"MIK" (space) message & send to 7575

پپّو اور چپّو کی کہانی‘ گپّو کی زبانی

دو عشروں کے دوران پاکستانی میڈیا کو زبان و بیان کے حوالے سے جن بُھول بُھلیّوں سے گزرنا پڑا ہے اُن کا تصور کیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ایک قیامت تھی جو گزر گئی اور اب بھی اُس کے کچھ آثار باقی ہیں۔ چند برس قبل تک‘ جب میڈیا کا اچھا دور چل رہا تھا‘ ہر بات ''ششکے‘‘ لگاکر بیان کی جاتی تھی اور ٹی وی چینلز پر بڑے بلیٹنز کے دوران بات بات پر مرزا رجب علی بیگ سُرورؔ یاد آجایا کرتے تھے جو ہر بات کو خوب سجاکر‘ سنوارکر پیش کرنے کے عادی تھے۔ انہوں نے قوافی کا استعمال اس قدر کیا کہ کہیں کہیں تو پڑھتے پڑھتے اُبکائی سی آنے لگتی ہے۔ ہوسکتا ہے اُن کے دور میں لوگوں کو اُبکائی نہ آتی ہو اور وہ سبھی کچھ اچھی طرح پی جاچکے ہوں! اُن کے معدے کا تو ہمیں کچھ خاص علم نہیں مگر ہم سے ہمارے معدے کی پوچھیے تو ہم کہیں گے کہ فی زمانہ قوافی سے آراستہ خبریں کبھی کبھار تو اچھی لگتی ہیں مگر ہر بات کو چونکانے والے انداز سے‘ ڈرائیت کی چادر میں لپیٹ کر پیش کرنا کبھی کبھی طبیعت میں ایسا تکدّر پیدا کرتا ہے کہ اللہ کی پناہ! ایسے میں ع 
میرے قابو میں نہ پہروں دلِ ناشاد آیا 
والی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ 
1998ء میں پاکستانی میڈیا میں حقیقی تبدیلی کی ابتداء ہوئی جب ایک بڑے کاروباری گروپ نے اپنا اخبار جاری کیا۔ اس اخبار کے اجراء کے ساتھ ہی میڈیا کے ملازمین کے لیے بہتر زندگی کا امکان بھی منصۂ شہود پر ظاہر ہوا۔ عامل صحافیوں کی تنخواہوں میں 100 سے 150 فیصد تک اضافے کی راہ ہموار ہوئی۔ معمولی تنخواہوں پر کام کرکے بمشکل زندگی بسر کرنے والوں کو بہتر انداز سے جینے کا موقع ملا تو اُن کی دنیا بدلی۔ 
اکیسویں کی ابتداء پاکستان میں میڈیا کے لیے بھی بہت کچھ نیا لے کر آئی۔ 2002ء میں ملک کے ایک میڈیا گروپ نے جب اپنا ٹی وی چینل جاری کیا تو ملک میں میڈیا کے حوالے سے بہت کچھ بدلا۔ اس کے بعد تو گویا لائن لگ گئی۔ ٹی وی چینلز اور اخبارات خود رَو پودوں کی طرح اگنے لگے۔ یہ سب کچھ اس اعتبار سے تو اچھا تھا کہ جو لوگ ایک مدت سے میڈیا میں ہونے کے باوجود پست معیار کی زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے اُنہیں کچھ زیادہ کمانے کا موقع ملا اور وہ اہلِ خانہ کو بہتر زندگی بسر کرنے کا موقع فراہم کرنے کے قابل ہو پائے مگر ساتھ ہی ساتھ بگاڑ بھی شروع ہوا۔ بگاڑ محض میڈیا کا نہیں‘ معاشرے کا بھی تھا۔ جب ٹی وی چینلز کی بھرمار ہوئی اور فنڈنگ نے سیلابی ریلے کی شکل اختیار کی تب میڈیا آؤٹ لیٹس بھی بے حواس و بے اعتدال ہوئے اور اس کے نتیجے بھی معاشرہ بھی بے لگام ہوتا چلا گیا۔ 
چند برس پہلے تک میڈیا اور بالخصوص الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے ملک کی جو درگت بنائی گئی ‘وہ اب بھی قوم کے حافظے میں محفوظ ہے۔ بیشتر چینلز کسی بھی نوع کی رہنمائی اور ہدایات کے بغیر محض اپنی مرضی کے اُصول کی بنیاد پر کام کر رہے تھے۔ یہ عمل ایک عشرے سے بھی زائد مدت سے جاری تھا۔ جب کسی بھی حوالے سے کوئی اُصول تسلیم نہ کیا جارہا ہو‘ اعتدال کا دامن نہ تھامنے کی ٹھان لی گئی ہو اور کسی نہ کسی طور زیادہ سے زیادہ منفعت کا حصول یقینی بنانے کا مصمّم ارادہ کرلیا گیا ہو تب وہی ہوتا ہے جو ہمارے ہاں ہوا۔ 
باخبر رکھنے کے نام عوام کو زیادہ سے زیادہ بے خبر رکھنے کی کوشش جس خوب صُورتی سے کی گئی اُس کی داد نہ دینا نا انصافی کے ذیل میں آئے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ قوم نے کم و بیش ڈیڑھ عشرے تک یہ تماشا دَم سادھ کر دیکھا ہے۔ دیکھنا ہی تھا۔ جب معاملات بڑے پیمانے کے ہوں اور بہت اوپر طے کیے گئے ہوں تو عام آدمی کے حصے میں صرف تماشائی کا کردار رہ جاتا ہے۔ میلے کی سیر کرنے والے وہاں دکھائی جانے والے کسی انتہائی دل فریب کرتب کے اسیر ہوکر اُس کرتب کا تجزیہ کرنے اور اُسے سیکھنے پر دوسرے بہت سے کرتب دیکھنے اور اُن سے محظوظ ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہی حال اہلِِ پاکستان کا تھا۔ اُنہوں نے ڈیڑھ عشرے سے بھی زائد مدت تک میڈیا کے میلے کی خوب سیر کی اور ایسے ایسے کرتب دیکھے کہ اُنہیں یاد کرکے اب تک اپنی دل بستگی کا سامان کر رہے ہیں۔ 
پاکستانی میڈیا کے میدان میں جو مَلاکھڑے ہوئے ہیں وہ تادیر یاد رہیں گے۔ یاد رہنے بھی چاہئیں ‘کیونکہ ایسے مَلاکھڑے چشمِ فلک نے شاذ و نادر ہی دیکھے ہوں گے۔ ڈیڑھ عشرے میں سبھی کچھ اُلٹ پلٹ گیا ‘بلکہ تلپٹ ہوگیا۔ معاملات کی سادگی اور معصومیت قصۂ پارینہ ہوکر رہ گئی۔ ہر معاملے کو کچھ کا کچھ بنادیا گیا۔ ع 
تھا جو ناخوب‘ بتدریج وہی خوب ہوا 
ایک فرمائشی پروگرام تھا جو غیر معمولی تزک و احتشام سے شروع ہوا اور بھرپور شان و شوکت سے جاری رہنے کے بعد اب قدرے غیر طبعی سی موت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ رواں صدی کے ابتدائی لمحات سے اب تک پاکستانی میڈیا میں جو کچھ ہوتا آیا ہے وہ ایک ایسی داستان جسے سُننے اور پڑھنے والے بہت کچھ سیکھتے رہیں گے۔ اس داستان میں مزاح بھی ہے اور طنز بھی‘ جذبات بھی ہیں اور ڈرامائیت بھی‘ بے حِسی بھی ہے اور بے ضمیری بھی‘ جوش و جذبہ بھی ہے اور برف سے سَرد تر لاتعلقی بھی‘مگر سب سے بڑھ کر یہ کہ میڈیا کے یہ دو عشرے مجموعی طور پر قومی مفاد سے متصادم رہے ہیں۔ اِس مدت میں ہر اُس معاملے کو بڑھاوا ملا جو قوم اور ریاست کو زیادہ سے زیادہ خسارے کی طرف لے جاسکتا ہو۔ یہ سب کیسے ہوا‘ کون کون پسِ پردہ تھا ... یہ کہانی پھر سہی۔ اضافی دُکھ اس بات کا ہے کہ جو لوگ مکمل بے نقاب ہوکر سامنے رہے اُنہیں بھی قوم نے مکمل عدمِ قبولیت سے دوچار کرنے کا نہیں سوچا! 
یہ دُکھ بھری داستان ہمیں بدھ کو اُس وقت یاد آئی جب سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر فردوس شمیم نقوی کہا کہ پپّو کچھ کہتا ہے تو چپّو شروع ہو جاتا ہے۔ فردوس شمیم نے پپّو کسے کہا اور چپّو کا خطاب کسے عطا کیا یہ کہانی پھر سہی‘ حقیقت یہ ہے کہ پپّوؤں اور چپّوؤں کی کہانی بیان کرنے میں کلیدی کردار ''گپّوؤں‘‘ نے ادا کیا ہے۔ ہر پپّو اور چپّو کے لیے ہمارے میڈیا کے دوستوں نے خوشی خوشی گپّو کر کردار ادا کیا اور مال کے ساتھ داد بھی پاتے رہے۔ جب خوابِ غفلت میں خلل واقع ہوا یعنی ہوش آیا تب اندازہ ہوا کہ ع 
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا‘ جو سُنا افسانہ تھا 
ہم جہاں کھڑے ہیں وہ پاکستانی میڈیا کے لیے بہت اہم اور نازک موڑ ہے۔ یہ ہوش کے ناخن لینے کی گھڑی ہے۔ بے لگام ہوکر اپنی مرضی کے مطابق کسی بھی ڈگر گامزن رہنے کا پرائم ٹائم گزر چکا ہے۔ فرمائشی پروگرام کے تحت خبر اور تجزیے کے نام پر گپ ہانکنے والے میڈیا کے جو دوست گپّو کے منصب پر فائز ہوچکے ہیں اُنہیں اپنے گریبان میں جھانک کر فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہر پپّو اور چپّو کے لیے گپّو بنے رہنے میں اُن (پپّو اور چپّو) کا کتنا فائدہ ہے اور اپنا کتنا نقصان! قوم کو سو طرح کی الجھنوں سے دوچار رکھنے والے پپّوؤں اور چپّوؤں کی کہانی کب تک ہمارے گپّوؤں کی زبانی بیان ہوتی رہے گی؟ بے عقلی پر مبنی اس رجحان کی کوئی حد تو ہونی ہی چاہیے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں