"MIK" (space) message & send to 7575

’’پھر وہی دِل لایا ہوں!‘‘

شیخ رشید کی تازہ ترین ''معصوم‘‘ خواہش یہ ہے کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں خواجہ سعد رفیق اور رانا ثناء اللہ خان کو بھی شامل کیا جائے۔ اس خواہش کا اظہار اُنہوں نے وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے اپنا نام پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کیلئے تجویز کیے جانے کے بعد کیا۔ شیخ رشید پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی مسلم لیگ ن کے سربراہ شہباز شریف کو سونپے جانے کے شدید مخالف رہے ہیں۔ یہ بالکل فطری بات ہے۔ ساری محنت اس بات کیلئے تھی کہ شریف برادران سین سے بالکل آؤٹ ہوجائیں اور وہ اب تک سین سے مکمل آؤٹ نہیں ہو پارہے۔ ایسے میں زِچ ہو اُٹھنا کسی بھی اعتبار سے حیرت انگیز نہیں۔ 
شیخ رشید ریلوے کی وزارت سے شاید زیادہ خوش نہیں۔ یہی سبب ہے کہ تھوڑے تھوڑے وقفے سے ٹریک سے اُتر جاتے ہیں! مزاج کے اعتبار سے اُن کی (غیر علانیہ) خواہش و کوشش رہی ہے کہ اطلاعات و نشریات کی وزارت مل جائے‘ تاکہ میڈیا کے حوالے سے کھل کر کھیل سکیں۔ کھل کر کھیلنے کا کچھ اور مطلب نہ لیا جائے۔ شیخ صاحب کی بہت سی ''معصوم‘‘ خواہشیں ہیں۔ ایک خواہشِ ازلی تو یہ ہے کہ ہر وقت سامنے میڈیا والے ہوں‘ وہ مائیکروفون لے کر لپکتے رہیں اور شیخ صاحب بولنے پر آئیں تو بولتے ہی چلے جائیں۔ اب وہ ٹرینوں کی خاک چھاننے اور ریلوے پلیٹ فارمز کی دُھول چاٹنے میں مصروف ہیں‘ تو ہماری طرح اور بھی بہت سے لوگوں کو ذرا لطف نہیں آرہا؛ اگر کوئی اور وزارت ہاتھ آئے‘ تو شیخ صاحب کے جوہر مزید کُھلیں‘ کچھ رنگ جمے اور ہم کہیں ع 
گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر 
سب جانتے ہیں کہ وفاقی وزیر اطلاعات در اصل حکومت کا ترجمان ہوتا ہے اس لیے کسی بھی معاملے میں تصدیق و توضیح کے لیے اُسی سے رابطہ کیا جاتا ہے؛ اگر شیخ صاحب یہ منصب سنبھالیں تو دیکھنے اور سُننے والوں کی چاندی ہو جائے۔ رنگ جمانے کی کوشش کے حوالے سے وہ خیر اس وقت بھی کچھ خاص کسر نہیں چھوڑتے ‘مگر بہت کچھ ہونے اور کرنے پر بھی رنگ زیادہ نہیں جمتا؛ اگر شیخ صاحب کو حکومت کے ترجمان کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع مل جائے تو حکومت کا بھلا ہو نہ ہو‘ میڈیا والوں کا بھلا ضرور ہوجائے گا اور اس بہانے عوام بھی روزانہ کچھ نہ کچھ ایسا سُن لیا کریں گے‘ جس سے بھرپور حِظ اٹھانا ممکن ہو۔ 
قومی اسمبلی میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی کا معاملہ کئی ماہ سے اٹکا ہوا تھا۔ معاملہ اُصولوں کی ڈگر سے ہٹ کر لڑھکتے لڑھکتے انا کے میدان تک آگیا تھا۔ بات جب انا کی آجائے ‘تو معاملات الجھ ہی جاتے ہیں۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی اپوزیشن لیڈر کو سونپنے کی مخالفت کے حوالے سے شیخ رشید کا استدلال یہ تھا کہ ایسا کرنا دودھ کی رکھوالی بِلّے کے سپرد کرنے کے مترادف ہوگا۔ 
شیخ صاحب چاہتے ہیں کہ روز میڈیا کے پلیٹ فارم پر زورِ بیان کی ٹرین آکر رکے اور روزانہ ہی اس پلیٹ فارم سے نئے الزامات کی ٹرین روانہ کی جائے۔ ایک زمانے سے پرائم ٹائم کے ٹاک شو یہی کردار تو ادا کر رہے ہیں۔ شریف برادران اس حوالے سے شیخ رشید کے نشانے پر رہے ہیں۔ سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف اور مسلم لیگ ن کے سربراہ شہباز شریف کی بیماری‘ چیک اپ اور دیگر متعلقہ معاملات کو شیخ صاحب نے ہدفِ استہزاء بنانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ پہلے تو کہا ''بیس سال سے یہی بیماریاں ہیں۔ یہ لوگ کوئی نہ کوئی بیماری بچاکر رکھتے ہیں‘ تاکہ اُس کی بنیاد پر ہمدردی بٹوری جائے‘ رعایت لی جائے۔‘‘ اور اب یہ کہا ہے کہ ''شریف برادران کی ہر بیماری کا علاج لال حویلی میں ہے ... اور یہ کہ پتھری تو لال حویلی میں دَم کرنے سے نکل جاتی ہے! 
شیخ صاحب نے دوسرا محاذ بلاول بھٹو کے خلاف کھول رکھا ہے۔ اب وہ کہہ رہے ہیں کہ بلاول کو معاف تو کردیا ہے‘ مگر بلو رانی اور مینوفیکچرنگ فالٹ کے الفاظ واپس نہیں لیے ہیں! یہ گویا مناقشے کی گنجائش باقی رکھنے کی بھرپور کوشش ہے۔ شیخ صاحب نہیں چاہتے کہ کوئی بھی معاملہ حتمی طور پر طے کرلیا جائے؛ اگر ایسا ہوگیا تو نیا راستہ کیسے نکلے گا‘ دل کے بہلانے کی صورت کیسے نکلے گی؟ 
ایک زمانے سے میڈیا کے سٹیج پر زورِ بیان کے ذریعے جو اداکاری کی جارہی ہے‘ اُس کے بڑے ناموں میں شیخ رشید‘ خواجہ سعد رفیق‘ رانا ثناء اللہ خان‘ طلال چودھری‘ نعیم الحق‘ مولا بخش چانڈیو و دیگر شامل ہیں۔ ہر جماعت نے چند ایک بندے پال رکھے ہیں‘ جو عوام کو بیزاری کے گڑھے سے نکالنے کی سعی کرتے رہتے ہیں اور اس سعی میں وہ عموماً کامیاب رہتے ہیں! مشکل اگر ہے تو صرف یہ کہ پرائم ٹائم کے ٹاک شوز کی لپک جھپک اور تام جھام میں کام کی باتیں کونوں کُھدروں میں دُبکی رہ جاتی ہیں اور ہر غیر متعلق بات یوں بیان کی جاتی ہے ‘گویا اُسی پر تمام معاملات کی کامیابی کا حقیقی مدار ہو! 
تحریکِ انصاف کی چھتری تلے قائم ہونے والی حکومت تبدیلی کا نعرہ لگاکر آئی ہے۔ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ملک میں سب کچھ بدل دیا جائے گا۔ عوام منتظر ہیں کہ حقیقی اور دُور رس نتائج کی حامل تبدیلیاں شروع ہوں اور ملک تیزی سے استحکام کی راہ پر گامزن ہو۔ 
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ہو یا کوئی اور فورم ... معاملہ یہ ہے کہ قندِ مکرّر کے طورپر ؎ 
بندہ پرور! تھام لو جگر‘ بن کے پیار پھر آیا ہوں 
خدمت میں آپ کی حضور پھر وہی دل لایا ہوں 
والی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کام کی باتوں کو غیر متعلق اُمور کے ڈھیر میں کہیں گم کرنے کے حوالے سے وزیر اعظم عمران خان کی سوچ کیا ہے‘ کچھ نہیں کھلتا۔ ہوسکتا ہے کہ اُنہیں میڈیا پر ''مُرغوں کی یومیہ لڑائی‘‘ زیادہ پسند نہ ہو‘ مگر اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ بنیادی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے اور کارکردگی کے حوالے سے مواخذے سے بچنے کے لیے میڈیا کو استعمال کرنا ہمارے ہاں خاصا ''ٹرینڈی‘‘ معاملہ رہا ہے۔ ڈیڑھ عشرے کے دوران عوام نے یہ تماشا خوب دیکھا ہے۔ 
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان چشمک کا پایا جانا حیرت انگیز نہیں۔ اپوزیشن کا تو کام ہی یہ ہے کہ حکومت کے مواخذے کیلئے کوشاں رہے‘ تنقید کرے‘ ہر معاملے کا ناقدانہ جائزہ لیتی رہے اور دوسری طرف حکومت کو ہر وقت کمر کس کر کسی بھی مہم کیلئے تیار رہنا چاہیے۔ قوم کو ٹی وی ٹاک شوز میں ایسے تجزیے نہیں چاہئیں‘ جن کے شرکاء کے منہ سے تھوک اُڑ رہا ہو۔ قوم کو مسائل کا حل چاہیے‘ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بیان بازی کے مقابلے نہیں۔ شیخ صاحب چاہتے ہیں کہ بیان بازی کے محاذ پر آنیاں جانیاں لگی رہیں۔ ٹھیک ہے‘ مگر اس کی ایک حد ہونی چاہیے۔ قوم صرف اتنا چاہتی ہے کہ اُس کی مشکلات ختم ہوں۔ یہ کام ہو جائے‘ تو پھر چاہے کچھ بھی ہوتا رہے اور جب تک یہ کام نہیں ہو جاتا تب تک زمانے بھر کی فضولیات کو گلے لگانے سے گریز کیا جائے۔ تبدیلی کی بات چلی ہے تو ایسی تمام باتوں سے گریز کیا جائے تو تبدیلی کی راہ مسدود کرنے کا باعث بنتی ہوں یا بن سکتی ہوں۔ اچھا ہے کہ قوم سے کیے ہوئے دو چار وعدے تو ڈھنگ سے پورے ہو جائیں۔ 
شیخ صاحب! قوم کی بس اتنی سی تو فرمائش ہے اور آپ نے دَم کی بات بھی کی ہے‘ تو صاحب! کوئی ایسا دَم بھی کیجیے کہ اس قوم کے گُردوں میں پائی جانے والی آلام و مصائب کی پتھری بھی ریزہ ریزہ ہوکر بہہ جائے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں