ہم نے اپنی سہولت کی خاطر زندگی کو مختلف خانوں میں بانٹ رکھا ہے۔ یہ طے کرلیا گیا ہے کہ کچھ کام ایسے ہیں جو ہمیں کرنے ہی نہیں ہیں یعنی اپنے کام سے کام رکھنا ہے۔ عام آدمی کے ذہن میں یہ تصور بُری طرح گھر کرچکا ہے کہ مطالعہ صرف اُن کا کام ہے‘ جنہیں یا تو پڑھانا ہے یا پھر لکھنے کی طرف جانا ہے۔ تیسرے درجے میں مطالعہ اُن کی ذمہ داری سمجھ لیا گیا ہے‘ جنہیں اجتماعات سے خطاب کرنا ہو۔ یہ بات کتنی عجیب ہے کہ جو عمل زندگی کا معیار بلند کرنے کے لیے ناگزیر ہے اُسے چند خاص افراد کے لیے چھوڑ دیا جائے۔ کون نہیں جانتا اور سمجھتا کہ مطالعے ہی کی مدد سے زندگی کا معیار حقیقی مفہوم میں بلند کیا جاسکتا ہے؟
ایسا ہی بہت سے دوسرے معاملات میں بھی ہوتا ہے۔ پڑھانا ٹیچر کی ذمہ داری ہے‘ مگر کیا یہ صرف ٹیچر کی ذمہ داری ہے؟ کسی بھی بچے کو بہتر زندگی کے لیے تیار کرنا ٹیچر کے ساتھ ساتھ والدین اور ماحول میں پائے جانے والے دیگر بزرگوں کی بھی ذمہ داری ہے۔ بچے کو ٹیچر یا ٹیوٹر کے حوالے کرکے تعلیم و تربیت کے حوالے سے ذہن پر سکون کی چادر نہیں تانی جاسکتی‘ مگر کیا کیجیے کہ لوگ ایسا ہی کرتے ہیں اور مطمئن و خوش دکھائی دینے کی اداکاری بھی کرتے رہتے ہیں۔
آج کے انسان کو درپیش سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ اُسے بیک وقت کئی شعبوں میں غیر معمولی مہارت کا مظاہرہ کرنا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگ کاروبار سے متعلق تعلیم کے کسی ادارے سے اعلٰی سند لے کر نظم و نسق کے شعبے میں آتے تھے‘ مینیجر کہلاتے تھے۔ انگریزی کے مصدر manage کا بنیادی مفہوم ہے کسی بھی صورتِ حال کو سمجھنے اور اُس کے حوالے سے اپنی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لانے میں کامیاب ہونا‘ کسی بھی مشکل معاملے میں اپنے حواس قابو میں رکھتے ہوئے تمام پہلوؤں کو حُسنِ ترتیب اور حُسنِ عمل کے ساتھ درست حالت میں رکھنا اور مطلوب نتائج حاصل کرنا۔
اکیسویں صدی نے انسان کے لیے جو بڑے چیلنجز کھڑے کیے ہیں اُن میں حواس باختہ ہونے سے بچنا شاید سب سے بڑا ہے۔ دنیا ہر آن بدل رہی ہے۔ قدم قدم پر چونکانے والے معاملات دکھائی دیتے ہیں اور ہم چند لمحات کے لیے ششدر رہ جاتے ہیں۔ اور جب ہوش آتا ہے تب تک کوئی اور معاملہ سامنے آچکا ہوتا ہے۔ ایسے میں manage کر پانا ہی حقیقی چیلنج ہے۔
کاروباری امور سے متعلق کتب میں نظم و نسق کے بنیادی اصولوں پر مفصل بحث پائی جاتی ہے۔ ایک ایک نکتے کو خوب صراحت کے ساتھ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ ذہن میں اتر جائے اور عملی زندگی میں کوئی چیلنج درپیش ہو تو درست فیصلہ کرنے میں زیادہ الجھن کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
نظم و نسق (مینیجمنٹ) سے متعلق جو کتب بازار میں یا انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں‘ ان میں اس عمل کے مختلف مراحل بیان کیے گئے ہیں ‘تاکہ انسان اس حوالے سے اپنی صلاحیتوں کو مرحلہ وار پروان چڑھاتا جائے اور خود کو بھرپور عملی زندگی کے لیے تیار کرے۔ کسی بھی ادارے میں مینیجمنٹ کے نام پر جو شعبہ پایا جاتا ہے اُس کا بنیادی ادارے کو کسی نہ کسی طور چلتے رکھنا ہے تاکہ اُس کے قیام کے اغراض و مقاصد حاصل ہوسکیں۔ اس شعبے کا سربراہ مینیجر یا جنرل مینیجر کہلاتا ہے۔ مینیجمنٹ کا بنیادی کام ہے آنے والے زمانے کا خاصی درستی کے ساتھ اندازہ لگانا۔ دوسرے نمبر پر ہے اِس حوالے سے منصوبہ سازی۔ تیسرے نمبر پر ہے تمام ضروری و مطلوب وسائل و انسانی صلاحیتوں‘ مہارتوں کا اہتمام و انتظام۔ چوتھے نمبر پر ہے‘ درست سمت کی نشاندہی۔ پانچویں نمبر پر ہے ہم آہنگی یعنی تمام متعلقہ شعبوں‘ اداروں‘ شخصیات اور گروہوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانا تاکہ اُن سے بہتر طور پر کام لیا جاسکے اور چھٹے نمبر پر ہے تمام معاملات پر اختیار تاکہ مطلوب نتائج کا حصول تیزی‘ آسانی اور عمدگی سے ممکن بنایا جاسکے۔
ایک اچھا مینیجر اپنے ادارے کو اِس طور چلاتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ منافع کا حصول یقینی بنایا جاسکے۔ مینیجر کو تمام معاملات پر نظر رکھنے کا ہنر آنا چاہیے۔ اس حوالے سے صلاحیت کو پروان چڑھانا ہی کافی نہیں‘ سکت کا گراف بلند کرنا بھی لازم ہے تاکہ زیادہ تھکن محسوس کیے بغیر زیادہ سے زیادہ کام کیا جاسکے۔
کبھی آپ نے سوچا ہے کہ اکیسویں صدی کی زندگی آپ سے بھی متنوع صلاحیتوں کی طالب ہے؟ زندگی کے حوالے سے آپ کو وہی طرزِ فکر و عمل اختیار کرنی ہے جو ایک مینیجر کو اپنانا پڑتی ہے۔ اچھا مینیجر دن رات اپنے شعبے کی تبدیلیوں پر نظر رکھتا ہے۔ اُسے ادارے کا مورال بھی بلند رکھنا پڑتا ہے۔ ناموافق حالات کے شدید اثرات کا گراف نیچے لانا بھی اُسی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ وہی منصوبہ سازی بھی کرتا ہے اور اُن پر عمل بھی کراتا ہے۔ مینیجر ہی ادارے کے تمام وسائل کو بھرپور انداز سے بروئے کار لانے کی منصوبہ سازی کرتا ہے ‘تاکہ ادارے کے لیے لاگت اور انتظامی اخراجات کا گراف زیادہ بلند نہ ہونے دیا جائے۔
زمانے کا تقاضا ہے کہ زندگی کو بھی ادارے کے طور پر لیا جائے اور اپنے آپ کو اُس کے مینیجر کے منصب پر فائز کرکے معاملات کو چلایا جائے۔ ایک اچھا مینیجر ادارے کو کسی بھی طور خسارے کی دلدل میں گرنے نہیں دیتا۔ مشکل حالات کا سامنا کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ آسانیاں تلاش کرنا اُس کے منصبی فرائض میں شامل ہوتا ہے۔ آپ بھی اپنی زندگی کے مینیجر ہیں۔ زندگی کو ممکنہ حد تک سہل بنانا آپ کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ہے۔ آپ کو آنے والے زمانے کا اندازہ بھی لگانا ہے‘ منصوبہ سازی بھی کرنی ہے‘ اُس پر عمل ممکن بنانے کے حوالے سے وسائل کا اہتمام کرنا اور متعلقین کو ایک پلیٹ فارم پر لاکر حقیقی حُسنِ ترتیب بھی پیدا کرنا ہے‘ درست سمت کی نشاندہی بھی کرنی ہے‘ انسانی و غیر انسانی وسائل میں ہم آہنگی بھی پیدا کرنی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تمام معاملات کو اپنے اختیار و تصرف میں بھی رکھنا ہے۔
اپنے آپ کو اپنی زندگی کا اچھا مینیجر ثابت کرنے کے لیے آپ کو وہی کچھ کرنا پڑے گا جو کسی بھی کاروباری ادارے کا نظم و نسق سنبھالنے والے تربیت یافتہ فرد کو کرنا پڑتا ہے۔ پہلے تو رسمی تعلیم و تربیت کے ذریعے خود کو نظم و نسق کے منصب کا اہل بنانا پڑتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں اپنے ہنر کو بروئے کار لانا پڑتا ہے۔ تیسرا مرحلہ اپنے نظم و نسق سے متعلق اپنے کردار کو زیادہ سے زیادہ وسعت دینے کا ہے۔ اگر آپ اپنی زندگی کو اچھی طرح manage کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں‘ تو خالص غیر جانب دار انداز سے اپنے تمام معاملات کا جائزہ لے کر خرابیوں کو دور کرنا پڑے گا۔ یہ عمل ایسی غیر جانب داریت کا متقاضی ہے جس میں سَفّاکی کا گراف خاصا بلند ہو۔ ایک اچھا اور مستعد مینیجر کسی بھی ناموافق صورتِ حال کو برداشت نہیں کرتا۔ اگر آپ اپنی زندگی کے قابلِ رشک مینیجر ثابت ہونا چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ اپنی تمام خامیوں کو بالکل برداشت نہ کریں اور جلد از جلد اُن سے دامن چھڑانے کی بھرپور کوشش کریں۔ ایک اچھے مینیجر کے نقوشِ قدم پر چلتے ہوئے آپ کو تمام دستیاب وسائل سے کماحقہ استفادہ کرنا ہے‘ اُنہیں احسن طریقے سے بروئے کار لانا ہے‘ تاکہ زندگی کا معیار بلند ہو ‘اسی صورت زندگی خسارے سے ہٹ کر چلتے ہوئے تیزی سے منافع کی طرف بڑھ سکتی ہے۔