد تک بچنا چاہتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ سوچ کے ڈھانچہ کو بدلنے پر کم لوگ ہی راضی ہو پاتے ہیں۔ اقبالؔ نے کہا ہے
آئینِ نو سے ڈرنا‘ طرزِ کہن پہ اَڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
عمومی سطح پر ہم چند لگے بندھے معاملات کے عادی ہوتے ہیں اور اُنہی کو خیالات سمجھ کر قبول بھی کرلیتے ہیں۔ انتہائی ناقابلِ تردید حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں ہر طرف تبدیلیوں کا بازار گرم ہے۔ تبدیلی کی یہ گرم بازاری ہم سے بہت سے معاملات میں متعدد تبدیلیوں کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ قدرت کی طرف سے کال ہوتی ہے۔ جو لوگ یہ کال نہ صرف یہ کہ ریسیو کرتے ہیں‘ بلکہ غور سُنتے بھی ہیں وہ فائدے میں رہتے ہیں۔
عام آدمی کے لیے سوچنا دشوار ... اور سوچ میں تبدیلی لانا اور بھی دشوار ہوا کرتا ہے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ سوچنا تو پڑے گا اور سوچنے کے عمل یا فکری ساخت میں تبدیلیاں بھی لانی پڑیں گی۔ ایسا کیے بغیر بہتر زندگی بسر کرنے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔
ایک دشوار مرحلہ کسی کو اس بات کا قائل کرنا بھی ہے کہ اُس کی سوچ کمزور یا غلط ہے اور یہ کہ اصلاح کے بغیر وہ بہتر انداز سے سوچنے کے قابل نہ ہوسکے گا۔ کوئی اگر بیمار ہو مگر یہ ماننے کو تیار نہ ہو کہ وہ بیمار ہے تو پھر اُسے علاج کے لیے کس طور رضامند کیا جاسکتا ہے؟ یہی معاملہ سوچ کا بھی ہے۔ لوگ یہ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے کہ اُن کی سوچ میں خامی یا کمزور پائی جاتی ہے۔
ماحول ہمیں سوچ بدلنے سے روکتا ہے۔ میڈیا کے ذریعے سوچنے کے عمل اور رجحان کو جوں کا توں رکھنے پر غیر معمولی توجہ دی جاتی ہے۔ اگر ہم معیاری زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں تو شعوری طور پر بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ شعور کو بروئے کار لائے بغیر ہم ڈھنگ سے جی نہیں سکتے۔ اگر ہم سوچنے کا عمل ترک کردیں تو ماحول کے سانچے میں ڈھلتے چلے جاتے ہیں۔ اگر معیاری زندگی بسر کرنا ہو تو شعور کی سطح بلند کرنا لازم ہوتا ہے۔ شعور کی سطح خیالات میں بلندی کا بھی تقاضا کرتی ہے۔
فکری ساخت کو درست رکھنا لازم ہے۔ پختہ عادات ہماری فکری ساخت کو جامد رکھنے میں نمایاں کردار ادا کرتی ہیں۔ اگر ہم اپنی فکری ساخت کو وقت کے تقاضوں کے مطابق تبدیل نہ کریں تو ضرورت پڑنے پر بھی درست انداز سے سوچ نہیں پاتے۔ ہم میں سے بیشتر کو نئی سوچ خطرناک لگتی ہے۔ کسی بھی معاملے کو نئے تناظر میں دیکھنا‘ نئی سوچ کا اپنانا دراصل ایک نئی دنیا میں قدم رکھنا ہے۔ کسی بھی نئی سرزمین پر قدم رکھتے وقت جو خوف لاحق ہوتا ہے ‘ویسا ہی خوف نئی سوچ کو اپناتے وقت بھی لاحق ہوتا ہے۔ کوئی بھی نیا خیال اپناتے وقت ہم تھوڑی سی ہچکچاہٹ کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ خوف‘ یہ ہچکچاہٹ فطری ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم نئی سوچ کو اپنانا ترک کردیں۔
نئی سوچ کو اپنانا ہر دور‘ ہر خطے‘ ہر نسل‘ ہر ثقافت کا بحران ہے۔ نئی سوچ کو اپنانا کوئی ایسا کام نہیں جو راتوں رات ہو جائے۔ سوچ کو مکمل طور پر بدلنے میں ایک نسل کا وقت لگتا ہے۔ اس کے لیے دل و دماغ پر بہت جبر سہنا پڑتا ہے‘ متواتر غور کرنا پڑتا ہے۔ جیسے انسان کو مذہب تبدیل کرنے میں ایک زمانہ لگتا ہے‘ بالکل اُسی طرح سوچ کے بدلنے میں بھی عمر لگ جاتی ہے۔ مگر خیر‘ سوچ کو بدلنے میں عمر کھپ بھی جائے تو سَودا بُرا یا مہنگا نہیں۔
اگر آپ بدلتے وقت کے ساتھ بدلنے میں ناکام رہتے ہیں تو سوچیے کہ خامی کہاں ہے‘ خرابی کس چیز سے پیدا ہو رہی ہے۔ سوچ میں رہ جانے والی خامیوں کو دُور کرنے کی کوشش کیجیے۔اس کوشش میں کامیابی ہی پر بیشتر معاملات میں آپ کی حقیقی کامیابی کا مدار ہے۔